صدائے کمراز
اِکّز اِقبال
جموں و کشمیر میں اس اگست بارشیں بےرحم ہو کر برسیں۔ جمّوں کے بیشتر علاقے اور جنوبی و وسطی کشمیر کے ندی نالے بپھر گئے، سڑکیں بہہ گئیں اور گاؤں کے گاؤں ایک خوفناک خاموشی میں ڈوب گئے۔ کشمیر کے لوگ قدرت کے قہر سے مانوس ہیں، لیکن ہر آفت اپنی ایک نئی صورت، ایک نیا زخم لے کر آتی ہے۔ اس بار زخم صرف مٹی کے تودوں اور پانی کی موجوں کا نہیں بلکہ اُس غیر مرئی سکوت کا بھی ہے جو ہمارے موبائل فون کی اسکرینوں پر چھا گیا۔ انٹرنیٹ ایک بار پھر رُک گیا اور ہم ایک بار پھر اس خاموشی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہوئے۔
بارش ہو، طوفان ہو یا کسی اور سبب سے نظامِ زندگی معطل ہوجائے۔سب سے زیادہ جس شے کا ہماری گرفت سے پھسلنے کا خوف ہوتا ہے وہ انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ بند ہوجائے تو یوں لگتا ہے جیسے اچانک دنیا کی دھڑکن رک گئی ہو۔ خبریں بہنا بند ہو جاتی ہیں، پیغامات کے ہرے نشان غائب ہوجاتے ہیں، کاروبار ٹھٹک جاتا ہےاور تعلیمی سلسلے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تعطل بظاہر ایک خلاء پیدا کرتا ہے، مگر اسی خلاء میں ایک اجنبی سکوت چھپا ہوتا ہے جو ہمیں اپنی اصل کی طرف بلاتا ہے۔
ابتدا میں یہ خاموشی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ خبروں کی روانی تھم جاتی ہے، واٹس ایپ پر ہرے نشان غائب ہوجاتے ہیں اور دور بیٹھے عزیزوں کے چہرے اچانک پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ بینکوں کا کام رُک جاتا ہے، کاروبار کا پہیہ جَم جاتا ہے اور طلبہ کی آنلاین تعلیمی سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ یہ سب بلاشبہ تکلیف دہ ہے۔ مگر وقت گزرتے ہی دل کے آس پاس ایک انوکھا سکون اترنے لگتا ہے۔
گلیوں میں اذان زیادہ گونج دار لگتی ہے۔ بچے آنگن میں کھیلوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ لوگ دوکان کے دہانے پر کھڑے ہو کر دیر تک باتیں کرتے ہیں۔ بارش کی بوندیں، جو کل تک شور لگ رہی تھیں، آج زیادہ لطیف معلوم ہوتی ہیں۔ لمحہ لمحہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت کا پہیہ آہستہ ہو گیا ہو اور وادی اپنی اصل رفتار میں سانس لے رہی ہو۔
یہی تو عجیب تحفہ ہے ہر انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا۔ ایک طرف یہ ہماری بے بسی کو بے نقاب کرتا ہے، دوسری طرف ہماری دبائی ہوئی خواہشات کو بھی جگا دیتا ہے۔ بے بسی اس لیے کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ محض سہولت نہیں بلکہ شہ رگ ہے۔اسی پر معیشت بھی چلتی ہے، تعلیم بھی، سیاست بھی اور ہمارا باہمی رشتہ بھی۔ اور خواہش اس لیے کہ دل کے کسی کونے میں ہم اب بھی اُس دھیمی زندگی کو ترستے ہیں جس میں ملاقاتوں کے بیچ فون کی گھنٹی مداخلت نہ کرتی تھی، دوستوں کی محفلوں میں اسٹیٹس اپ ڈیٹ کی جلدی نہیں ہوتی تھی، اور جس میں چائے کی پیالی ساتھ بیٹھ کر پی جاتی تھی، انسٹاگرام پر ڈالنے کے لیے نہیں۔
