سید مصطفیٰ احمد
اس وقت میں بل برائسن کی کتاب A Short History of Nearly Everything پڑھ رہا ہوں۔ میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں لالچوک میں موجود مشہور کتب فروش،Best Seller Book Shop، کا جو ایک کلو کے حساب سے آج کل کتابیں بیچ رہے ہیں۔ دو ہفتے پہلے میرا بھی اس دکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں موجود سیلزمین نے میرا دھیان دکان کے اندرونی حصے کی طرف مبذول کروایا، جہاں پر نوجوانوں کی بھیڑ لگی تھی۔ جب میں نے وجہ پوچھی ، تو معلوم ہوا ہے کہ پہلی بار کشمیر میں کلو کے حساب سے کتابیں بیچی جارہی ہیں۔ میں نے بھی کچھ کتابیں خریدنے کا من بنا لیا اور پانچ چھے کتابوں کا انتخاب کیا، جن کا وزن لگ بھگ ڈیڑھ کلوگرام اور قیمت Rs 750 تھیں۔ ہزاروں کتابوں کے بیچ میں اپنی من پسند کتاب ڈھونڈنا، واقعی ایک پہاڑ پر چڑھنے کے مترادف ہے۔ خیر، کچھ دوستوں کے ساتھ بھی وہاں ملاقات ہوئی۔ کتابوں کو ڈھونڈنے کی کوششوں میں کچھ کتابوں کو میں نے لگ بھگ ہر قاری کو ایک دوسرے کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے دیکھا۔ میرے ہاتھ سے بھی Richard Dawkins کی ایک کتاب ایک قاری نے لگ بھگ چھین لی۔ اس کے ذوق مطالعہ کے سامنے اس کی یہ حرکت مجھے بدتمیزی نہیں لگی۔ لیکن اس دوست کے ہاتھ میں مجھے ایک کتاب دیکھی، جس کو وہ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ جب میں نے سرورق کو دیکھا تو وہ کتاب بل برائسن کی مشہور کتاب تھی جس کا نام پہلے ہی آگیا ہے۔ اس رفیق دوست کی تجویز پر میں نے اس کتاب کو پڑھنا ضروری سمجھا۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے یہ کتاب ابھی میرے مطالعے میں ہے۔ اب قارئین کے خاطر اور خاص کر اپنے قلبی سکون کے لئے میں اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں اختلاف کی گنجائش صد فیصدی ہے لیکن بات کو قاریوں کے سامنے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیسے کہ کتاب کے عنوان سے ہی پتا چلتا ہے کہ یہ کتاب لگ بھگ دنیا کے ہر چیز کی مختصر تاریخ ہے ۔ ہر چیز کا احاطہ کرنا مصنف کے لیے لگ بھگ محال ہے۔ لیکن پھر بھی کتاب اس ڈھنگ سے لکھی گئی ہے کہ قاری کو باندھے رکھتی ہیں۔ اس کی ضخامت زیادہ نہیں ہے۔ اس کے ایک ایک ورق کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ قاری مصنف اور اس وسیع کائنات کی ہر چیز سے ہمکلام ہورہا ہے۔ کتاب کی شروعاتی چیپٹر Lost in the Cosmos اور آخری The Road to us ہیں۔ اس کتاب میں ایسے موتی چھپے ہیں کہ قاری کتاب کو بار بار پڑھنا چاہتا ہے۔ میں ایک طالب علم ہونے کے ناطے اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ آج تک میں نے اس انداز میں تاریخ پر لکھی گئی کوئی کتاب دیکھی نہیں ہے۔ اس کتاب کا لکھنے کا انداز اور ہر چیز کو پیش کرنے کا اسلوب اتنا شاندار ہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے بےپرواہ ہوجاتا ہے۔ جو اسباق یہ لاجواب کتاب ہمیں مہیا کرتی ہیں کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل سطروں میں کیا جارہاہے۔
پہلا سبق ہے کائنات کے متعلق بالکل مختلف نقطۂ نظر۔ کتاب کے پہلے چیپٹر میں کائنات کی ایسی تصویر کھینچی گئی ہے کہ انسان اور پڑھنے کی چاہت کرتا ہے۔ The Big Bang Theory سے لے کر The Black Holes کے متعلق انوکھی لیکن دلچسپ معلومات فراہم کئی گئیں ہیں۔ Albert Einstein کے علاوہ دنیا کے بڑے عالم طبیعیات کی theories پر بھی بحث کی گئی ہے۔ Proton کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس کے چھوٹا ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ قلم کی نوک کی وسعت میں لگ بھگ 500, 000,000,000 protons سما سکتے ہیں۔ The Cosmic Microwave Background Radiation کے بارے میں بھی انمول باتوں کا ذکر کیا گیاہے۔ Arno Penzias اور Robert Wilson کو 1978 میںThe Cosmic Microwave Radiation Background کی دریافت کرنے پر فزیکس کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ اس نوبل انعام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ لیکن اس دلچسپ مضمون کو اگلی نشست میں قلم بند کریں گے۔ ان دونوں نے وہ شور یا آوازیں سنیں ، جو اس وقت پیدا ہوئیں تھیں جب کائنات the singularity سے پیدا ہوئی تھی۔ تب سے وہ آوازیں یا شور اس کائنات میں گونج رہیں ہیں جس کو مندرجہ بالا اشخاص نے New Jersey میں اپنے مشاہدات کرنے کے دوران سنا تھا۔ اس آواز یا شور کی وجہ سے ان دونوں کے کام میں کافی خلل پڑ رہا تھا۔ اپنے آلات کو ٹھیک کرنے کے دوران وہ ایک نایاب چیز کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ اس قسم کی باتیں ہیں جو موجودہ زمانے میں پائے جانے والی زیادہ تر کتابوں سے غائب ہیں۔ The Supernova اور Nebula کے بارے میں سیر بحث کی گئی ہے۔ کس طرح The Supernova کی وجہ سے زندگی کے لیے درکار بہت سارے elements کا ظہور ہوا، وہ بھی ایک جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا سبق ہے جراثیم کی انوکھی دنیا۔ برائسن نے بیکٹریا اور وائرس کے بارے میں جینیاتی سطح پر ان باتوں کو سامنے رکھا ہے، جن کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ Carl Sagan جو ایک مشہور امریکن ماہر فلکیات ہیں، ان کے الفاظ کو برائسن نے اپنی کتاب میں شامل کرکے کتاب کی افادیت کو اور بڑھایا ہے ۔Carl Sagan اپنی بات کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ Amoeba جو عموماً تالابوں اور جھیلوں میں پایا جاتا ہے، اس کے DNA میں اتنا تنوع ہے کہ اس کی genetic information سے پانچ سو صفحات کی 80 کتابیں تیار کئی جاسکتی ہیں۔ اس کے DNA میں 400 million bits of genetic information پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی جانکاری ہے جو ہر سائنس اور تاریخ کی کتابوں کا وصف نہیں ہیں۔ (جاری ہے)
(حاجی باغ، بمنہ، سرینگر )رابطہ۔9103916455