بشارت بشیرؔ
کائنات ہست وبود میں جن وانس کی تخلیق کا جو مقصد وحید خود خالق نے بیان فرمایا ہے: وہ یہ کہ (وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ) یعنی’’ میں نے جن وانس کو سوائے اس کے کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ اُس کی سبھی نازل کردہ کتب اسی پیغام بندگی سے مزین تھیں اور یہی درس زریں دے کر انبیاء ومرسلین کو مختلف گوشہ ہائے زمین میں بھیج دیاگیا ۔جی ہاں!بندگی یعنی کامل غلامی صرف اللہ کی کی جائے اور اپنی مرضی اُس کی رضا میں فنا کی جائے۔اُس کی خوشنودی مطلوب ومقصود ہو ۔گو ہر ذرئہ دنیا ناک بھوں چڑھائے۔ سجدہ ریزی بس اُسی کی چوکھٹ پر ہو ۔گو کتنے ہی ’’سربلند‘‘اس سر افگندگی کو پسند نہ کریں۔آنکھیں ہر لحاظ سے ہر موقع پر بس اُس کی جانب اُٹھ جائیں۔گوکتنی ہی آنکھیں یہ دیکھ کر لال ہوجائیں ۔ بندگی محض چند مراسم تک محدود نہیں۔ گو مقررہ عبادات اس کے سنگ میل ہیں۔تصور عبادت تو اصل میںیہ ہے کہ اللہ کے دین میں پورے کا پورا داخل ہواجائے اور بندہ ہر آن خود سپردگی کا مظاہرہ کرے۔ کھانا پینا ، رہن سہن ، بود وباش، آرام ومشقت، سفر وحضر اور شب وروز غرض ہر لمحہ ٔ حیات اُس کی بندگی اور مرضی کے عین مطابق گذرے،اور یہ بندگی اُسی صورت میں مقبول ٹھہرے گی ،جب یہ اُن سانچوں میںڈھل جائے جو شریعت مطہرہ نے بناکے دئے ہیں یا یوں کہیے مقرر کئے ہیں۔ سفر حیات کے دوران مؤمن شیطانی حملوں کو پسپا کرتے ہوئے جادئہ حق پر گامزن رہے یہی بندگی ہے۔یہ بات بھی درست کہ پوری زندگی ایسے ہی گذرے یہ بھی کوئی آسان کام نہیں۔اس کے لئے استقامت واستقلال کی لازوال دولت سے مالا مال ہونا لازم ہے، اور ذہنی ، روحانی ، انفرادی اور اجتماعی تربیت سے آراستہ ہونا لابدی۔نماز ، روزہ وزکوٰۃ، حج ، عمرہ ، اذکار وادعیہ خود ایسے ہی مؤمن سازی کے امور ہیں۔ یہ کام خود بندگی بھی ہیں اور پوری زندگی کو عبادت بنانے کا وسیلہ بھی۔ان عبادات میںحج کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ،یہ بات دینی حِس ومزاج رکھنے والے اہل ایمان سے مخفی نہیں۔ اس فریضہ اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے اس کے پیام سرمدی پر تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ایک جامع عبادت ہے۔ حج کے لغوی معنی ’’زیارت کا ارادہ‘‘ کرنے کے ہیں۔ حج اس لئے کہا گیا کہ مقررہ دنوں میں (13-8ذوالجہ) کو کعبۃ اللہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ دیگر مناسک کی ادائیگی ہو۔ یہ ہر بالغ وصاحب استطاعت پر فرض ہے،اور اگر ان دونوں شروط کو پورا کرتے ہوئے بھی کوئی بندہ بندگی کی اس نوع سے محروم ہے تو وہ خائب خاسر ٹھہرا۔قرآن نے بلیغ اندازمیںکہا ہے 🙁 وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ)[سورۃ :آل عمران:97] یعنی :’’ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو جان لے کہ اللہ ساری دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کے عمل کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے جو لمحہ ٔ فکریہ ہے۔یہ کام کس قدر مبارک ، پاکیزہ ، غنیمت اور بیش قیمت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا : حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح صاف کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کرتی ہے۔[ ترمذی] .یہ بھی ارشاد فرمایا:’’ جس نے صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لئے حج کیا ، کوئی ہوس رانی کی نہ کوئی گناہ کیا ، وہ ایسا ہوکر لوٹا جیسے اُس دن تھا، جس دن اُس کی ماں نے اُسے جنا‘‘۔حج کی اصل اُسوئہ ابراہیمی ؑ کی تجدید ہے۔ یہ مراسم عبادات کی روح ہیںاور بندگی کا انوکھا انداز۔کون نہیں جانتا کہ اللہ کی زمین پر کعبۃ اللہ اُس کا پہلا گھر ہے۔ اس کے ساتھ سیدنا ابراہیمؑ وسیدنا اسماعیل ؑ کی وہ یادیں بھی وابستہ ہیں جو لازوال بھی ہیں اور لاثانی بھی ۔اللہ کی اطاعت ، یکسوئی ویک روئی ، بندگی کا عروج یہ وہ تاریخ ہے جس کا ہر ہر حرف رخشندہ بھی ہے اور تابندہ بھی ۔ سیدنا ابراہیمؑ کی زندگی پر اس قدر سبھی محبتوں پر اللہ کی محبت غالب تھی ،کہ اُن کی حیات طبیہ کا پل پل اُس کا شاہد عادل ہے۔آپؑ نے ایثار وقربانی اور جہد مسلسل کا جو مظاہرہ فرمایا فلک پیر ہنوز عش عش کررہا ہے۔پھر اُن کی ادائیں مولا کو اُس قدر بھائیں کہ خلیل کے لقب سے ملقب کیا ۔ یعنی دوست کہہ کر پکارا۔پوری انسانیت کی سند امامت سے نوازا۔اور یہ بھی کہ جناب رسول رحمتؐ کے ساتھ درود وسلام میں اگر کسی کو شامل رکھا گیا تو وہ بس براہیمی ؑ مبارک ذات ہے۔ابتلا وآزمائشوں کے کٹھن ادوار سے اس لئے شادان وفرحان گذرے کہ مولا خوش ہو،اور پھر مولا کو بھی عبودیت اورفدویت کا یہ انداز اس قدر پسند آیا ،کہ ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ نار نمرد گلزار بن کے رہ گیا۔یوں رہتی دنیا تک کی مخلوق پر یہ واضح ہوا کہ جو صمیم قلب سے اللہ کا بنتا ہے جملہ خلق خدا اُس کے در پے آزار ہوجائے اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔بندئہ مؤمن ہر زماں میں بہ زبان حال کہتا ہے ؎