اور جب اِنٹرنیٹ ایک دم سے بند ہوگیا ۔ پہلے عجیب سی بےچینی پنپنے لگی۔ پھر دھیرے دھیرے ایک سکون سا محسوس ہونے لگا ۔ یوں لگا کہ بغیر اِنٹرنیٹ کی دنیا بھی خوبصورت ہے۔ بیٹھے بیٹھے کرنے کو کچھ نہیں تھا تو خیال آیا کیوں نہ ہم اپنی مرضی سے ایک ’’انٹرنیٹ فری ڈے‘‘ [ Internet Free Day ] منائیں؟ کیوں ہر بار کسی آفت یا حکومتی حکم کا انتظار کریں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم مہینے میں صرف ایک دن ہی سہی ‘ اپنی خوشی سے انٹرنیٹ بند کریں اور حقیقی دنیا کو جی کر دیکھیں؟
سوچئے، ایک ایسا دن جب بچے کھیلوں میں مگن ہوں، والدین بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھمانے کے بجائےسونے سے پہلے کہانی سنائے ، مائیں بیٹیوں کو پرانی تراکیب سکھائیں بجائے یوٹیوب کھولنے کے، دوست آپس میں کیرم کھیلیں اور بزرگ اپنی یادوں کی محفل سجائیں۔ ایسا دن جب ہماری گلیوں میں قہقہے گونجیں اور گھر کے صحن میں مکالمہ ہونہ کہ صرف اسٹیٹس اَپ ڈیٹ۔
یہ صرف ثقافتی احیاء نہیں بلکہ ذہنی سکون کا نسخہ بھی ہے۔ دنیا بھر کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ استعمال بے چینی، بے خوابی اور عدم اطمینان کو بڑھاتا ہے۔ ایک دن کی یہ خودساختہ خاموشی دماغ کو ری سیٹ کرسکتی ہے، صبر سکھا سکتی ہے، توجہ واپس لاتی ہے اور ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کر دیتی ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ جدیدیت سے فرار یا انکار نہیں۔ انٹرنیٹ ہماری ضرورت ہے اور کشمیر جیسی زمین پر تو اور بھی زیادہ۔ مگر یہی ضرورت کبھی کبھار ہمیں قید بھی کر دیتی ہے۔ اگر ہم ایک دن کے لیے اپنی مرضی سے قید کا دروازہ کھول کر باہر نکلیں تو یہ ہمیں مزید طاقتور اور متوازن بنا دے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو خاموشی ہم پر زبردستی مسلط ہوتی ہے، وہ اذیت بن جاتی ہے، لیکن جو خاموشی ہم خود منتخب کریں گے، وہ غذا ثابت ہوگی۔
اِنٹرنیٹ سہولیات دو دن معطل ہونے کے بعد اب مواصلات پھر سے بحال ہو گئے، ویڈیوز اور پیغامات پھر سے بہنے لگیں اور ہم اپنی پرانی عادتوں کی طرف لوٹ آئیں۔ مگر اگر یہ بارشیں اور یہ تعطل ہمیں ایک چھوٹا سا سبق دے جائیں تو؟ اگر ہم خود ایک دن کا انتخاب کریں جس میں ہم صرف سانس لے، بات کرے اور جیے؟
کشمیر ہمیشہ سے صبر اور حوصلے کی درسگاہ رہا ہے۔ ہم نے کرفیو بھی دیکھے ہیں، سردیوں کے طویل اندھیرے بھی اور ان گنت خاموشیاں بھی۔ اب وقت ہے کہ ہم اس صبر کو ایک شعوری انتخاب میں بدلیں،ایک ایسے دن میں، جو جبر کا نہیں بلکہ رضا کا ہو۔
ایک دن بغیر انٹرنیٹ۔۔۔ ایک دن جس میں وادی پھر سے وادی لگے اور انسان پھر سے انسان۔اگر ہم نے ایک دن اپنی مرضی سے انٹرنیٹ بند کرلیا تو شاید ہم یہ دریافت کریں کہ زندگی کا سب سے قیمتی سگنل اب بھی انسان سے انسان تک کا رشتہ ہے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]