طارق شبنم
حضور پر نوراحمد مجتبیٰ محمد مصطفٰی ؐکی سیرت مبارکہ ازل سے ابد تک ایک لافانی و لاثانی معجزہ اور سراپا نور ہی نور ہے ۔تاہم آپؐ کی حیات مبارکہ میں کئی ایسے حیران کن اور فکر انگیز واقعات ر ونما ہوئے جن کی تاریخ اسلامی میں کافی اہمیت ہے ۔واقعہ معراج حضور پر نورؐکے حیات مبارکہ کے مکی دور میں پیش آیا جو ان واقعات میں زبر دست اہمیت کا حامل ہے اور آپ ؐکی سیرت مبارکہ پر مرصع تاج کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔روایات کے مطابق عقل و دانش کو حیران کردینے والا یہ واقعہ 27رجب کو ہجرت مدینہ سے ایک سال قبل پیش آیا جب آپ کی عمر مبارک 52 برس تھی ۔
روایات کے مطابق سرور کائیناتؐ بعد از عبادات جوار کعبہ میں اپنی عم زاد ہمشیرہ حضرت ام ہانیؓ بنت ابی طالب کے گھر میں آرام فر ما رہے تھے ۔باشندگان مکہ خواب غفلت میں مدہوش اور مکہ رات کی اندھیروں میں گھر چکا تھا کہ حضرت جبریل امین ؑ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی کافوری پلکوں کے لمس سے آپ کے پائوں کے تلوئوں سے مس کرکے ٹھنڈک پہنچائی ۔سرور کائیناتؐبیدار ہوئے تو اپنے سامنے جبریل امین ؑکو موجود پایا ۔لب ہائے مبارکہ کو جنبش ہوئی اور فرمایا،جبریل ؑ کیسے آنا ہوا ؟جبریل ؑ نے عرض کیا ۔اللہ تبارک تعالیٰ آپ کے ملاقات کا مشتاق ہے ،عرش بریں پر چلئے محمدؐاللہ تمہیں بلاتے ہیں ۔حضور پر نورؐ کو بیدار کرنے کے بعد جبریل ؑ آپ کو خانہ کعبہ میں اس جگہ پر لے گئے جس کو حطیم کہتے ہیں ۔سینہ مبارک کو چاک فرمایا اور قلب اطہر کو نکال کر آب زم زم سے دھویا۔حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضورؐنے گردن کے گڈھے سے ناف تک کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،یہاں سے یہاں تک میرے سینے کو چاک کرکے میرے دل کو نکالا گیا اور سونے کی طشت میں زم زم کے پانی سے دھویا گیا ۔میرا دل حکمت ایمان سے لبریز ہوا ،پھر اسے سینے کے اندر بھر دیا گیا اور پھر سینے کو ملایا گیا ۔اس عمل کے بعد ایک تیز سواری برُاق لائی گئی جس پر صاحب معراجؐکو سوار کرکے بیت المقدس کی طرف چل پڑے۔جبریل ؑہمسفر تھے انہوںنے یثرب ،طور سینا ،اور بیت الحرم جیسے اہم مقامات پر برُاق کو ٹھہراتے ہوئے ان کی اصلیت کے بارے میں بتایا۔بیت المقدس پہنچ کر جبریل ؑ نے پتھر میں سوراغ کرکے برُاق کو باندھا۔وہاں تمام امبیائے کرام ؑحضرت آدم ؑتا حضرت عیسٰیؑ آپؐ کے استقبال کے لئے کھڑے تھے ۔جبریل ؑ نے اذان دی ،امبیائے کرام صفیں باندھے کھڑے ہو گئے۔آپؐنے امامت کا فریضہ انجام دے کر نماز پڑھائی۔ بعد ازاں آپؐ کے سامنے پانی،دودھ اور شراب سے بھرے ہوئے تین پیالے پیش کئے گئے ،آپ ؐ نے دودھ کا پیالہ نوش فرمایا ۔جس پر جبریل ؑ نے مبارک باد دی کہ آپؐ فطرت کی راہ پا گئے ۔اس کے بعد ایک سیڑھی آپؐ کے سامنے پیش کی گئی اور جبریل امین آپؐکو اس کے ذریعے آسمانوں کی طرف لے گئے ۔عربی میں سیڑھی معراج کو کہتے ہین اسی مناسبت سے یہ سارا واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا ۔
