محمد اسد اللہ
آ جکل یہ فیشن چل پڑا ہے کہ اپنی بات پر کوئی کان نہیں دھرتا تواسے مشاہیر کے منہ سے کہلوایا جائے ۔ ہر قسم کے اُلٹے سیدھے اور بحرِ ربڑ میں کہے ہوئے اشعار بڑے شاعروں کے نام سے کھپانے کا چلن عام ہے ۔ عام طور پر یہ برق اردو کے دو بڑے شاعروں پر گرتی ہے ۔ مرزا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ ۔ اردو کے دیگرشعرا بھی اس دا د و دِہش (یا بیداد سے) محفوظ نہیں ہیں ۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے ۔ایک مشہور شعر جو نیچے درج کیا جارہا ہے، اس کے متعلق ہم بھی اس یقین میں مبتلا تھے یعنی غالب گمان تھا کہ یہ مرزا غالب ؔ کا شعر ہے،اب کھلا کہ یہ بزم اکبر آ بادی کی تخلیق ہے ۔
چند تصویرِ بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ سامان نکلا
اس دوران کسی نے یہ کہہ کر ہمارے یقین کومتزلزل کر نے کی ناکام سی کوشش بھی کی تھی کہ شعر کے پہلے مصرع میںبُتاں کی مناسبت سے لفظ تصویر کوجمع ہوناچاہئے مگر ہم یہ سوچ کر چپکے بیٹھے رہے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ۔
دیوانِ غالب ؔچھان مارا تو اسی زمین میں کہی ہوئی غزل میں بھی یہ شعر ندارد۔ جب تک ہمارے نزدیک یہ شعر غالبؔ کی ملکیت تھا ، ہم سوچا کرتے تھے کہ غالبؔ کسی پاؤ علمی، پاؤ فلمی اورنیم ادبی رسالہ کے ایڈیٹر بھی تونہیں تھے پھران کے پاس یہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط آخر آئے کہاں سے۔ مانا کہ دیوانِ غالبؔ وارداتِ قلبی اورحسن و عشق کا اچھا خاصا فوٹواسٹوڈیو بلکہ آرٹ گیلری ہے لیکن جہاں تک غالبؔ کے عہد کاتعلق ہے اپنا دل اور فوٹو گراف جیب میں لیے لیے پھرنے کا چلن عاشق و معشوق میں اس زمانہ میں عام نہیں ہوا تھا۔رہا معاملہ خطوط کا ، تو ہمیں امید ہے بیشتر خطوط جوابی ہوں گے، تعلق ان کا حسیناؤں سے ہوا تومنہ توڑ جواب کے زمرہ میں شامل ہوں گے کیوں کہ مرزا غالبؔ کو توخط لکھنے کا خبط سا تھا: خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو۔
بہر حال یہ جس کسی کا مال ہو ، اس باکمال شاعر ؔ نے جیتے جی بزبانِ شعریہ اعلان فرمادیاکہ مرنے کے بعد اس کے گھر سے کیا برآمد ہوگا۔شعر کسی ہم عصر شاعر کا ہوتا تو یہ تنقیدی موشگافی کی جا سکتی تھی کہ یہا ںنکم ٹیکس کے افسروں یا ای ڈی والوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ میاں اس طرف آ نے کی زحمت نہ کر و۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں ۔
