’’ اسلام اور عورت‘‘ دورِ حاضر کا ایک حساس موضوع ہے جس پر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔’’ اسلام اور عورت‘‘ کے موضوع کو لے ان دونوں پلیٹ فارمز پر ایک بحث شروع کر دی گئی ہے جس سے عورت ذات کے متعلق عصری تعلیم گاہوں سے فارغ التحصیل انسانوں کا ماڈرن طبقہ کئی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ عورت کی فطری حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر اسلام نے عورت کو کچھ خصوصیات سے نوازا تھا ، لیکن عورت کی اس مخصوص حیثیت پر بعض لوگ کئی سوالات پیدا کر رہے ہیں اور عورت کااسلامی پردہ اختیار کرنا ، خود کو مردوں کی سرگرمیوں سے دور رکھنا، اپنے شوہروں کے تئیں وفاداری کا مظاہرہ کرنے جیسے اسلامی احکامات پر اعتراضات کرکے اِسے عورت طبقے پر ظلم و جبر اور تشدد سے تعبیر کر رہے ہیں۔انسانوں کے اس جدید طبقے کے مطابق اسلامی تعلیمات دراصل عورت ذات پر ظلم و تشدد روا رکھنے کی آزادی فراہم کرتی ہے۔ عورت ذات کی اس مظلومی کی حمایت میں عورتوں کے طبقے میں سے ہی ایک تحریک پیدا ہوئی ہے جسے انگریزی میں ’’ Feminism‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تحریک مغرب میں پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ آج مشرقی ممالک خصوصی برصغیر ہندو پاک میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ تحریک گویا عورتوں کے اس مظلوم طبقے کی حمایت میں اُٹھ کھڑا ہوئی ہے اور دنیا کے کونے کونے میں عورتوں کے حقوق ( جنھیں اس تحریک کے علمبرداروں کے مطابق اسلام نے غصب کیا ہوا ہے)کی بازیابی کی بات کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں اسلامی تعلیمات عورت مخالف(Anti-Women) ہیں اور کیا واقعی اسلامی تعلیمات عورتوں کے ساتھ ظلم و تشدد روا رکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ اسلام کے مآخد یعنی قرآن کو حدیث کی جانب جب ہم رجوع کرتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس پاتے ہیں۔
انسانیت کی نصف عورت ذات کو اسلام نے بلند مقام و مرتبے سے نواز کر عزت و توقیر عطا کی ہے۔ ماں، بہن اور بیوی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی یہ مخلوق انسانیت کے لیے سراپا رحمت ہے۔بس شرط یہ ہے کہ عورت اسلام کے مزاج کو سمجھ کر اس کی تعلیمات پر من و عن عمل کرے۔ یہاں ہم عورت کو بطور ایک بیوی کے پیش کرکے اُس کے مقام کو مرتبے کو مبرہن کرنے کی کوشش کریں گے۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا ہے:چار چیزیں خوشی دیتی ہیں:نیک عورت، وسیع گھر، اچھا پڑوسی اور بہترین سواری۔ (بخاری)
شرعیت مطہرہ نے مرد کو عورت پر برتری دی ہے، اور اس برتری کے دلائل اتنے قوی ہیں کہ آج کے دور میں خود کو مظلوم طبقہ گرداننے والی عورتوں کے اعتراضات بودے معلوم ہوتے ہیں۔ عورت کو اپنے خاوند کی صورت میں وہ تحفظ حاصل ہے کہ یہ تحفظ نام نہاد ترقیاتی اداروں اور روشن خیالی کا درس دینے والے اداروں میں مفقود نظر آتا ہے۔ ان اداروں میں کام کر رہی عورت ذات اصل میں خود کو انسان نما بھیڑیوں کے حوالے کرتی ہے جہاں پر نہ اُس کی عزت وناموس محفوظ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ خود میں کوئی مثبت تبدیلی لا پاتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے ضمن میں ایک نیک بیوی مرد کے لیے کسی سعادت سے کم نہیں۔ یہ اصل میں عورت کی عزت و تعظیم ہی ہے کہ قرآن نے مرد کو اُس کا قوام قرار دیا۔’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بناء پر کہ اللہ نے اُن میںسے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیںا ور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(النساء:۳۴)
قوام ہونے کے معنی یہ نہیں ہے کہ مرد عورت کا داروغہ ہے اور وہ جب چاہے صنفِ نازک پر ظلم و تشدد کرے ۔ قوام کے معنی یہ ہیں کہ عورت خود کفیل نہیں ہے بلکہ اُس کی نگہداشت اور عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اکیلے مرد پر ہے۔ لیکن اسلام میں اس قدر عزت و تحفظ فراہم ہونے کے باوجود بد قسمتی سے آج کی خواتین اپنے شوہر کی اطاعت کرنے میں حقارت محسوس کرتی ہے۔ اس کے عین برعکس وہ سماج میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انڈسٹریوں ، فیکٹریوں، مالیاتی و تعلیمی اداروں وغیرہ میں مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے میں پیش پیش رہتی ہے۔اس کے معاشرے پر کیا برے اثرات رائج ہو رہے ہیں،اس پر سنجیدگی سے غور کرنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جا تی ہے کہ مرد و زن کے اس غیر فطری اختلاط سے معاشرہ کئی خباثتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کسی بھی نوعیت کا اختیار دینے کے حوالے سے رسول ﷺ کاارشادِ گرامی ملاحظہ فرمائیں:
’’ وہ قوم ہر گز فلاح نہیں پائے گی جس نے عورت کو حکمران بنالیا۔‘‘(بخاری)۔اصل میں آج مسلم عورتوں پر مغرب کی برپا کردہ ایک غیر اسلامی تحریک Feminism سوار ہو گئی ہے، جو کہ اصل میں سراسر ایک دھوکیہ ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ انگریزی زبان میں اس تحریک کا تعریف یوں کی گئی ہے:
Feminism is a range of political movements , ideologies and social movements that share a common goal to define, establish and archive political economics, personal and social equality of sexes.
المختصر یہ کہ عورتوں کی حقیقی فلاح و کامیابی اسلامی تعلیمات ہی میں پوشیدہ ہے لیکن اس کے لیے ناگزیر شرط یہ ہے کہ عورت خود کو شریعت اسلامی کے سانچے میں ڈھالے۔ظاہر سی بات ہے خود کو شریعت کے پابند کرنے کے لیے عورت کو اسلام کے ماخذ یعنی قرآن و سنت سے خوب آشنائی حاصل کرنا ہوگی،جبھی تووہ اسلام کی طرف سے عطاکرہ ’’ نظامِ رحمت ‘‘ سے متعارف ہو سکے گی۔ اللہ ہم سب کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دورِ نو کے ابلیسی فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین!
٭٭٭