ڈاکٹر عریف جامعی
ربّ ِ تعالیٰ کی رحمت ہر لحاظ سے پوری کائنات پر سایہ فگن ہے۔ اگرچہ کائنات کا وجود بذات خود خدا کی بے پایاں رحمت کا ظہور ہے، لیکن جس انضباط اور ہم آہنگی کے ساتھ اس کا انتظام جاری و ساری ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک علیم و حکیم خدا کی کار فرمائی کے تحت اسی کے ضابطوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ رحمت پر مبنی اس نظام کائنات میں انسان کی تخلیق ایک ایسا وقوعہ ہے جس کی رحمت کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ تاہم انسان کے وجود میں رحمت کی کئی جہات جمع ہوتی ہیں۔ رحمت کی ایک جہت یہ ہے کہ اس کو رب تعالی نے ایک خاص طرح کی خلقت (احسن التقویم) عطا کی۔ رحمت کی دوسری جہت یہ ہے کہ اس کو نطق کی صلاحیت سے نوازا گیا، جو اسے باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ تاہم رحمت کی سب سے بڑی جہت یہ ہے کہ اس کی قوت عقل و فکر اور فہم و فؤاد کو راہ راست پر رکھنے کے لئے اسے الٰہی علم سے نوازا گیا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘(الرحمٰن، ۱-٤)
انسان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عنایت یعنی ہدایت کا ذکر خدا کی صفت ’’الرحمٰن ‘‘کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ابن کثیر کے مطابق ’’الرحمٰن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں، لیکن اول الذکر میں ثانی الذکر سے زیادہ مبالغہ ہے۔ یعنی ’’الرحمٰن‘‘ سے مراد رب تعالیٰ کی رحمت کا وہ دریائے بے کراں ہے جو خاص موقعوں پر ہی جوش میں آتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ عالم رنگ و بو کے ساتھ خدا کی رحمت کا تعلق کبھی منقطع ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ خدا ’’الرحمٰن‘‘ کے ساتھ ’’الرحیم‘‘ بھی ہے، یعنی اس کی رحمت باقاعدگی کے ساتھ مسلسل جاری رہتی ہے۔ لیکن جب کسی خاص موقعے، جس کا تعین رب تعالیٰ خود فرماتے ہیں، پر انسان کو اس کی رحمت کی سخت ضرورت ہوتی ہے، اس وقت خدا کی رحمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس کو سہارا دیتا ہے اور جب پوری انسانیت کو اس کی رحمت کی احتیاج ہوتی ہے، اس وقت رب تعالیٰ اپنی رحمت کا خصوصی اہتمام فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام پر اپنی کتابوں کا جو نزول فرمایا، وہ اس کی اسی رحمت خاص کا اظہار ہے۔ یعنی اگر انسان کے لئے ہدایت کا یہ اعلیٰ اور ارفع انتظام نہیں کیا جاتا، تو انسانیت اپنا مقصد وجود کھو بیٹھتی۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ نے ایک کے بعد ایک مسلسل رسول بھیجے اور ان کو کتابیں دیکر انسانیت کا رہبری کے لئے منتخب فرمایا۔ ہدایت کی اس ترسیل کا انتظام خدا نے انسان کو دنیا میں بھیجتے ہوئے ہی کردیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے، تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‘‘ (البقرہ، ۳۸) ابو الانبیاء، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ہدایت کے اسی سلسلے کی تکمیل کے لئے کچھ اس طرح سے دعا فرمائی تھی: ’’اے ہمارے ربّ! ان میں انہی میں سے رسول بھیج، جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔‘‘ (البقرہ، ۱۲۹)
