یو این آئی
سرینگر// بلے بنانے والوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ صنعت کو بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر بھید کے درخت لگانے کی گزارش کی۔حالیہ برسوں میں کشمیر میں کرکٹ کے بلے کی مانگ میں لاگت کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر کے کرکٹ بلے بنانے والوں نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں سرکاری زمین پر ولو(بھید) کے درختوں کی بڑے پیمانے پر کوئی شجرکاری نہیں ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سپلائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
بیٹ مینوفیکچررز نے کہا’’پچھلے کچھ سالوں سے ہم سپلائی کی کمی سے نبرد آزما ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں اپنا کاروبار بند کرنا پڑے گا‘‘۔اس صنعت میں تقریباً 1.5 لاکھ کارکن کام کرتے ہیں، جن میں سے 70 فیصد میرٹھ، اتر پردیش اور پنجاب جبکہ 30 فیصد کشمیر سے ہیں اور 300 کروڑ روپئے سے زیادہ کی آمدنی ہوتی ہے۔بیٹ مینوفیکچررز نے حکومت کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ’ ہمارے پاس تقریباً 9 ہزار 150 ہیکٹرآبی پناہ گاہیں دستیاب ہیں جسے صرف ایسے درخت لگانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وِلو کے علاوہ کوئی اور درخت ایسی زمین میں نہیں اُگتا۔ اگر کینیڈا اور پاکستان کی طرح کشمیر میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم شروع کی جاتی ہے تو جموں و کشمیر خام مال کے ذخائر میں خود کفیل ہو جائے گا اور اس سے صنعت کو صدیوں تک زندہ رہنے میں مدد ملے گی۔