چونکہ اس بات سے کوئی بھی سنجیدہ انسان انکار نہیں کرسکتا ہے کہ فلم انڈسٹری کا کمال یہ ہے کہ اس نے مذہب، سماج، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات وغیرہ کے سارے ذہنی فلٹرز بے کار کردیے ہیں کہ جن کے بے کار ہوجانے سے ہر گندگی اور نجاست انسانی خیالات اور تصورات میں شامل ہوتی چلی جارہی ہے۔
اسی طرح پچھلی کئی دہائیوں سے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ (یعنی محبت کرنے والوں کا دن) کو بھی بہت زیادہ فروغ مل رہا ہے، یہ دن اصل میں محبت کی تجارت کا دن ہوتا ہے، آج کل ویلنٹائن ڈے کے پیغامات کی ترسیل زیادہ تر فیکس، ای میل، موبائل اور انٹرنیٹ جیسے تیز رفتار ذرائع سے ہوتی ہے اور اس کے باوجود بھی بازاروں میں ویلنٹائن ڈے کے کارڈوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی عورت کی عزت و عصمت اور اس کی غیرت نسوانی کے نیلامی کے محرکات کار فرما ہوتے ہیں، یہ پہلے مغربی و یورپی ممالک تک ہی محدود تھا مگر اب تو اس کا ہر ملک میں فروغ مل رہا ہے، حتی کہ ہندو پاک کا میڈیا، خواہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ میڈیا، بھی اس کے بارے میں خبریں منظر عام پر لاتا ہے، اور ان دونوں ملکوں میں بھی اس دن کو منایا جاتا ہے اور اس میں شرکت کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں، سب جذبات کی رو میں بہہ کر ایک دوسرے سے جنسی تسکین حاصل کرنے والے ہوتے ہیں اور اس میں عموماً وہی لڑکے اور لڑکیاں شرکت کرتے ہیں جو اپنے والدین سے الگ ہوچکے ہوں اور جو زیادہ تر وقت گھر سے باہر پارٹیوں، نائٹ کلبوں اور طرح طرح کی عیاشیوں میں گزارتے ہیں۔ اس موقع پر الگ الگ جوڑے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کے قسمیں اور وعدے بھی کرتے ہیں جو کہ زیادہ تر جھوٹے اور فراڈ ثابت ہوتے ہیں، جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس بازار عشق میں غیر شعوری طور پر شکار ہر اعتبار سے صرف عورت ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس طرح کے جوڑوں کو آج کل بڑی آسانی سے ہوٹلوں میں رات گزارنے کے لیے کمرے بھی مل جاتے ہیں اور جب ان کے جنسی جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کرکے کچھ تو ان میں نئے ہمسفر کی تلاش شروع کردیتے ہیں، لیکن جو عورتیں اس فریب سے باہر آنا چاہتی ہیں تو پھر وہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتی ہیں اور بعض اوقات اس طرح کی عورتیں اپنے معاشرے میں واپس لوٹنے کے ڈر کی وجہ سے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کردیتی ہیں۔ تاہم ان کے ناجائز تعلقات یا غیر قانونی شادی کے ذریعہ ان سے جو نئی نسل جنم لیتی ہے، وہ بھی بڑھے ہو کر اسی راہ پر چل پڑتی ہے اور اس طرح سے اب اس نئی نسل کی بے لگامی کی وجہ سے یہ دنیا دھیرے دھیرے انسان نما حیوانوں کی آماج گاہ بنتی جارہی ہے، بلکہ اسی ضمن میں آج کل ایسے واقعات اور خبریں بھی پڑنے کو مل رہی ہیں کہ مغربی و یورپی ممالک میں بہت سے عورتیں اپنی غیر محدود آزادی اور بے راہ روی کے ماحول سے دل برداشتہ ہو کر اجتماعی طور پر گھر واپسی کی اور بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ جان گئی ہیںکہ کوئی بھی غیر فطری قدم آدمی کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور آج کی عورت جو کچھ آزادی کے نام پر کررہی ہیں وہ قانون فطرت سے بغاوت کے سوا کچھ نہیں لیکن اگر واقعی کسی عورت کو اپنی اس ابلیسی طرز زندگی سے بیزاری محسوس ہورہی ہو اور وہ اس جہنم زار ماحول سے آزاد ہو کر اپنے گھر لوٹنا چاہتی ہیں تو یہ بہت ہی خوش آئند بات ہوگی اور ایسی عورتوں کی دل شکنی کی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر صبح کا بھولا، شام کو گھر لوٹے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت کا آج کل جس طرح سے استعمال بلکہ استحصال ہورہا ہے، اس کی بنیادی ذمہ دار وہ خود بھی ہے۔ اگر بقول شاعر مردوں نے اسے بازار دیا اور اس کے حسن و غیرت کو نیلام کیا تو سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنی نام نہاد آزادی کے لیے لڑسکتی ہے، آزادیٔ نسوانی کی تحریک چلا سکتی ہے اور اپنے حقوق کی پاس داری کے لیے اپنی جان تک دے سکتی ہے تو کیا وہ اپنی عفت و عصمت اور عزت و غیرت کو بچانے کے لیے سماج سے نہیں لڑسکتی؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ اس کی غیر معمولی آزادی اور اس کی بے حجابی و بے لباسی کی وجہ سے انسانی معاشرہ کس تباہی کی اور جارہا ہے؟ اور آج کس طرح کی بے راہ روی کی اور کس قدر جنسی رجحان و ہیجان پایا جاتا ہے؟ دراصل اس کی بنیادی ذمہ دار خود عورت ہوتی ہے۔ اس کا گھر سے بنائو سنگار کر کے باہر نکلنا، باریک کپڑے پہننا، موجودہ دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اس طرح کی عورت کی طرف مرد تو کیا شیطان بھی جھانکتا رہتا ہے، جیسا کہ حدیث اس طرح آئی ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورت پوری کی پوری پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ (الترمذی، کتاب الرضاع، حدیث نمبر ۱۱۷۳)
اس حدیث میں شیطان کے جھانکنے اور تاکنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت کی نیم عریانی سے فائدہ اٹھا کر مردوں کو اس کے فتنہ میں ڈالے، چونکہ یہ بھی تاریخ انسانی سے معلوم ہے کہ بعض دفعہ عورتوں کے فتنہ کے ذریعہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دہ چیز کوئی نہیں ہے۔ پوری حدیث اس طرح آئی ہے۔
’’حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ (بخاری کتاب النکاح، حدیث ۵۰۹۶/ مسلم کتاب الذکر والدعاء ۔۔۔، حدیث نمبر ۲۷۴۰)
ایک اور حدیث ہے۔
’’حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلاشبہ دنیا بہت میٹھی اور ہری بھری ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں تمھیں (تم سے پہلے والوں کا) جانشین بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، لہٰذا تم دنیا (میں کھوجانے) سے بچتے رہنا اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے) سے بچتے رہنا، اس لیے کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کے معاملہ میں اٹھا تھا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء – حدیث نمبر ۲۷۴۲)
اصل یہ کہ ایک عورت کے حسن و جمال اور اس کی نازک ادائوں میں مردوں کے لیے غیر معمولی جاذبیت پائی جاتی ہے، اس لیے جب وہ بنائو سنگار کے ساتھ گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو سب سے پہلے شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے اور اس بات کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اس عورت کو وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ اگرچہ بعض اوقات عورت کا اپنا ارادہ اس میں شامل نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود بھی شیطان اس کی جاذبیت اور کشش کے حوالے سے بہت بڑے فتنے کھڑا کردیتا ہے اور پھر بدقسمتی سے عورت بھی اسی طرح شیطان کے فریب کا شکار ہوجاتی ہے، جس طرح مرد ہوسکتا ہے، اس لیے اس سنگین صورت حال کا علاج مرد کے پاس نہیں بلکہ عورت کے پاس ہے، کیونکہ اس کی وجہ صرف عورت ہی ہے اور جب وہ مخلوط پارٹیوں میں جاتی ہے تو عام مردوں کی نظریں صرف اسی پر ٹکی رہتی ہیں اور پھر وہیں سے فتنے پھوٹنے لگتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس پر شرعی حدود کے دائرے میں روک لگادی جائے تو بلاشبہ معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے اور پورے معاشرہ کو اچھائیوں سے آراستہ کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے فلم انڈسٹری نے عورت کو خاتون خانہ کے منصب عالیہ سے اٹھا کر اسے شمع محفل کی ملکہ بنادیا ہے، اور اس کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کئی نام بھی دئے ہیں۔ جیسا کہ کبھی اس کی نازک ادائوں سے فائدہ اٹھا کر اسے ہیروئن کا نام دیا گیا اور کبھی اس کی خوبصورتی کی آڑ میں اسے بازار حسن میں حسینۂ عالم بننے کے خواب دکھائے گئے۔ اور بھی اس طرح کئی پُر فریب ناموں او رکرداروں کے ذریعہ اس کی نسوانی شخصیت کو تماشا اور داغ دار بنادیا گیا ہے،اور جس کی وجہ سے آج بھی وہ بظاہر سب کچھ پانے کے باوجود احساس تحفظ کی شکار نظر آتی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ سب کچھ بننے کے بعد بھی عورت نہ بن سکی کیونکہ اس نے جس طرح کے کرداروں میںخود کو ڈالا ہے، ان کے لیے وہ پیدا ہی نہیں کی گئی تھی، اس لیے اس سے اس نے اپنی پہچان ہی کھودی ہے۔