اس دعا کو ۲۵۰۰ برس گزر چکے تھے کہ ربّ تعالیٰ نے عرب کی سرزمین میں اپنے آخری نبیؐ مبعوث فرمائے۔ اڑھائی ہزار سالہ اس دور میں سیدنا ابراہیمؑ کی دوسری شاخ میں انبیاء کرامؑ مبعوث ہوتے رہے۔ ان انبیاء کے متبعین، خاص طور پر یہود و نصاریٰ دین حنیف کی اس روایت سے کافی دور ہوگئے جسے ابراہیم ؑ لے کر آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی انہیں مخاطب کرکے کہا گیا کہ: ’’ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے، بلکہ وہ تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وہ مشرک بھی نہ تھے۔‘‘ (آل عمران، ۶۷) اور کبھی ان کے بارے میں یوں خبردار کیا گیا: ’’جنہوں نے اس کتاب الہٰی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔‘‘ (الحجر، ۹۱)غرض جب سیدنا ابراہیم ؑ کی سکھائی ہوئی توحید لوگ بھول چکے تھے اور ’’دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا‘‘ بھی اب بتوں سے اٹا پڑا تھا اور اس کا اب کوئی ’’پاسباں‘‘ نہیں رہا تھا، تو خدائے رحمٰن کی رحمت جوش میں آئی۔ انہی حالات میں محمدؐ کو ’’نبی الخاتم‘‘ بناکر بھیجا گیا۔ آپؐ کی بعثت سیدنا مسیح ؑ کے اچھے خاصے عرصہ بعد ہوئی۔ تقریباً پونے چھ سو سال کی اس مدت کو بنی اسرائیل کی تاریخ میں ’’فترۃ من الرسل‘‘(رسولوں کے درمیان وقفہ) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنو اسمٰعیل ہی نہیں بلکہ بنو اسرائیل بھی آخری نبیؐ کے انتظار میں تھے۔ قرآن کی رو سے: ’’بالیقین ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے بعد آپہنچا ہے۔‘‘ (المائدہ، ۱۹) واضح رہے کہ انسانیت پوری کی پوری مذہب، اخلاق اور معاشرت کے اعتبار سے کچھ ایسی دلدل میں گری ہوئی تھی کہ اسے اس دلدل سے آزادی دلانے والے کی سخت ضرورت تھی۔ البتہ انسان کو شیطان نے کچھ ایسی پٹی پڑھائی تھی کہ وہ بھلے اور بُرے میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس لئے حق اور باطل کے اس التباس کو دور کرنے اور باطل پرستی کے انجام بد سے ڈرانے کے لئے نبی اکرمؐ کو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا گیا: ’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے۔‘‘ (الفرقان، ۱)
دراصل انبیاء کرام علیہم السلام، سیدنا آدم ؑ سے لیکر سیدنا مسیح ؑ تک یہی ذمہ داری انجام دیتے آئے تھے کہ غافل انسان کو باطل پرستی کے انجام بد سے ڈرایا جائے اور اسے حق پرستی کی ’’سواء السبیل‘‘ پر چلنے کی تلقین کی جائے، تاکہ انسانی معاشرے میں ’’صلاح‘‘ کا دور دورہ ہو اور انسان کو آخرت میں ’’فلاح‘‘ حاصل ہوسکے۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوش خبری سنانے والے اور آگاہ کرنے والے۔‘‘ (النساء، ۱۶۵) یہی انبیائی اخلاق اگلی کتابوں میں درج تو تھا، لیکن اس میں کئی طرح کا حذف و اضافہ ہوا تھا۔ اس اخلاق کو ابدی اور عالمگیر شکل دینے کے لئے نبی اکرم ؐ کی بعثت ہوئی تاکہ آپؐ اس کو برت کر دکھائیں۔ اسی نبوی برتاؤ (بہیوئر) کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ یعنی ’’آپؐ کا خلق سراسر قرآن تھا!‘‘ (مسلم)پیغمبرانہ اخلاق کا خاکہ اگرچہ پورے قرآن میں موجود ہے، تاہم اس کا لب لباب ان آیات میں بیان ہوا ہے جن میں نبیؐ کی چہارگانہ دعوتی ذمہ داری کو واضح کیا گیا ہے، جسے الفاظ کی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ قرآن میں چار جگہ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تزکیہ یعنی پاکیزگی کے بغیر انبیائی سلوک اختیار کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائی دعوت میں پاکیزگی کی مرکزی اہمیت ہے۔ تاہم اس پاکیزگی کو پانے کا فقط ایک طریقۂ کار ہے، وہ ہے تلاوت آیات الہٰی۔ یہ آیات انسان کو نہ صرف اپنے وجود سے باخبر کرتی ہیں، بلکہ اسے انہی آیات کے ذریعے اپنا انجام بھی یاد دلایا جاتا ہے اور آفاق و انفس کے ساتھ اس کے تعلق کو بھی یہی آیات واضح کرتی ہیں۔ مؤمن جب مکمل پاکیزگی حاصل کرتا ہے، تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ احکام الہٰی کو اپنا قانون (کتاب) زندگی بنائے۔ خدا کے قانون کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے ہی اسے وہ حکمت ہاتھ آتی ہے جو اس کی راہوں کو تجلّیات الہٰی سے روشن کرتی ہے اور اس کو ’’خیر کثیر‘‘ کا مستحق بناتی ہے: ’’وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس شخص کو حکمت عطا ہوئی اسے ساری بھلائی دی گئی۔‘‘ (البقرہ، ۲۶۹)