وہ شاعرتھا اس لیے اختصار سے کام لیا۔ کچھ تو اس کی مفلسی رہی ہوگی، اگرچہ اس وقت بھی کا غذاس قدر مہنگانہ تھا اور کچھ ضروریات ِشعری کا تقاضاکہ دو مصرعوں پراکتفا کیا۔ ہم ٹھہرے نثرنگار اختصار سے دوستی کریں تو لکھیں کیا ؟ اسی انداز کی ایک فہرست قدرے تفصیل سے پیش کرتے ہیں۔
ہماری وفات حسرتِ آیات کے بعد جو سامان ہمارے گھر سے نکلے گا اس میں سرِفہرست تو ہماری ذات ہے۔ یوں تو ہمارے گھر کے کباڑخانہ میں سیکڑوں نامراد چیزیں ہیں جنھیں ہم کچھ اس طرح سینت سنبھال کر رکھتے ہیں جیسے توبہ کرنے میں آنا کا نی کرنے والے گنہگار ،لذت گناہ کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔
سال میں ایک آدھ بار توان چیزوں کو ہم اس ارادے سے باہرنکالتے ہیں کہ کسی کباڑی کو دے آئیں گے ، پھرخیال آتا ہے کہ انھیں نظرنہ لگے یہ اس قدر فالتو بھی نہیں کہ کباڑی کی نذر کریں۔ ہینگر لاکھ ٹوٹا ہوا ہے مگر کپڑے لٹکانے کے نہ سہی کبھی اسٹو میں پھنسا ہوا واشر نکالنے ہی کے کام آئے گا۔پھٹی ہوئی شیروانی مشاعرہ پڑھنے یا ڈراما میں پہننے کے نہ سہی بچوں کو ڈرانے ہی کا کام دے گی۔ بگڑا ہوار یڈیو ہمارا قائم مقام ہو گیاہے تو کیا ہوا۔ کاریگروں نے اسے لاکھ تختہ مشق بتایا گیا کم از کم ٹی وی کا تخت یعنی اسٹینڈ بن کر گھر کی کچھ رونق بڑھائے گا۔ اسی قبیل کی اور بھی بہت سی چیز یں تھیں جنہیں ہم نے نا کام حسرتوں کی طرح رکھ چھوڑا ہے۔ہمارا خیال ہے (جس کا ہر بارا ز راہِ انکسار نا قص ہونا ضروری نہیں ہے) کہ اس دنیا کے کباڑخا نہ میں خدانے ہمیں بھی یہی سوچ کر رکھ چھوڑا ہے کہ مشاہیر عالم میں شمار نہ ہوئے تو کم از کم قصبہ گیر پیمانے پر تو نام کمائیں گے۔
دوسری چیز جو ہمارے بعد گھر سے نکلے گی مشاہیر ادب کی وہ بیش بہا کتابیں ہیں جن پر مختلف لوگوں کے ناموں کے ساتھ ’’انجمن سارقینِ ادب‘‘ کے ٹھپّے لگے ہوئے ہیں۔ جب ہم پہلی مرتبہ لائبریری سے یہ کتا بیں اپنے نام پر ِاشو کرا کے لائے تھے تو اراکینِ لائبریری نے ہمارے اعلیٰ ادبی ذوق کو بہت سراہا تھا لیکن آئندہ دو برسوں میں جب وہ بار بار یادہانیاں کروانے کے باوجودہم سے کتابیں واپس لینے میں ناکام رہے تو ہماری بد ذوقی کو کوستے رہے۔ اس غم وغصہ کا نقطۂ عروج یہ تھا کہ ایک دن لائبریرین نے کتب خانہ کا بورڈ تک گھر بھجوانے کی پیش کش کی تھی، ہم نے قبول نہیں کیا اور لکھاکہ جو چندکتا بیں لائبریری میں بچی ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ ممکن ہے کسی دن وہ طیش میں آکر بقیہکتا بیں اور بورڈ بھی بھجوائیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے ہمارے گھر سے ہمارے بعدایک کتب خانہ مع بورڈ نکل آئے۔
