سرینگر// سرینگر کے نوگام علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو مبینہ طور شوہر سمیت سسرال والوں کی طرف سے جلانے کی کوشش کے خلاف انکے رشتہ داروں اور اہل علاقہ نے احتجاج کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا کہ کب تک بنت حوا کو جہیز کی بھینٹ چڑھایا جائے گا۔پولیس نے اس معاملے میں کیس درج کر کے خاتون کے شوہر اور برادر نسبتی کو پہلے ہی حراست میں لیا ہے۔ پریس کالونی میں جمعرات کو نوگام کھانڈے کالونی سے آئے ہوئے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ علاقے کی ایک خاتون کو سسرال والوں نے زبردستی آگ کے شعلوں کے سپرد کرنے کی کوشش کی تاہم وہ کسی طرح سے بچ نکلی۔احتجاجی مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڑ اور بینر اٹھا رکھے تھے،جن پر خواتین کو تحفظ دینے،جہیز کی لعنت کو ختم کرنے اور خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف نعرئے تحریر کئے گئے تھے۔ احتجاجی مظاہرین میں شامل طاہر احمد بزاز نامی شہری نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’’8 اگست کو انکی بہن پر زبردستی مٹی کا تیل چھڑ کر آگ لگانے کی کوشش کی گئی،تاہم کسی طرح سے اس نے خود کو بچایا اور سسرال والوں کے چنگل سے فرار ہوئی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اصل میں7اگست کو ہی انکی ہمشیرہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھاجبکہ اس کے جسم اور مخصوص اعضا پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے،تاہم جب وہ کدلہ بل بہن کے سسرال پہنچے اور بہن کو اپنے ساتھ میکے لانے کی کوشش کی تو انکے سسرال والوں نے اس کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ کچھ دنوں کے بعد اس کی رخصتی کی جائے گی۔بزاز نے کہا کہ8 اگست کو وہ اس وقت گھر میں ششد رہ گئے جب زخموں سے چور انکی بہن نے اچانک دستک دی اور اپنی رداد سناتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہیں سسرال والوں نے مٹی کا تیل لگا کر جلانے کی کوشش کی تاہم’’انکے شوہر کو اچانک فون آیا ،جس کے بعد پروگرام کو ترک کرکے انہیں کمرے میں بند رکھا گیا،مگر سسرال والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے وہ انکے چنگل سے فرارہونے میں کامیاب ہوئی‘‘۔ طاہر نے کہا کہ بہن کی یہ حالت دیکھ کر انہوں نے پولیس تھانہ پانپور سے رجوع کیا اور بہن کے سسرال والوں بشمول شوہر اور برادر نسبتی کے خلاف کیس درج کیا،جس کے بعد انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔انہوں نے بتایا کہ اصل میں3برس قبل انکی ہمشیرہ کا نکاح میر محلہ کدلہ بل پانپور میں ارشد احمد میر کے ساتھ ہواجبکہ ابتدائی ماہ میں ہی انکی بہن کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیاتاہم انہوں نے برداشت کیا،مگر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سسرال والوں نے اس کو ختم کرنے کا پروگرام ہی بنادیا۔ طاہر بزاز نے کہا’’ میں پیشے سے ایک چھوٹا دکاندار ہو،اور بہن کے سسرال والے نیا مکان تعمیر کرنے کیلئے بار بار اس سے25لاکھ روپے جہیز کا تقاضا کرتے تھے،میں اس کا انتظام کس طرح کرسکتا تھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ ابھی بھی جہیز کے نام پر لڑکیوں کو ستانے اور مارنے کا سلسلہ جاری ہے اور اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو زمانہ جہالت کی طرح پھر سے والدین ازخود اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرینگے۔