پہلگام حملہ کے بعد سے منقسم جموںوکشمیر کی سرحدیں مسلسل آگ اُگل رہی ہیں۔ کل ملا کر صورتحال یہ ہے کہ شاید ہی جموںوکشمیر کے باسیوں کو ایسا کوئی دن نصیب ہوتا ہے جب وہ پیر پسار کر سو سکیں۔اب پچھلے ایک ہفتہ سے مسلسل گولہ باری کی وجہ سے وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مرکزی قائدین کا موقف ہے کہ یہ اشتعال انگیزی پاکستان کی جانب سے کی جارہی ہے اور اس کیلئے دراندازی اور سرحدی علاقوں میں اسلحہ کی برآمدگی کو ثبو ت کے طور پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم پاکستان کا موقف بھی بالکل یکساں ہے اور ان کا الزام ہے کہ بھارت بلا اشتعال گولہ باری کرکے شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے۔ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔آپ کتنی ہی گولیاں کیوںنہ چلائیں اور کتنے ہی بم کیوں نہ گرائیں،آپ کو بالآخر بات کرنا ہی پڑے گی ۔دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی مسئلہ تشدد سے حل نہیں ہوا ہے بلکہ تشدد موت و تباہی ہی لیکر آیا ۔آج بھی تشدد کی اس پالیسی سے کسی کا کچھ بھلا نہیں ہوسکے گا بلکہ یہ دونوں ممالک کی معیشت کو دھیمک کی طرح چاٹتی رہے گی۔چند سال قبل کوروناوباء نے ایشیاء کے طبی نظام کو ایکسپوژ کردیا ۔جتنا پیسہ ہم دفاع پر خرچ کررہے ہیں،اگر ہمارے باہمی مسائل ختم ہوں تو ہم یہی پیسہ عوامی بہبود پر صرف کرسکتے ہیں۔جب دشمنیاں ختم ہوں اور تنازعات قصہ پارینہ بن جائیں تو نہ گولی چلانے کی کوئی وجہ رہے گی اور نہ ہی سرحدوں پر گولوںکی برسات کرنے کا کوئی جواز رہے گا بلکہ پھر دونوںجانب امن و سکون ہوگا اور لوگ سکون کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوپائیں گے۔وقت نے ثابت کردیا کہ دنیا کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو حل نہ کیا جاسکے ۔ہمارے مسائل بھی ایسے سنگین نہیں ہیں کہ وہ حل نہ ہوسکیں ۔اس کیلئے فقط سیاسی چاہ درکار ہے ۔آخر اس دشمنی میں کیا رکھا ہے ۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔کورونا کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ ہم دوسروںکیلئے جئیں۔انسان کو مارنے کیلئے بیماریاں کافی ہیں،ایسے میں بم وبارود کی کوئی ضرورت نہیں بچی ہے۔ دو ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے سرحدی آبادی اب کئی برسوں سے توپ کی رسد بن چکی ہے اور آئے روز کی گولہ باری سے سرحدی آبادی کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ اعداد وشمار خود بتارہے ہیں کہ سرحدوں کی صورتحال قطعی صحیح نہیں تھی۔یہ ایک طرح کی جنگ ہے جو دونوں جانب سے جاری ہےاور دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہرا رہےہے ۔اس اشتعال انگیزی کیلئے کون ذمہ دارہے،اُس بحث میں پڑے بغیر اس حقیقت سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ سرحدوں پرعملی طور دہشت کی حکمرانی ہے اور ستم ظریفی کا عالم یہ ہے اس کشیدگی کا خمیازہ آر پارجموںوکشمیرکی عوام کو ہی بھگتنا پڑرہاہے اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے ہیں اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ کشمیری عوام ہی ہیں۔ خدا کیلئے یہ ناقابل فہم دشمنی کا سلسلہ ترک کریں اور آپس میں ہاتھ ملائیں۔کشت و خون سے آج تک کسی کو کچھ ہاتھ نہیں لگا ہے اور نہ آگے لگے گابلکہ امن اوردوستی ہی ہم سب کو اُس ڈگر پر گامزن کرا پائے گی جس کی منزل خوشحالی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔امید کی جانی چاہئے کہ کورونا کی وبا ء سے کچھ سبق سیکھ کر حکمران ان تلخ حقیقتوں کا بلا تاخیر ادراک کریں گے تاکہ بر صغیر میں انسانیت کا سسک سسک کر مرنا بند ہوسکے۔