ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بالی ووڈ کہا جاتا ہے اس فلم انڈسٹری میں بظاہر جو چمک دمک دکھائی دیتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اس کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے، اور اس انڈسٹری سے جڑے لوگوں کی گھریلو زندگی صفر کے درجے میں ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت پارٹیوں، نائٹ کلبوں اور ایوارڈ فنکشنوں میں گزرتا ہے اور یا پھر کثرتِ شوٹنگ کی وجہ سے سیٹ پر ہوتے ہیں۔ اور اس فلم انڈسٹری میں جو زیادہ تر فلمیں بنتی ہیں، ان میں پیار و محبت اور رومانس پر مبنی کہانیوں کا غلبہ ہوتا ہے، اور جن میں بوس و کنار، اغوا و ریپ، عریانیت و بے حیائی وغیرہ کے ایسے شرمناک مناظر دکھائے جاتے ہیں، جن سے اخلاقی، تہذیبی اور انسانی قدریں پامال ہوجاتی ہیں، اور جو پورے معاشرہ کو تباہ کرنے والے ہوتے ہیں، اور جن میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر عورت نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہر فلم کے رائٹر اور ڈائرکٹر کی نظر عورت کے کردار پر ہوتی ہے، تاکہ فلم بینوں کے لیے بھر پور طریقے سے تفریح کا سامان میسر ہو، جس سے اندازہ ہوتا ہے ، اس فلم انڈسٹری میں عورت کا کیامقام ہے اور کس طرح فلم بنانے والے عورت کی خوبصورتی سے فائدہ اٹھا کر اپنی مادی دنیا آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور حد یہ کہ مردوں کے مقابلے اس کے بدن سے آدھے سے زیادہ کپڑے اتار لیے گئے ہیں اور وہ کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگی اور عریاں نظر آتی ہے۔ بالی ووڈ کی اس فلم انڈسٹری میں جتنی بھی عورتیں فلموں کے اندر مختلف کرداروں میں نظر آتی ہیں، ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسوانی غیرت کو ختم کرچکی ہیں اور وہ اپنے اس رنگین اور ابلیسی ماحول میں جینے کو آزادی کہتی ہیں، اور وہ بڑی ڈھٹائی سے کہتی ہیں کہ اگر قدرت نے عورت کو حسن بخشا ہے تو اس کو چھپانے کا کیا مطلب ہے؟ بلکہ اسے تو ساری دنیا کو دکھانا چاہیے، اور وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر پھول اپنی خوبصورتی اور خوشبو سے چمن میں چار چاند لگا سکتا ہے اور جس سے سب محظوظ و معطر ہوسکتے ہیں اور کوئی بھی انسان اس کو برا نہیں مانتا تو عورت اپنے حسن کے رنگ سے تصویر کائنات میں رنگ کیوں نہیں بھر سکتی؟ اتنا ہی نہیں، وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو بھی اپنے آزادانہ اور تجدد پسندانہ خیالات کی تائید میں بغیر کسی جھجک کے پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوز دروں
اس طرح کی آزاد خیال عورتیں یہ بھی کہتی پھرتی نظر آتی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں اور وہ کیوں خاتون خانہ بن کر اپنی ساری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزاریں؟ جبکہ ان کی عزت اور ان کی عظمت اسی وقت دوبالا ہوجاتی ہے کہ جب وہ شمع محفل بننے کا شرف حاصل کرلیتی ہیں اور ہزاروں لوگ تالیاں بجا کر اس کے کارناموں پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر رقص و سرود اور ناچ گانے کی محفلیں نہ ہوں تو یہ دنیا قبرستان کی طرح نظر آئے گی۔ اس لیے فلم انڈسٹری کا سارا ماحول اسی ایک عورت کے ارد گرد گھومتا ہے، گویا عورت ہے تو سب کچھ ہے، عورت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اصل یہ کہ دور جدید کی یہ عورت وقت کے ساتھ بدلنے، اپنے جسم سے آدھے سے زیادہ کپڑے اتارنے اور اپنے بال کٹوانے کی وجہ سے نہ تو پوری طرح عورت دکھائی دیتی ہے اور نہ مرد جیسی لگتی ہے، لیکن مرد کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کی دوڑ میں اس کے اندر جو خودنمائی آگئی ہے، اس سے وہ اپنی حقیقی پہچان اور اپنا وقار بھی کھوچکی ہے۔ لیکن اسے شاید اس بات کا احساس نہیں رہا کہ اس نے کس طرح قانون قدرت سے بغاوت کرکے خود کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اور اپنی بے پردگی و عریانیت سے مردوں کے اندر جنسی ہیجان پیدا کر کے خود کو ان کی ہوس کا نشانہ بنادیا ہے، اور اس کی اس بے لگام آزادی نے اس کی زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔
