محمد ریاض ملک،منڈی پونچھ
سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی میں نظامِ تعلیم کی صورت حال کا اندازہ اس بات لگایاجاسکتاہے کہ منڈی ایجوکیشن زون میں ایک سال کے عرصہ میں ہائی سکول گگڑیاں میں ایک ہیڈ ماسٹر تعینات کیاگیاہے۔ ایجوکیشن زون منڈی کے سکولوں میں تعینات عملہ ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کے بارے جب ہیڈ کلرک زونل ایجوکیشن آفس منڈی محمد یونس سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ بتاتے ہیںکہ منڈی ایجوکیشن زون کے کل 158 سرکاری سکول ہیں۔جن میں ہائیر سیکنڈری 5،ہائی سکول 8،مڈل سکول 53،کے جی بی وی 1اورپرائیمری سکول 91ہیں۔جن میں 49 مڈل سکولوں میں ہیڈ ٹیچر نہیں ہیں جبکہ 5اسکولوں میں ہیڈ ٹیچر اور وارڈن تعینات ہیں۔8ہائی میں سے 6میں ہیڈ ماسٹر ہیں جبکہ 2سکولوں میں ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ ہی نہیں ہے۔جن میں ایک ہائی سکول اڑائی ملکاںؔاور ہائی سکول ڈنوں ؔگام شامل ہیں۔ ان دونوں ہائی سکولوں میں ہائی کلاس کا عملہ سنکشن ہی نہیں اور نہ ہی ہیڈ ماسٹر کی پوسٹیں سیکشن ہیں۔ اگرچہ ان دونوں رمساء کے تحت بننے والے ہائی سکولوں کا درجہ تو بڑھایاگیالیکن عملہ ابھی تک سنکشن ہی نہیں ہوا ہے۔
ہائی سکول اڑائی ملکاں میں اساتذہ کی قلت اور بچوں کی بڑھتی تعداد کو لیکر والدین سخت پریشان ہیں۔ امتیازاحمد ملک جن کی عمر 39سال ہے ،کے تین بچے ہائی سکول اڑائیؔ ملکاں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے مطابق پہلے یہ سکول مثبت طریقے سے چل رہاتھا۔چنانچہ جموں وکشمیر سے خصوصی دفعہ کی منسوخی کے بعد، دو ڈھائی سال کی کویڈ 19 کے ظلمت کا دور گزراتو پورے تین سالوں تک ہمارے بچے تعلیم سے محروم رہے۔2022میں جب سکول کھلے تھے، تو بچے تعلیم سے بالکل کورے ہو چکے تھے۔ جب سکول کھلنے پربچے کافی تعداد میںاسکول پہونچے تو ان کی دیکھ ریکھ تک کے لئےوہاں عملہ مشکل سے دستیاب تھا۔ایسے میں وہ کس نظام کے تحت بچوں کی درس و تدریس کا عمل انجام دے سکتے؟
امتیاز ملک کا مزید کہنا ہےکہ حکومتیں اور انتظامیہ دعوے تو بہت کرتے رہتے ہیںلیکن ہمارے اس سکول استاد مہیا رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس صورت حال میں بچوں کے پچھلے تین سالوں کا تعلیمی فاصلہ کیسے طے کرسکتے ہیں؟یہاں کے بچے کس طرح شہروں اوردیگر ریاستوں کے بچوں کا مقابلہ کرسکیں گے؟ایک اور والدین حافظ عبدلرحیم جن کی عمر 36سال ہے، کا کہناہے کہ کسی علاقہ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے تعلیم ریڈ کی ہڈی کے مترادف ہوتی ہے اور اچھی تعلیم کے لئے اچھی عمارت اتنی کارگر نہیں جتنا علم سکھانے والے استادہوتے ہیں۔ہائی سکول اڑائیؔ ملکاں کی عمارت بہت اچھی ہوتے ہوئے بھی یہاں اساتذہ کی کمی محض نہیںآج ہی نہیں بلکہ سرے سے ہی ہے، تو ہم کس طرح یہ یقین کرلیں کہ ہمارے بچے پڑھ پائیں گے؟ انہوں الزام لگایا کہ اس طرح سے توہمارے بچوں کی زندگی کو برباد کیاجا رہا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے بچے بہترتعلیم سے حاصل کرنے سے محروم کیوں ہیں؟انہوں نے سوال کیا کہ جب اس سکول میں پوسٹیں سنکشن نہیں کرنی تھیں تو سکول کو مڈل سے ہائی سکول کا درجہ کیوں دیا گیا؟اگر اس سکول کو اور اس جیسے اور کسی سکول کی یہ حالت ہے توانتظامیہ پوسٹیں سنکشن کرکے اس میں اساتذہ کی فراہمی کا انتظام کرے۔ اگرممکن نہیں ہے تو سکول کو بندکرکے بچوں کے والدین کو جواب دے دیں۔اس حوالے سے ہائی سکول اڑائی ملکاںؔ کے گیارویں کلاس کے طالب علم ابراہیم احمد کاکہناتھاکہ جب سے سکول کھلے ہیں ،اس وقت سے اساتذہ کے بغیر ہماری تعلیم سخت متاثر ہورہی ہے۔ یہاں سال بھر کبھی ایک سبجیکٹ کبھی دو سبجیکٹ ہی پڑھائے گئے ہیں۔اورکبھی پڑھائے ہی نہیں جاتے۔یہی سلسلہ سال بھر سے جاری ہے۔ جب استاد ہی نہیں ہیں تو پڑھاے گاکون؟ دسویں جماعت کی طالبہ مسرت ناز اظہار دکھ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں سرکار اور انتظامیہ کی ان دعوں کی بنیادیں کھوکھلی ثابت ہوتی ہیں۔ جن میں کہاجاتاہے کہ ’’بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو‘‘۔ یہاں کی بیٹیاںکیسے پڑھےگیں جب کہ پڑھانے والےہی نہیں ہیں۔سارے نصاب کے اُستادبھی نہیں ہیں۔پہلے کویڈ 19کا دو تین سال دور چلا۔ تب ہم ساتویں میں زیر تعلیم تھیں۔ اُس کے بعدجب سکول کھلے تو امید تھی کہ کچھ نہ کچھ تعلیم نصیب ہوگی۔ لیکن اساتذہ کی عدم دستیابی سے پوراسال بربادہو گیا ہے۔یہ نام کاہائی سکول ہے یہاں تو مڈل سکول کا عملہ بھی مکمل نہیں ہے۔دسویں جماعت کی طالبہ یاسمین اختر کا کہناہےکہ ہائی سکول میں دس گیارہ جماعتوں کو پانچ اُستاد کس طرح پڑھاسکیں گے؟اگر چہ اساتذہ کوشش کررہے ہیںلیکن اتنی جماعتوں کے طلباء وطالبات کو ہر سبجیکٹ کس طرح پڑھاسکتے ہیں؟اس حالت میں ہم امتحانات میں کیا کرسکتے ہیں؟ کیوں کہ ہم نے آج تک حساب اور انگلش کی کتابوں کو دیکھاتک نہیں ہے۔شاہد اقبال جو نویں جماعت کا طالب علم ہے،اس نے کہاکہ اس دوردراز علاقہ کے ہائی سکول اڑائی ملکاں میں اب کچھ ہی دنوں میں چھٹیاں پڑنے والی ہیں۔یوں تو ساراسال ہماراچھٹیوں جیساہی گزرا ہے۔اساتذہ کی کمی کے باعث کچھ بھی نہیں پڑھ پائے ہیں۔ اسی طرح یہاں جب کوئی فیزیکل ٹیچر ہی نہیں تو ہم کس طرح سے کسی پروگرام یا کھیل کود میں حصہ لے سکتے ہیں؟
اس حوالے سے جب سکول انچارج ٹیچر ماسٹر محمد دین سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ 2015میں ہائی سکول اڑائی ملکاں کو جموں وکشمیر میں رمساء سکیم کے تحت 2015میں ہائی سکول کا درجہ ملا۔2016میں یہاں نویں جماعت میں داخلہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اس سکول میں پوسٹیں منظور نہیں کی گئی۔اس سکول میں ماسٹر گریڈ کی ایک اسامی بھی خالی ہے۔ایک ٹیچر اور ایک فیزیکل ٹیچر کی پوسٹ بھی خالی ہے۔ صرف پانچ افراد پر مشتمل عملہ ہے۔جو جتناہوسکتاہے، کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جس قدر بچوں کو تعلیم یا مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے ،و ہ پوری نہیں ہوپاتی ہے۔اس لئے کہ ہمارے پاس 329 سے زائید طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ دس جماعتوں کے پانچ پانچ سبجیکٹ پڑھانا نہائیت دشوار ہوتا ہے۔2016 میں مضامین پڑھانے کے لئے مخصوص اساتذہ تعینات کئے گئے تھے۔ جنہیں کچھ ہی عرصہ کے بعد نکال دیاگیا۔ تب سکول میں میٹرک کا بہترین نتیجہ رہا۔اس کے بعد نتائج میںبھی گراوٹ آگئی ہے۔جس کی نمایاں وجہ یہاں پرا سٹاف کی کمی ہے۔مارچ 2022میں جب کویڈ 19کے لمبے عرصہ بعد سکول کھلے تھے۔تب دو اساتذہ کو یہاں اٹیچ کرکے تعینات کیاگیاتھا، لیکن اب وہ دو اساتذہ بھی اپنی اپنی پوسٹوں پر چلے گئے ہیں۔غرض یہاں شروع سےہی نظام تعلیم ناقص چلا آرہا ہے۔ اگراس سکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کو اس بات کا احساس ہے اور اپنے بچوںکی فکر ہے تو اُن کی یہ ذمہ داری ہے کہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے رجوع کریں۔اُنہیں ساری روئیداد سے آگاہ کریںاور انہیں سکول کے لئے پوسٹیں منظور کروا نے کی کوشش کریںتاکہ سکول کے نظام تعلیم میں بہتری لائی جاسکے۔یہاں ہائی سکول کا عملہ تو درکنار مڈل سکول کے بھی ایک ہیڈ ماسٹر، ایک فیزیکل ٹیچر کی پوسٹ بھی خالی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ یہاں تعلیمی نظام کو بہتر کرنے میں موجودہ انتظامیہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔جن کی ناکامی کی وجہ سے سرکاری ا سکولوں میں زیر تعلیم طلباء بلخصوص طالبات تعلیمی پسماندگی کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس بگڑے ہوئے نظام سے اچھی تعلیم کا خواب کیسے تعبیر ہوسکے گا؟ (چرخہ فیچرس)
���������������