اچھے افسانے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے ۔ اگر یہ صفت افسانے میں نہ پائی جائے تو تخلیق کمزور مانی جاتی ہے ۔ مگر ایک افسانوی مجموعے کے پہلے افسانے کو پڑھ کر پورا افسانوی مجموعہ پڑھنے کو جی کرے اور یہ کشش و گرفت قاری کو آخر تک اپنے قابو میں رکھے، ایسا اتفاق کم ہوتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی اتفاق میرے ساتھ اُس وقت ہوا جب میں نے ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب کا افسانوی مجموعہ ’’ بلھاکیہ جاناں میں کون ؟ پڑھنا شروع کیا ۔ ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب کے افسانوی مجموعے کی ادبی افادیت اپنی جگہ، مجموعے کے اُنتالیس صفحات پر پھیلی تمہید کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے ۔ گرچہ میں اس قدر طویل تمہیدیں کسی اچھی کتاب کے لئے بہتر نہیں سمجھتا مگر ان اوراق میں پروفیسر حامدی کاشمیری ؔ ،نور شاہ ،عبدالغنی شیخ ،وحشی سعید ،محمد اسداللہ وانی ،عبداللہ خاور،دیپک بُدکی ،حسن ساہو اور پروفیسر محمد اسلم صاحب جیسے لوگ شامل ہوں تو یہ مواد قارئین ِادب کے لئے ایک مفید ذہنی وفکری خوراک سے کم نہیں ۔
یوں تو افسانہ کسی واقعہ یا حادثہ کو کہانی کے رنگ روپ میں بیان کیا جاتا ہے ، اس لئے افسانہ نگار سماجی حقائق کی عکاسی افسانوی رنگ میں کرتے ہیں ۔ اشرف آثاری اپنے اس افسانوی مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ میرے پہلے افسانوی مجموعے اور اب اس دوسرے مجموعے میں شامل اکثر افسانے بذات خود میرے یا میرے کسی دوست کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات کا عکس و آئینہ یا آپ بیتی ہیں ۔‘‘ وہ افسانے میں اصل حقیقت کے چھیڑ چھاڑ کو مجرمانہ فعل گردانتے ہیں ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ میرا ماننا ہے کہ ہر حقیقت اپنے اصل روپ میں ہی زیادہ خوبصورت ، جاذبِ نظر اور متاثر کن ہوتی ہے۔اس کا چہرہ بگاڑنا اس کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب نے اپنے زیر مطالعہ مجموعے میں کل ملاکر 34 ؍افسانوں کو شامل کیا ہے لیکن ان میں جن افسانوں میں انسانی جذبات ، سماجی بے رُخی اور بے حسی کی جھلک زیادہ نمایاں ہے اور اسی وجہ سے قاری کواپنے ذہن میں اَن گنت تصورات جنم دینے کے لئے مجبور کرتے ہیں، ان میں ’’ بلکھاکیہ جاناں میں کون ؟‘ کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘ اپنا اپنا دُکھ درد ’ ماریا ؔ ۔۔ پانچ مشٹنڈوں کی ماں بہن ‘ سونہ بھٹ کا حج قبول ہوگیا ‘ تین داس اور ایک داسنی ‘ سبز پری ‘الگ الگ پیمانے سب کے ‘ خود کش بمبار ‘‘ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر افسانے بھی قاری کے ذہن میں اپنا تاثر چھوڑنے میں کم نہیں ہیں ۔یہ میری اپنی پسند تھی، سو بیاں کیا ،باقی لوگ بھی اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں ۔ انسانی سماج کی عکاسی زیر بحث افسانہ نگار نے اپنی تخلیقات میں کیسے اور کس طرح سے کی، اس کے لئے الگ سے تفصیلی جائزہ در کار ہیں مگر میں مذکورہ چند افسانوں کے بعض حوالے ضرور دوں گا تاکہ قارئین اس افسانوی مجموعے کی میٹھاس کی ایک جھلک پا سکیں ۔
تقسیم وطن کی خونچکاں داستان کے پس منظر میں لکھی گئی ایک مسلم خاتون کی داستانِ غم ’’ بلکھاکیہ جاناں میں کون ؟ ‘‘ میں افسانہ نویس یہ بیان کرتے ہیں کہ کن ناگفتہ بہ حالات میں ایک مسلم لڑکی ایک سکھ سے شادی کرتی ہے لیکن وہ اپنا آبائی مذہب تبدیل نہیں کر تی ۔اس کے شوہر اور گھر والے بھی اُسے اس کے لئے مجبور نہیں کرتے ۔ وہ اب بھی تمام ارکانِ دین ادا کرتی ہے ۔ اس عبارت سے اس لڑکی کا درد عیاں ہوتا ہے ۔’’ مولوی صاحب! جس کمرے میں آپ بیٹھے ہیں یہ میرا ذاتی کمرہ ہے ۔والدین کا دیا ہوا نام زینب ہے ،جو آج تک بدستور ہے۔الحمدللہ نماز پنج گانہ بھی ادا کرتی ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتی ہوں ۔قرآن شریف کی تلاوت بھی میرا معمول ہے، سب کچھ قبول کرنے والے پر چھوڑرکھا ہے ،وہ اسے قبول فرمائے یا پھر میرے منہ پر دے مارے ۔اس کی مرضی‘‘ ۔