بہت سے اہل دانش عورتوں کی اس بے راہ روی اور بربادی کا ذمہ دار مردوں کو ٹھہراتے ہیں، اس کی ایک مثال ساحر لدھیانوی کی ہے، جو فلمی دنیا کا ایک جانا پہچانا شاعر ہے، چنانچہ جہاں ایک طرف اس نے پیار و محبت کے دل فریب گانے لکھ کر اپنا لوہا منولیا ہے، تو وہاں دوسری طرف اس نے بھی عورت کی عزت و عصمت کو تار تار کرنے کا ذمہ دار مرد کو ہی ٹھہراتے ہوئے ایک طویل نظم لکھ ڈالی ہے، جس کے چند اشعار یہ ہیں ؎
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا
تُلتی ہے کہیں دیناروں میں، بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے، عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے، جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں
جن سینوں نے ان کو دودھ دیا، ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا، اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اُگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
شاعروں اور دوسرے اہل دانش نے عورت کے بارے میں بہت زیادہ لکھا ہے اور عورت کی بربادی کا دوش ہمیشہ مردوں کو ٹھہرایا مگر اس میں کچھ زیادہ سچائی نہیں ہے۔ کیونکہ موجودہ دور میں عورت خود گھر کی چار دیواری سے باہر آکر زندگی کے ہر شعبے میں قسمت آزمائی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چونکہ جب سے وہ مردوں کی طرح کام کرنے کے لیے نکلی ہے تو ظاہر ہے کہ گھر کے باہر کے لوگ اس کے رشتہ دار تو نہیں ہیں کہ جو اس کا ہر وقت خیال رکھیں۔ اس لیے اسے ہر وقت اپنے صنف نازک ہونے کا احساس اور اپنے اردگرد ماحول کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب اس طرح کی عورتوں کا ضمیر اور اپنی عفت و عصمت کا احساس بھی مردہ ہوچکا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے چہرے سے پردہ اور اپنے جسم سے شرم و حیا کا لباس اتار کر اب وہ اپنی ہر چیز کی قیمت وصول کرنے میں جٹ گئی ہیں۔ اگر ایک طرف ساحر لدھیانوی نے اپنی مذکورہ نظم لکھ کر عورت کی حالت زار پر مگر مچھ کے آنسو بہادئے ہیں تو دوسری طرف اسی کے سہارے عشق و محبت کے گانے لکھ کر اپنی شہرت بھی حاصل کرلی ہے اور پیسا بھی خوب کمایا ہے۔ چونکہ شاعروں کے کلام میں عموماً منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کبھی ایک بات کہتے ہیں اور کبھی دوسری بات زبان پر لے آتے ہیں۔ اور قرآن میں بھی اس طرح کے پریشان خیالات رکھنے والے شاعروں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ (دیکھئے سورۃ الشعراء: آیت ۲۲۴ تا ۲۲۶)
عورت کی اس غیر فطری آزادی نے اسے بازار کی چوکھٹ پر لاکھڑا کیا اور اس کی عزت و غیرت اور اس کا قدرتی حسن نیلام کردیا۔ جیسا کہ آجکل مقابلۂ حسن بھی ایک طرح سے عالمی مارکیٹ بنا ہوا ہے۔ چونکہ جب سے عورت نے دیکھا کہ وہ مرد کی سرپرستی والی دنیا سے آزاد ہونا چاہتی ہے تو وہ اپنی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کے ذریعہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو اس نے اپنے حسن کو ایک حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور جیسا کہ اب ہر جگہ لڑکیاں ماڈلنگ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور ان میں کچھ دو قدم آگے بڑھ کر حسینۂ عالم بننے کی دوڑ میں چل پڑتی ہیں اور اس دوڑ میں زیادہ تر فلمی ادا کارائیں میدان مار لیتی ہیں۔ اور وہ کبھی کبھی مصنوعی طریقے مثلاً کاسمیٹک سرجری وغیرہ کر کے محض بناوٹی خوبصورتی اور اپنی نسوانی ادائوں کے ذریعہ مقابلۂ حسن کا خطاب جیتنا چاہتی ہیں۔ اس طرح ان کی اس حسن فروش اور بے راہ روی نے پورے انسانی معاشرہ کو عریانیت و بے حیائی سے دو چار کردیا ہے۔ بلکہ جو گھرانے کبھی شرم و حیا کی مثال بنے ہوئے تھے تو آج ان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو بھی ماڈلنگ کرنے کا چسکا لگا ہوا ہے۔ اور وہ بھی بالی ووڈ کی ظاہری چمک دمک کی گرویدہ ہو کر مس یونیورس کا نام نہاد اعزاز حاصل کرنے کے خواب دیکھنے لگی ہیں۔ تاہم اگرچہ اکثر لڑکیاں اس میدان میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں، تو پھر وہ ٹی وی کے ڈرامہ سیریلوں اور دوسرے شعبوں میں بھی قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور اسی طرح نائٹ کلبوں اور رقص و سرود کی پارٹیوں میں بھی وہ اپنے سے دوگنی عمر کے مردوں یا رئیس زادوں کا دل بہلانے کے لیے اپنے نیم عریان جسم کی نمائش کرتی ہیں۔ اور ان حیا سوز اور شرمناک حرکتوں پر ان کو معاوضہ بھی خوب ملتا ہے، اور یہ سب وہ اپنی غیرت نسوانی بیچ کر حاصل کرتی ہیں۔ چونکہ زمانہ کافی بدل گیا ہے اور گھر میں بھی اب اس طرح کی لڑکیوں کو ان حرکتوں پر کوئی ڈانٹنے کی ہمت نہیں کرتا ہے، جبکہ کسی زمانے میں یہی لڑکیاں اپنی غیرت و عصمت کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک دے سکتی تھیں۔
اصل یہ کہ عورتوں کی اس بے لگام آزادی نے انسانی معاشرہ کو بے پناہ مسائل سے دو چار کرکے رکھ دیا ہے۔ کیونکہ تجربہ اور مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد خیال لڑکیاں ہی سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ جیسا کہ ہندوستانی معاشرہ ہی لیجیے۔ ایسی لڑکیوں کو سینماہالوں، نائٹ کلبوں اور پارٹیوں سے دیر گئے رات کو گھر آنا کبھی کبھی بہت ہی مہنگا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس طرح کی لڑکیاں زیادہ تر رات کو ہی جنسی تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کبھی گاڑیوں میں تو کبھی سنسان جگہوں پر اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات ریپ کے بعد قتل کے واردات بھی پیش آجاتے ہیں۔ اور اس کے بھی بنیادی محرکات فلم انڈسٹری سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ اکثر فلموں میں جس طرح کا رومانس دکھایا جاتا ہے اور جس طرح سے ولن کی طرف سے ہیروئن کا اغوا ء اور پھر ان کا ریپ کرنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں تو اس کا منفی اثر سب سے زیادہ اثر ان لڑکیوں پر پڑتا ہے، جو زیادہ تر گھر سے باہر رہتی ہیں اور جو کچھ ان فلموں میں دکھایا جاتا ہے، تو اس کی نقل کرکے آوارہ اور اوباش لڑکے اندھیری رات کا فائدہ اٹھا کر رات کو گھر لوٹنے والی لڑکیوں کا اغوا کر کے پھر ان کا اجتماعی ریپ کرتے ہے، اور پھر ان کا قتل بھی کرجاتے ہیں تاکہ کوئی ثبوت نہ بچے۔
اس سلسلہ میں جو سب سے زیادہ افسوناک بات ہے وہ یہ کہ ہندوستانی معاشرہ کی اس بربادی کے جو لوگ بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں، ان کو ہیرو اور ہیروئن کا نام دے کر ان کو پھر قومی ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ہے اور شرم و حیا کو تار تار کر نے والے ان کے کارناموں پر ان کو شاباشی دی جاتی ہے اور ان پر انعامات کی بارش کردی جاتی ہے، لیکن ان کی ان قابل اعتراض حرکتوں کے ذریعہ معاشرہ جس تباہی کی اور بڑھ رہا ہے، اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے لوگ حقیقی معنوں میں کسی ایوارڈ کے نہیں بلکہ سخت سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ شاید موجودہ دو رکے روشن خیال کہلانے والے اہل دانش میری اس بات کا مذاق اڑائیں گے، لیکن اگر وہ اپنی بہن، بیٹیوں کے مستقبل کا خیال کرتے ہوئے فلم انڈسٹری کے مقاصد و نتائج پر غور کریں گے تو یقینی طور پر انھیں میری بات کی تائید کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی بلکہ وہ میری اس بات کو ہارون رشید کے زمانہ کے ایک سبق آموز واقعہ سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جسے مولانا محمد تقی عثمانی نے اپنی ایک کتاب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے:
