یو این آئی
نئی دہلی//صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے اس سوال پر سپریم کورٹ سے سرکاری رائے مانگی ہے کہ کیا عدالت بلوں کو منظوری دینے یا نہ دینے کے معاملے میں صدر اور گورنروں کے لیے کوئی وقت کی حد مقرر کر سکتی ہے۔صدر نے آرٹیکل 143 (1) کے تحت اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے۔صدر نے 13 مئی کو بھیجے گئے خط میں اس حوالے سے 14 سوالات پر عدالت سے رائے مانگی ہے۔ اس میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 201 کے تحت صدر کی جانب سے آئینی صوابدید کا استعمال جائز ہے؟انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 201 کے تحت بالترتیب گورنر اور صدر کے فیصلے کسی بھی قانون کے نفاذ سے قبل جائز ہیں؟ کیا عدالتوں کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ کسی بل کے مندرجات پر عدالتی فیصلہ لیں(کسی بھی طریقہ سے قانون بننے سے قبل)۔انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا عدالت آرٹیکل 142 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر/گورنر کے احکامات کو کسی بھی طریقے سے بدل سکتی ہے۔اس بارے میں بھی رائے مانگی گئی کہ کیا ریاستی مقننہ سے منظور کردہ بل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی منظوری کے بغیر نافذ ہو سکتا ہے۔ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 145(3) کی شق کے پیش نظر، اس عدالت کے کسی بینچ کے لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ پہلے یہ طے کرے کہ آیا اس کے سامنے ہونے والی کارروائی میں شامل سوال اس نوعیت کا ہے جس میں آئین کی تشریح سے متعلق قانون کے اہم مسئلے کو شامل کیا جائے اوراسے کم از کم پانچ ججوں کی بینچ کے سامنے بھیجا جائے۔صدرنے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات صرف طریقہ کار کے قوانین تک محدود ہیں۔ عدالت سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا اس کے پاس آرٹیکل 131 کے تحت دائر مقدمات کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔صدر جمہوریہ نے محسوس کیا کہ موجودہ حالات میں جب ریاستیں آئین کے آرٹیکل 32 اور 131 کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہیں، تو قانونی سوالات پر عدالت عظمیٰ سے رائے لینا وقت کی ضرورت ہے۔قابل ذکر ہے کہ آئینی دفعات کے تحت عدالت عظمی صدر کی طرف سے اٹھائے گئے ان 14 سوالات پر سوچ سمجھ کر اپنی رائے دینے کی پابند ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کی رائے کی صدر پر پابند نہیں ہیں۔قانون سازی کی تجاویز کو منظور کرنے میں طویل تاخیر پر ریاستی حکومتوں اور راج بھون کے درمیان بڑھتے ہوئے تنا کے تناظر میں یہ مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ صدر کی جانب سے یہ ریفرنس بھیجے جانے کے بعد چیف جسٹس اس پر غور کرنے کے لیے کم از کم پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ تشکیل دے سکتے ہیں۔