ایک عورت کی حقیقی پہچان کیا ہے؟ اس کا صحیح جواب صرف اسلام کے پاس ہے۔ چنانچہ اسلام کے نزدیک ایک عورت کا پورا وجود اور اس کی پوری زندگی صرف چار مقدس ناموں اور کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے، اور وہ چار نام یہ ہیں، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی اور انہی چار ستونوں پر عالم انسانیت کھڑی ہے۔ لیکن جب ان چار ستونوں میں بد اخلاقی، بدکرداری اور بے حیائی کے ذریعہ دراڑ اور بھونچال آگیا تو سب کچھ زیر و زبر ہوگیا اور انسانی معاشرہ مکمل طور پر حیوانت کی شکل اختیار کرگیا اور پھر قہر الٰہی نے سب کچھ ڈھادیا۔ جیسا کہ کچھ تھا ہی نہیں۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ مولانا محمد جوہر سے کسی یورپین عورت نے دریافت کیاتھا کہ عورت کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ میں صرف چار قسم کی عورتوں -ماں،بہن، بیوی اور بیٹی- کو جانتا ہوں اور انسانی زندگی انہی پر مشتمل ہے۔
(۱) اپنے وجود کے آنے اور پلنے میں ماں اثر انداز ہے
(۲) انسانی محبت کا مظہر ماں اور بہن ہے
(۳) زندگی کی گاڑی کھینچنے، وجود انسانی اور نشو ونما میں بیوی کار فرما ہے
(۴) ماں، بہن اور بیوی کی محبتوں کی جامع اور دوسروں کی ماں بہن ، بیوی اور بیٹی کے وجود میں آنے کا ذریعہ بیٹی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور کی زیادہ تر عورتوں نے اپنے ان چاروں کرداروں کے ذریعہ رول ماڈل بننے سے خلاصی پاکر اپنے آپ کو ایک ایسے سنسان صحراء میں لاکھڑا کیا ہے، جہاں پر اس کو ہر وقت ایسے درندوں سے خطرہ لاحق رہتا ہے، جو اس کے بدن کو نوچ نوچ کر کھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر آج بھی ایک عورت اپنا وقار اور اپنی عصمت کو بچانا چاہتی ہے اور ایک نیک خاتون بننا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر عورت ہونے کا احساس پیدا کرے اور اپنی فطری صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کو سمجھے اور خدا نے جو دائرہ کار اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے، اس سے باہر نہ جائے اور ساتھ ہی اسلامی تعلیمات، جو ایک عورت کے لیے بہترین زیور ہے، پر عمل آوری سے خود کو آراستہ کرے کیونکہ اس کے بغیر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے، وہ صرف تباہی کی طرف جاتا ہے۔ بلکہ ہر عورت کو چاہیے کہ وہ اس حدیث نبوی کی حقیقی مصداق بننے کی کوشش کرے:
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دنیا متاع (بہترین سامان زندگی) ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔ (مسلم کتاب الرضاع، حدیث نمبر ۱۴۶۹)
مطلب یہ کہ دنیا میں سب سے بہترین سامان زندگی نیک بیوی ہے۔ دنیا کی محدود اورمتعین مدت میں شوہر کو نیک بیوی کی رفاقت سے اطمینان، سکون اور راحت کی نعمت میسر آتی ہے لیکن اس سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ اگر بیوی بدمزاج، کج خلق، زبان دراز اور گھر سے باہر قدم رکھنے والی ہو تو شوہر کا سکون برباد ہوجاتا ہے اور اس کی خانگی زندگی فساد اور انتشار کی شکار ہوجاتی ہے، اس لیے اس صورت میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بدترین متاع نالائق بیوی ہے۔
حفیظؔ جالندھری نے نیک خواتین کے بارے میں یہ چند اشعار کہے ہیں۔
شرم وعزت والیاں
ہوتی ہیں صفت والیاں
سرمایۂ شرم و حیا
زیور ہے ان کے حسن کا
اعزاز ملت ان سے ہے
نام شرافت ان سے ہے
ایمان پر قائم ہیں وہ
پاکیزہ و صائم ہیں وہ
آنچار (صورہ) سرینگر کشمیر ۱۹۰۰۱۱
موبائل91 9419 734 878
( ختم شد)