حضور پر نورؐپہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا ۔محافظ فرشتوں نے پوچھا ،کون آیا ہے ؟جبریل ؑ نے اپنا نام بتا دیا ۔پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے ؟جبریل ؑ نے کہا محمدؐ ،پھر پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں ۔تب دروازہ کھولا گیا اور آپؐکا پرتباک استقبال کیا گیا ۔
یہاں حضرت آدم ؑ سے آپ کی ملاقات ہوئی ،تعارف ہوا ۔آپ نے ان کو سلام کیا ۔انہونے سلام کا جواب دیا اور اس مبارک آمد پر اپنے صالح فرزند کو مرحبا فرمایا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا ۔حضرت آدم ؑ کی دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں تھیںاور بائیں جانب بد بختوں کی۔دوسرے آسمان پر حضرت یحی ٰبن زکریا اور حضرت عیسٰی ؑ سے ملاقات ہوئی۔دونوں نبیوں نے آپ کی نبوت کا اقرار کیا ۔تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑ ،چوتھے آسمان پر حضرت ادریس، ؑپانچویں آسمان پو حضرت ہارون ؑ،چٹھے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑاور ساتویں آسمان پر اپنے جد امجد حضرت ابراہیم ؑجو بیت المعمور کے ساتھ پشت لگائے بیٹھے تھے،سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ان تمام نبیوں نے آپؐ سے سلام و دعا کے بعد مبارک باد دی اور آپ کی نبوت کی تصدیق فرمائی۔بیت المعمور خانہ کعبہ کے برابر ساتویں آسمان پر فرشتوں کا کعبہ ہے جس میں جمعہ قائیم ہے ۔جہاںحضرت جبریل ؑ مئو ذن ،میکائیل خطیب جمعہ اور اسرافیل امام ہیں ،جو نماز جمعہ کے اختتام پرثواب امت محمد کو بخشتے ہیں۔
پھر مزید سفر شروع ہوا یہاں تک کہ آپ سدت المنتہیٰ پہنچے۔یہ مقام رب کائنات اور مخلوق کے درمیان حد فاضل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس پر تمام مخلوقات کا علم ختم ہوجاتا ہے ،یہاں سے آگے بڑھنے کی کسی کو طاقت نہیںہے ۔سدرت المنتہیٰ پر آکر جبریل ؑ رک گئے اور آگے بڑھنے سے یہ کہہ کر معذرت ظاہر کردی کہ اگر میں اس مقام سے آگے بڑھوں تونور تجلی سے خاکستر ہو جائوں گا ۔حضور پر نورؐ تنہا آگے بڑھے، سامنے بارگاہ رب ذلجلال تھی۔آپ ؐآگے بڑھے اور رب کریم کے اتنے قریب ہوئے جتنا تیر اور کمان کے درمیاں فاصلہ ہوتا ہے ۔یہاں مُحب اور محبوب کے درمیاں راز و نیاز کی باتیں ہوئی۔مسلمانوں کے لئے ہر روز پچاس نمازیں فرض ہوئی جو بعد میں پانچ نمازوں تک محدود کی گئی ،لیکن اجر وثواب برابر پچاس نمازوں کا ملے گا ۔سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیںتعلیم فرمائی گئی۔شرک کے بغیر تمام گناہوںکی مغفرت کا امکان ظاہر کیا گیا۔نیکی کا ارادہ کرنے پر ایک نیکی اور عمل کرنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔برائی کا ارادہ کرنے پر کچھ نہیں لکھا جائے گا جب کہ عمل کرنے پر صرف ایک برائی لکھی جائے گی ۔اس طرح اس تاریخ ساز سٖٖفر کی واپسی پر پھر تمام انبیائے کرام کو نماز پڑھائی پھر براق پر سوار ہو کر ام ہانی کے گھر لوٹے۔