دیگراشیا کا تذ کرہ سے پہلے ہم شیخ جی مرحوم کوکیوں نہ یاد کرلیں جن کے مرنے کے بعد گھر سے ایک عددغسل خانہ اور بیت الخلاء کے برآمد ہونے پر پڑوسیوں نے دانتوں تلے انگلی داب لی تھی کہ پہلے معلوم ہوتا تو اس سلسلہ میں بھی انہیں زحمت دیتے۔شیخ جی مرحوم زندگی بھر ایسے زبردست پڑوسیوں سے خود کو اور اپنے گھر کی چیزوں کو بچاتے رہے۔ ایک دن ان کے ایک پڑوسی ایک مریض کے لیے جوقبرمیں پاؤں لٹکائے پڑا تھا آبِ زم زم مانگنے آئے۔شیخ جی نے سوچا، روح کا پنچھی بدن میں پھڑ پھڑاتا ہو گا۔ آبِ زم زم کے بجائے ، شربت روح افزا پیش کیا۔ پڑوسی نے قبول نہ کیا۔ (ممکن ہے مریض سے تنگ آچکا ہو ) چند دنوں بعد وہی پڑوسی شربتِ روح افزا کے مزے لو‘ٹنے کی غرض سے شیخ جی کے گھر حاضر ہوا توانھوں نے اسے کھڑے کھڑے ایک گھونٹ آبِ زم زم پلا کر چلتا کر دیا۔
تیسری چیز جو ہمارے بعد گھر سے نکلنے کی توقع ہے وہ ایک عدد الکٹر ک پریس۔ اگر آپ پڑوسیوں میں ہونے والی چیزوں کے تبادلے سے واقف ہیں تو آپ یقیناً ہمارے پڑوسیوں کی خوشیوں اور ہما رے غم میں برابرکے شریک ہوں گے۔بہر حال الکٹرک پریس کا قصہ یہ ہے کہ محلہ بھر کے گھروں کی خدمت انجام دینے کے بعد جب یہ واپس آتی ہے تو ہفتے کی آخری شام کو ہماری پیشانی اور کپڑوں کی سلوٹوں کو سراپا انتظار پاتی ہے۔ پریس کے آنے کے بعد ہم نجمْن خالہ کا انتظار ضرور کرتے ہیں کیوں کہ وہ کب آئے گی یہ ان ہی کو معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں ان سے یہ شکایت ہرگز نہیں کہ وہ پریس مانگ کرلے جاتی ہیں۔ چیزیں مانگ کرلے جانے کی انہیں عادت نہیں، جہاں کی چیز وہیں استعمال کرتی ہیں۔(بے چاری کے گھر بجلی جونہیں ہے۔) آئندہ صبح اس سے پہلے کہ ہم اپنا ظاہر درست کریں اور ماتھے پر پڑی شکنیں مٹا ڈالیں، پریس پھرایک ہفتہ کے لیے رخت ِسفر باندھ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ ہم محنت سے بچ جاتے ہیں۔ یہ کام بھی دھوبی کو کرنا پڑتاہے۔ پڑوسیوں سے واقعی راحت ہے۔
یہی قصّہ ٹی وی کا بھی ہے۔ یہی ماجرا چھلنی کا ہے۔ اسی تجربے سے ہمارا مکسر بھی گزر رہا ہے۔ البتہ پریشر کو کرکو ذرا راحت میسّر آئی ہے۔ پڑوس کی ایک خاتون جو کوکر کے استعمال سے ناواقف تھیں،ایک مرتبہ کھچڑا پکانے کے لیے کوکر مانگ کر لے گئیں۔اسٹو کی آنچ اور دل کھول کر، کھچڑا اور کوکر دونوں کو گلانا شروع کردیا اور کئی سیٹیوں تک گلاتی چلی گئیں۔ آخر ڈھکن زور دار آواز کے ساتھ اُڑا ، کھچڑا چھت پر چپک گیا ، اہل ِخانہ مارے خوف کے چھت میں لگے شہتیروں سے لٹک گئے۔ اس واقعہ کے بعد کو کر کو منحوس خیال کر کے دوبارہ کسی نے مانگنے کی جرأت نہ کی۔ آج بھی ہمارا کوکر سیٹیاں بجاتاہے اور کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں۔
رابطہ۔9579591149