حکمت کی یہ تجلّیات اور دانائی کے یہ انوار اگرچہ خدا کے ہر نبی علیہ السلام نے لوگوں تک پہنچائے، لیکن نبی رحمت ؐ کی ہر محفل، چاہے وہ نجی ہو یا معاشرتی، میں ان کی ضو فشانی ہوتی رہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب آپؐ کا فکر و نظر اور قول و فعل نور ہو، تو ہر کوئی آپؐ کا مصاحب بننا پسند کرتا تھا۔ یہ بھی دراصل رب تعالیٰ کا آپؐ پر اور آپؐ کے توسط سے پوری امت پر اللہ تعالیٰ کا فیضان رحمت تھا کہ آپ ؐ کی محفل سے ہر کوئی ہدایت اور حکمت کی نعمت سے مستفید ہوتا تھا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔‘‘(آل عمران، ۱۵۹) امہات المؤمنین کو خصوصی طور پر یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ نبیؐ کی تلاوت آیات اور تعلیم حکمت سے فائدہ اٹھائیں: ’’اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہے، ان کا ذکر کرتی رہو۔‘‘ (الاحزاب، ۳۴)
تلاوت آیات اور تعلیم حکمت کی جو ذمہ داری نبی کریمؐ کے سپرد کی گئی، اس سے مؤمنین اسلامی سلوک کی شاہراہ عظیم پر کھڑے ہوگئے، جہاں وہ الہٰی تجلّیات کے جلو میں جینے لگے۔ جب زندگیاں اس نور سے مستنیر ہوگئیں، تو معاشرے کی دین کی بنیادوں پر تشکیل ہونے لگی۔ یعنی ’’الرحمٰن‘‘ نے نبئ رحمتؐ کے ذریعے جو تعلیم دی، اس سے ایسے ’’عباد الرحمٰن‘‘ (الفرقان، ۶۳) تیار ہوئے جن پر ’’اللہ کا رنگ‘‘ (البقرہ، ۱۳۸) چڑھ گیا۔ قرآن نے خدا کے ان بندوں کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے: ’’رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ (الفرقان، ۶۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبران کرام علیہم السلام نے توحید کے زیر سایہ اخلاق کی جو عمارت تعمیر کی تھی، اس کی اب تکمیل ہوگئی۔ اس کی تکمیل کی طرف نبی کریم ؐ نے کچھ اس طرح اشارہ فرمایا ہے: ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ یعنی ’’مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔‘‘ (بخاری)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ توحید پر مبنی الہٰی تعلیمات جب ایک باضابطہ نظام اخلاق کی صورت اختیار کرتی ہیں، تو انسانی معاشرے کے لئے ان پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہر کوئی اچھا کام صرف قانون پر چھوڑ دیا جائے، تو وہ خدا رخی اور آخرت رخی نہیں رہتا۔ قرآن نے اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے: ’’سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے، اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو بے راہ رکھنا چاہے، اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے، جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے۔‘‘ (الانعام، ۱۲۵) اسی اخلاق کو دلنشین اور خوش نما انداز میں نبی کریم ؐ نے برت کر دکھایا، جو مؤمنین کے لئے ’’اسوہ حسنہ‘‘ (الاحزاب، ۲۱) قرار دیا گیا۔ یہی اسوہ اپناکر، یعنی صالحین کی خو اختیار کرکے انسانیت اس قابل ہوسکتی ہے کہ وہ ابدی طور پر خدا کی زمین کی وارث بن سکے۔ (الانبیاء، ۱۰۵) چونکہ زمین (جنت) کی وراثت ہی خدا کی سب سے بڑی رحمت کا ظہور ہے، اس لئے نبی کریمؐ کے لئے رب تعالیٰ نے اعلان فرمایا: ’’وما ارسلنٰک الا رحمتً للعٰلمین۔‘‘ (الانبیاء، ۱۰۷)
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965
[email protected]