افسانہ ’’کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘‘پارٹ 2میں ایک بڑھیا کے کتے کی گمشدگی کا بیان ہے ، یہ کتا اسے واپس مل جاتا ہے مگر اصل واقعہ یا نفس مضمون جانوروں سے محبت اور انسانیت کے برتائو اور انسانوں سے نفرت برتنے والوں پر ایک گہرا طنز ہے ۔ اسی جذبے کے تحت ڈسی صاحب کتوں کو زہر دے کر مارنے کی ماتحت عملے کی رائے کو خارج کرتے ہیں۔ ’’ بزرگ گجر خاتون اپنے شیرو کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہوچکی تھی اور کرنل روات اپنے اسکارڈ کے ساتھ اپنی راہ لے چکا تھا ۔شام کے چھ بج رہے تھے، اب آفس میں اور میرے ٹیبل پر مجھے گھورتا ہوا یہ فائل تھا ۔میں اطمینان کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور میں نے فائل کھول کر جلی حروف میں لکھ دیا کہ ’’ کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘‘ دوسرے دن وہ فائل میرے ٹیبل سے ہٹ گیا تھا ۔ ‘‘
خونی رشتوں کی بے حسی کو اجاگر کرتے افسانے ’’ ماریہ ۔۔ پانچ مشٹنڈوں کی ماں بہن‘‘ میں ایک عورت کی لاش لاوارث پڑی ملتی ہے جس کی خبر جب اُس کی خالہ زاد بہن کو ملتی ہے تو وہ زار و قطار روتے ہوئے کہتی ہے: ’’ میری بہن لا وارث نہیں ہے ۔۔۔ میری بہن لا وارث نہیں ہے ۔اس کے چارمشٹنڈے ،بے غیرت بھائی اسی شہر کی اچھی اچھی کالونیوں میں ، بڑے بڑے گھروں میں ،اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ موج مستی کررہے ہیں اور اس کا اپنا خون ،اس کی کوکھ سے جنما ،اس کا ناعاقبت اندیش اکلوتا سگا بیٹا ،اپنے گھر میں مزے لے رہا ہے ۔اس کے سگے سمبندھی قریبی رشتہ دار وں کی ایک بہت بڑی فوج بھی ہے جو عیش و آرام سے اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں ‘‘اس طرح سے اشرف آثاری کی ہر کہانی میں سماج کی کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور بیان کی گئی ہے مگر جذبات سے مزئین کر کے اور سبق آموز لہجے میں ۔چونکہ عام افسانہ نگاروں سے اشرف آثاری مختلف اندازِ فکر رکھتے ہیں ،اس لئے ان کے انداز بیان کی سراہنا کرنا بھی ہمارا فرض ہے ۔ میری رائے میں بہت دنوں بعد مجھے اگرکسی کتاب نے متاثر کیا تو وہ یہ افسانوی مجموعہ ہے۔ گو کہ یہ ایک افسانوی مجموعہ ہے لیکن اس میں شامل افسانے آج کے میرے اپنے سماج سے بہت زیادہ قریب ہیں،آپ کے ہمارے درمیان جیتے جاگتے کردار ہیں ، اس لئے قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا ہے ۔
بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے کوئی لکھاری اپنی تحریر میں عریانیت ،عشق ومحبت کی داستانیں،لفظوں کی جادوگر ی کا حربہ کمال مہارت سے برت لیتے ہیں لیکن اشرف آثاری صاحب کا زیر مطالعہ مجموعہ اس قسم کی چیزوں سے مکمل صاف و پاک نظر آتا ہے ۔ مختصراً افسانوی مجموعہ میں جموں و کشمیر کی کئی معروف ادبی شخصیات کی تحریریں و اور خود مصنف کے افسانے پڑھنے کے بعد مجھے اس بات کے اعتراف میں کو ئی جھجک نہیں ہوتی کہ انسان اگر نیک نیتی ، خلوص دل اور فنی چابکدستی سے کوئی تخلیق لکھے توصحت مند لٹریچر کا مسقبل بہت روشن نظر آتا ہے اور اس قسم کے مواد میں تخلیق کار کے لئے ادبی دنیا کے لئے کنٹربیوشن کرنے کا وسیع میدان موجود ہے ۔ مجموعی طور سے اشرف آثاری کا زیر نظرافسانوی مجموعہ بہت عمدہ ادبی کاوش ہے ۔ توقع یہی ہے کہ قارئین ِادب اس کا مطالعہ ضرور کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ آثاری کے قلم میں مزید قوتِ وروانی بخشے ۔آمین ثم آمین ۔
رابطہ: 8082713692