اگر جملہ جہانم خصم کردند نہ ترسم چوں نگہ بانم تو باشی
زِ شاددی در ہمہ عالم نہ گنجم اگر یک لحظہ غم خوار م تو باشی
یعنی : ’’اگر سارا جہاں میرے خلاف کمر بستہ ہو۔ کوئی غم نہیں۔ اے میرے مولا اگر تو میرے ساتھ ہے۔میں خوشی سے اتنا پھول جائوں کہ ساری زمین مجھ کو اپنے پہ نہ سما پائے ،اگر تو میرا غم خوار وغم گسار بنا رہے‘‘۔
بات حج بیت اللہ کی ہو رہی ہے۔ اس کے مناسک پر غور کیجئے۔سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے اور احرام کا لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف ، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ کی روانگی ، منیٰ کا قیام، رمی جمار کا عمل اور سر کے حلق یا قصر کی ذمہ داری ہر چیز سے بندگی کی روح چھلکتی اور غلامی کی خو جھلکتی ہےاور پیغام اس عمل کا یہ کہ ساری زندگی راہ حق پر گامزن رہا جائے اور پائے استقامت میں کبھی کوئی ڈگمگاہٹ نہ آئے۔ یہاں رنگ ونسل ، زبان ، علاقائی امتیازات اور سماجی تنوع کا کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ تہذیب وتمدن کے سارے خول اُتر کے رہ جاتے ہیں۔کیا حکمت ہے اس سارے عمل میں پوشیدہ کتابیں رقم کی جاسکتی ہیں۔فی الوقت سید سلیمان ندوی ؒ صاحب کی اس حوالہ سے یہ تابندہ تحریر نظر نواز ہو۔کتنی گرہیں کھل جائیں گی ،اور ذہن کس قدر دانش آشنا ہوگا۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’خانۂ کعبہ۔یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے ،جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں جو مختلف ملکوں اور اقلیموں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ ٔ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں، اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت، رنگ روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹاکر ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیم علیہ السلام) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملتِ ابراہیمی ؑ) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’لوگ آج یہ خواب دیکھتے ہیں کہ قومیت اور وطنیت کی تنگ نائیوں سے نکل کر وہ انسانی برادری کے وسعت آباد میں داخل ہوں، مگر ملتِ ابراہیمی کی ابتدائی اُمت اور ملتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجدیدی پکار نے سینکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لیے ایک واحد زبان کی ایجاد وکوشش میں مصروف ہیں، مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیمؑ کے لیے مدت دراز سے اس مشکل کو حل کردیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک ورلڈ کانفرنس یا عالم گیر مجلس کے انعقاد کے درپے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ساڑھے چودہ صدیوں سے یہ مجلس دنیا میں قائم ہے اور اسلام کے علم، تمدن، مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علَم بردار ہے۔‘‘کچھ آگے چل کر مولانا ؒلکھتے ہیں:’’اسلام کے احکام اور مسائل جو دم کے دم میں اور سال ہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اُس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمد و رفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے، اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسانؐ جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، 23 برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدینؓ اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرامؓ اور ائمہ اسلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہوکر احکامِ اسلام کی تلقین و تبلیغ کی خدمت ادا کی، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق دنیا کے مختلف گوشوں میں
اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے اورپہنچتےرہتے ہیں۔(سید سلیمان ندویؒ ۔سیرت النبیؐ ،پنجم)۔غرض یہ عالم گیر اجتماع ملت اسلامی کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے ۔اس کے بدن میںمحبت، مروت اور باہم مودّت کی روحِ تازہ پھونک دیتا ہے۔اختلافات اور وسیع فاصلوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جڑے رہنے کاپیام دیتا ہے۔ جامہ احرام حج درس وحدت ہی دے رہا ہے ۔امت مسلمہ کے دل ایک دوسرےکی محبت سے سرشار ہوں،ہم انسانیت کے لئے ہر زمین و زمان و مکان میں شجر سایہ دار ثابت ہوں تو ادبار و ذلت کے بادل چھٹ جائیں گے اور اقبال و بلند بختی کا سورج پھر طلوع ہوگا ،سب سے کٹ کر بس اللہ کا ہوا جائے تو یہی پیام حج بھی ہے اور مقصد زندگی بھی۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جن کے دل حج بیت اللہ کے لئے سینوں میں رقصاں ہیں،اس سعادت سے سرفراز فرمائے ۔آمین
رابطہ۔7006055300