سید مصطفیٰ احمد ۔ بڈگام
اس فانی زندگی کے تیس سال گزارنے کے بعد یہ احساس ہونے لگا ہے کہ دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ بذات خود غلط نہیں ہے۔ اگر کہیں خامی پائی جاتی ہے تو وہ ہمارے اندر ہی موجود ہیں۔ دنیا میں جتنی بھی چیزیں پائی جاتی ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔ نہ جانے کن ہاتھوں نے اس دنیا کی بنیاد رکھی ہے کہ ہر بار لٹنے کے باوجود بھی اس کی بناوٹ میں کسی بھی قسم کی کوئی خامی پیدا نہیں ہوتی ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ چیزوں کی بناوٹ میں کوئی کسر باقی نہیں ہے لیکن یہ دیکھنے والی کی بصارت اور بصیرت پر منحصر ہیں کہ وہ چیزوں کو کن زاویوں سے دیکھتا ہے۔ایک انسان کا زہر دوسرے انسان کے لئے آب حیات کا کام کرتا ہے۔ ایک شخص کے لئے یہ دنیا عذاب لیکن دوسرے کے لئے اس دنیا میں ہی اپنے آپ کو سنوارنے اور سدھارنے کے سارے سامان موجودہے۔ کوئی انسان چڑھتے سورج کے ساتھ ڈوب جاتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی انسان ڈوبتے سورج کے ساتھ سات آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے سامان مہیا رکھتاہے۔ کوئی رات کو موت کے معنوں میں سمجھتا ہے تو کوئی رات کے اندھیرے میں اپنے
من کے اندھیرے کو ڈھونڈ کر سیپی کی طرح گہرے اندھیروں میں خود کو پاکر بھی اپنی ذات کو لامکاں کی سب سے اونچے پائیدان پر پہنچانے کی ہر ممکن کوششیں کرتا ہے۔ اب اگر نظر کا قصور ہو، تو رحمت بھی زحمت دکھائی پڑتی ہے۔ ساری خوبصورت چیزیں بدصورتی کی انتہا پر دکھائی دیتی ہیں۔ بیشتر انسانوں کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ اپنی خامیوں کو نظرانداز کرکے وہ دنیا اور دنیا کے اندر پائی جانے والی چیزوں سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں اور ان ہی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن کچھ گنے چنے لوگ ہیں جو اپنی نظروں کا علاج کرتے ہوئے دوسروں کو قصور وار ٹھرانے کے بجائے ہر چیز کے مختلف پہلوؤں کا گہرائی سے مشاہدہ کرکے ساری غلطیاں اپنے سر لیتے ہیں اور اپنی اندر پائے جانے والی گند کو دیکھتے ہوئے اپنے اوپر کام کرنے لگتے ہیں۔ ہر آن ترقی کی طرف دوڑتے ہیں۔وہ ترقی جو کسی کو پچھاڑنے کے بجائے اپنے آپ کو گزرے ہوئے کل سے بہتر بنانے کی خصوصیت سے لبریز ہوتی ہے۔
اصل میں لوگوں کے درمیان رسوائی سے بچنے اور اپنی جھوٹی پہچان برقرار رکھنے کے لئے ایک انسان خود اپنی بصیرت کے علاوہ اپنی بصارت کو اس طرح سے پروان چڑھاتا ہے کہ سوائے اپنے نفس کے اس کو ہر چیز غلط دکھائی دیتی ہے۔ یعنی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی بنائی ہوئی شخصیت کے پُتلے کو گرانا نہیں چاہتا ہے۔ وہ ہر روز اس دیوہیکل بت کو مختلف رنگوں سے رنگ کر اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کی بھرپور کوششیں کرتاہے تاکہ اس کی سراب جیسی جھوٹی حقیقتوں کا پردہ فاش نہ ہو۔ کوئی بھی انسان محکوم نہیں بننا چاہتا ہے، ہر کوئی حاکمیت کی کمان اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے دوسروں پر اپنا رعب اور دبدبہ بٹھانے کی کوششیں کرتا ہے۔ اپنی تعمیر شدہ خیالی دنیا سے اتنا لگاؤ رکھتا ہے کہ باہری چیزوں میں کھوٹ کے علاوہ کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا ہے۔ جب اندرونی آنکھوں میں گرد کے علاوہ مادیت اور بغض کے غلیظ کیڑے جمع ہوگئے ہوں تو پھر اصلیت سے دور بھاگنے میں ہی راہ نجات دکھائی دیتی ہے لیکن اس سے حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر کوئی اپنی من پسند زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ چاہے زندگی کیسی بھی ہوں، ہر کوئی اپنی زندگی کے دنوں کا اپنی خواہشات کے مطابق جینا چاہتاہے، یہ زندگی پھر نادانیوں کا کھیل ہی کیوں نہ ہوں!
مندرجہ بالا سطروں سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اصل میں زندگی میں ہار اور جیت، دانائی اور نادانی، کے درمیان جو پتلی لکیر پائی جاتی ہے، وہ اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جب بھی کسی چیز کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے ،تو قصور اپنا ہی نکلتا ہے۔ بنانے والے ہر چیز کو ایک مخصوص نقطہ نظر کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ دنیا کے اندر پائی جانے والی چیزوں کو اگر ان کی اصلی شکل میں دیکھا جائے تو کوئی بھی خامی دکھائی نہیں دے گی۔ اب اگر اپنی غلطی کا اعتراف ہوگیا ہے اور ابھی سے بدلنے کا من ہم نے بنا لیا ہے تو اپنی اندرونی اور بیرونی نظروں کا علاج کروانا نہایت ضروری ہے۔ ہم ہر وقت دنیا اور دنیا میں رہنے والے دوسرے اشخاص پر اپنی گندگی کا بوجھ نہیں ڈال سکتے ہیں۔ کچھ وقت کے لئے ایسا کرنا ٹھیک لگتا ہے لیکن آگے چل کر یہ راستہ تباہی پر ہی منتج ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ خطاؤں کا ڈھیر بڑھتا جائے اور ہمالہ پہاڑ کی اونچائی حاصل کرے، ہم سب کو چاہئے کہ علاج کی سبیل میں سرگرم عمل ہوجائیں۔ ایک مقولے کے مطابق اگر صبح کا بھولا شخص شام کو لوٹ کر آتا ہے تو اس کی خامیوں کو نظرانداز کرکے اس کی نئی زندگی کی شروعات کرنے پر تعریفوں کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں۔ جس کالے کنویں میں آج تک رہ کر ہم نے اپنی زندگی کو مزاق بنایا تھا، اس سے نکلنے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے دوبارہ اس میں جانے کی حماقت نہیں کرنی چاہیے۔ دیر کبھی نہیں ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کا صحیح علاج کیا جائے۔ امید ہے کہ ہم اپنے آپ کا بہترین علاج کریں گے تاکہ راستے کا تعین آسان سے آسان تر ہوجائے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]