قران کریم میں اس تاریخ ساز سفر کا یوں ذکر ہے ۔ترجمہ ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندے (محمدؐ) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی تاکہ ہم اسے کچھ عظٰیم نشانیوں کا مشاہدہ کرائیںیقینًا وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ‘‘ (سورہ بنی اسرائیل)۔ معراج کے دوران آپ کو بہت سارے واقعات کا مشاہدہ کرایا گیا ۔جن کی تٖفاصیل احادیث مبارکہ کی کتابوں میں موجود ہے ۔جن میں بے نمازیوں،سود خوروں،امانت میں خیانت کرنے والوں،یتیموں کا مال ہڑپ کرنے والوں ،فتنہ برپا کرنے والوں اور زانیوں کا عبرتناک انجام شامل ہے ۔
صبح آپ ؐنے یہ واقع سب سے پہلے ام ہانی ؓ کو سنایا۔انہونے لوگوں سے اس واقع کا ذکر کرنے سے منع فرمایا،انہیں ڈر لا حق ہوگیاکہ لوگ آپ کا مذاق نہ اڑائیں ۔لیکن آپؐ یہ تاریخ ساز واقع کیسے چھپاتے ۔حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو ابو جہل سے آمنا سامنا ہوا ۔واقع سن کر وہ چونک اٹھا اس نے ساری قوم کو جمع کیا ۔آپ نے سب کے سامنے پورا واقع تفصیل سے بیان کیا ۔لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کیا ،وہ حیران تھے کہ دو مہینے کا سفر رات کے ایک حصے میں کیسے طئے ہو سکتا ہے ۔کچھ لوگ ابو بکر صدیق ؓ کو خبر دینے چلے گئے ان کا خیال تھا کہ محمدؐکے دست راست یہ قصہ سن کر اسلام سے مکر جائیں گے ۔لیکن انہونے فرمایا کہ اگر یہ بات واقعی میرا نبی کہتا ہے تو بالکل سچ کہتا ہے ۔اس طرح ابو بکرؓ نے سب سے پہلے اس کی تصدیق فرمائی اور قیامت تک کے لئے ان کا لقب صدیق اکبر ؓ پڑگیا۔حضرت صدیق اکبر ؓ حرم کعبہ میں پہنچے اور لوگوں کے سامنے رسول محترم ؐ ؐسے بیت المقڈ س کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے ۔آپ نے بیت المقدس کا نقشہ اس طرح بیاں فرمایا جیسے بیت المقدس سامنے تھا ۔حضرت ابو بکر ؓکی اس تدبیر سے دشمنوں کو شدید ضرب لگی اور ان کی زبانیں بند ہو گئی۔
واقعہ معراج سے متعلق علماء کرام بیان فرماتے ہیں کہ نبوت کے مشکل ترین دس سال گزرے ۔ مصائیب ،پریشانیوں،امتحان وآزمائشوں کی منز لیں طئے ہو گئیں ۔جنہیں محمدؐ ؐنے حق تعالیٰ کی خاطر خندی پیشانی سے برداشت فرمایا۔توفیق الٰہی اور اپنی پیغمبرانہ بصیرتوں سے کام لے کر صبر کا مطاہرہ فرمایا۔رب کریم کی بارگاہ میںاس کا صلہ معراج کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ۔چنانچہ رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور آپؐکومعراج کے منفرد عزت واکرام سے نوازے گئے اور اس قدر اونچا اٹھائے گئے جو کائنات کا منتبیٰ ہے ،یعنی عرش عظیم ،جس کے بعد کوئی رفعت و بلندی نہیں ہے ۔یہ بلند اعزازواکرام سرورکائنات کے سواکسی اور ذی روح مخلوق کو نہیں بخشا گیا ۔اس طرح آپؐ ایک عظیم مرتبے پر فائیز ہو کر بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے عملی مصداق ہیں۔
رابطہ ۔[email protected] tar