’’مشہور ہے کہ کسی شخص نے ہارون رشید کے دربار میں ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے کی اجازت چاہی تھی، اجازت مل گئی تو وہ دربار میں حاضر ہوا اور فرش کے بیچوں بیچ ایک سوئی کھڑی کردی اور کچھ فاصلے پر کئی سوئیں ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوگیا، پھر اس نے ایک سوئی اٹھا کر فرش میں کھڑی ہوئی سوئی کا نشانہ لیا اور اس کی طرف پھینک دی، پلک جھپکنے کی دیر میں حاضرین نے دیکھا کہ یہ دوسری سوئی پہلی سوئی کے ناکے میں داخل ہو کر پار ہوچکی ہے۔ اس کے بعد اس نے اور ایک سوئی اٹھائی اور اس کو بھی اسی طرح پہلی سوئی کے ناکے میں پار کردیا، پھر یکے بعد دیگرے اس نے کئی سوئیاں اسی طرح پھینکی اور سب کی سب پار ہوگئیں، ایک میں بھی نشانہ خطا نہیں گیا۔ ہارون رشید نے یہ حیرت انگیز کمال دیکھا تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو دس دینار انعام میں دیئے جائیں اور دس کوڑے لگائے جائیں۔۔۔ حاضرین نے اس عجیب و غریب انعام کی وجہ پوچھی تو ہارون رشید نے کہا دس دینار اس شخص کی ذہانت، نشانے کی سچائی اور اولو العزمی کا انعام ہیں اور دس کوڑے اس بات کی سزا ہیں کہ اس نے اپنی خدا داد صلاحیتیں ایک ایسے کام میں صرف کی ہیں جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘۔ (عصر حاصر میں اسلام کیسے نافذ ہو؟ حصہ پنجم، ششم، ص: ۱۱۴۔۱۱۵، ادارۃ المعارف کوملا، بنگلہ دیش)
یہ واقعہ بلاشبہ موجودہ دور کی فلم انڈسٹری پر کچھ زیادہ ہی چسپاں نظر آتا ہے، کیونکہ اس میں بھی بہت ہی ذہین اور قابل افراد کام کرتے ہیں مگر انھوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کو ایسی جگہ پر استعمال کیا ہے، جہاں سے ملک و قوم کو فائدہ تو کچھ ہوتا نہیں مگر نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ جس کی بھر پائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں سے نت نئی برائیاں جنم لیتی ہیں اور بے راہ روئی کے نئے راستے کھل جاتے ہیں اور جہاں مرد و خواتین کے درمیان فطری امتیاز ختم اور جنس زدہ طرز زندگی کے اختلاط کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جہاں ہیرو ایک فلم میں ایک ہی عورت کو کبھی ماں تو کبھی بیوی کے رول میں لیتا ہے، جس سے عورت کے ان عظیم رشتوں کا تقدس ہی ختم ہوگیا ہے، لیکن لوگ ان باتوں کو سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان سے تفریح کا سامان ضرور لیتے ہیں مگر عبرت کا نہیں۔
بدقسمتی سے آج کے لوگ جن کو ہیرو سمجھتے ہیں وہ کسی زمانہ میں بانڈ کہلائے جاتے تھے لیکن وہ ان کے عشق و محبت میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے ان کے بنگلوں کے باہر رات رات بھر لائنوں میں بیٹھ کر انتظار کرتے رہتے ہیں، حالانکہ وہ اس تلخ حقیقت سے قطعی طور پر غافل ہیں کہ اصل میں یہی لوگ انسانی معاشرہ کو حیوانیت و عریانیت میں تبدیل کرنے والے ہیں، معلوم نہیں کہ آج تک کتنے لوگوں کی زندگیاں ان کی نقالی میں برباد ہوچکی ہوں، لیکن وہ اپنی بے ضمیری کی وجہ سے یہی خیال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اچھا کررہے ہیں، اسی لیے تو ساری دنیا ان کی دیوانی ہے جب کہ آج کی تاریخ میں برائیوں کو سب سے زیادہ فروغ انہی سے مل رہا ہے، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے، ایک دن ان کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو کر اپنے کرتوتوں کا جواب دینا ہوگا (الانبیاء:۱)۔ نیز موجودہ دور میں جس طرح کی ہیجان انگیز فلمیں بنتی ہیں ان سے ناظرین کی ذہن سازی اس طرح کی جاتی ہے کہ انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور ان سے انسانی قلب و ذہن پر گہرے نقوش پڑجاتے ہیں۔
آنچار (صورہ) سرینگر کشمیر ۱۹۰۰۱۱
موبائل91 9419 734 878
(بقیہ اگلے گوشہ خواتین میں ملاحظہ فرمائیں)