ایس معشوق احمد
گلرنگ مرزا بشیر شاکر کی رنگا رنگ مضامین ، تبصروں اور تاثرات پر مشتمل تصنیف ہے۔ یہ کتاب 2022 ء میں شائع ہوئی ہے۔338 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں چوبیس مضامین ہیں۔ کتاب میں شامل پہلا مضمون پروفیسر اکبر حیدری مرد قرطاس و قلم ہے۔مرزا بشیر شاکر نے جب پروفیسر اکبر حیدری کے انتقال کی خبر ریڈیو کے ذریعے سُنی تو ان کا قلم متحرک ہوا اور جس کیفیت اور صدمے سے وہ گزرے نہ صرف ان جذبات کو رقم کیا بلکہ مرحوم سے تعلق کی شروعات کب اور کیسے ہوئی کا حال احوال بھی مضمون میں رقم کیا ہے۔مصنف نے ان کی کتابوں اقبال نادر معلومات اور اقبالیات کے نئے گوشے کو شائقین اقبال کے لئے گنج ہائے گرانمایہ گردانا ہے اور ساتھ ہی ان کی ادارت میں نکلنے والے رسالے حکیم الامت کا ذکر بھی کیا ہے۔مرزا شاکر نے اکبر حیدری کے گراں قدر تحقیقی خدمات کو سراہا ہے اور ان کی تحقیقی روش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ _’’ وہ بالکل ایک جوہری کی مانند گمشدہ لعل و جواہرات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے تھے اور گرد و غبار جھاڑ کر ان کو جوہر فروش کی طرح زیب و زینت عطا کرتے تھے۔ یہ میر تقی میر خدائے سخن کی بات ہو یا انیس و دبیر مرثیہ گویان کربلا کی۔حیدری صاحب نے ان کے تئیں تحقیق کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ غالبیات کے سلسلے میں بھی وہ یدطولی رکھتے تھے۔ اس پر ان کا تحقیقی کام قابل ستائش ہے۔‘‘
دوسرا مضمون کے پی شمس الدین ترور کاڈ ‘ کے عنوان سے شامل کتاب کیا گیا ہے۔2011 ء مئی کے شمارے میں حکیم الامت میں ملیالم میں اقبالیات کے عنوان سے شمس الدین ترور کاڈ کا مضمون شامل تھا جس کو اکبر حیدری نے سراہا تھا۔اس مضمون سے متاثر ہوکر مرزا بشیر شاکر نے کیرلا سے تعلق رکھنے والے کے پی شمس الدین کا تعارف ، ان کے مضامین اور ملیالم میں اقبالیات کا جائزہ مضمون میں پیش کیا ہے۔مرزا بشیر شاکر نے کتب خانہ اکبر حیدری میں اکبر حیدری کے کتب خانے کی سیر بھی کرائی ہے اور اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال سے ایک یادگار ملاقات کی تفصیل بھی رقم کی ہے۔نہروپارک سری نگر میں واقع کتب خانہ کے عنوان سے گلرنگ میں جو مضمون شامل ہے ،اس میں مرزا بشیر شاکر نے نعیمہ احمد مہجور کی انگریزی تصنیف lost in terror کی رسم رونمائی کی تفصیل بھی رقم کی ہے اور مئی 2016 ء میں جھیل ڈل کے کنارے قائم کئے گئے کتب خانے گلشن بکز جس میں مختلف النوع تیس ہزار کتابیں موجود ہیں کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب میں شامل جٹس جاوید اقبال کی شخصیت نامی مضمون ان کی وفات کی جاں کاہ خبر کے بعد رقم کیا گیا ہے۔ اس میں مرزا شاکر نے جاوید اقبال کی والدہ ، ان کے بچپن ، ان کا بطور ہائے کورٹ جج حلف اٹھانے کی روداد اور ان کی کتابیں زندہ رود ، مئے لالہ فام ، سوانح عمری اپنا گریبان چاک کا تذکرہ کیا ہے۔جاوید اقبال چیف جٹس کے بڑے عہد پر فائز تھے لیکن ان کی وفات کے موقع پر لوگوں کی زبان پر بقول مصنف یہ الفاظ تھے _۔
’’ ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات پر لوگوں کے کانوں سے یہی آواز ٹکرائی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کے بیٹے انتقال کر گئے اور سبھی سننے والوں کی توجہ خود بخود علامہ اقبال کی طرف مبذول ہوگئی ،اس لئے اپنی الگ پہچان کے باوجود جاوید صاحب کے لئے یہ سعادت مندی ہے، نیک شگون ہے ۔‘‘
مرزا بشیر شاکر محکمہ ڈاک میں ملازم رہ چکے ہیں، اس لئے ظاہر ہے کہ اس محکمے کی تمام خوبیوں اور خامیوں کا انہیں علم ہوگا۔اپنے تجربے سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے صوبہ کشمیر میں ڈاک کی ناقص تقسیم کاری کے عنوان سے مضمون رقم کیا، جس میں انہوں نے ڈاک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے اور انٹرنیٹ کے آنے میں اس کی اہمیت میں جو کمی واقع ہوئی ہے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔اس مضمون میں ڈاک خانے کے ملازمین پر یہ الزام بھی آیا کہ وہ دیر سے آتے ہیں اور انہیں گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔مرزا بشیر شاکر اس مضمون میں یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ انہیں ڈاک کے ذریعے سے جو رسائل بھیجے گئے ،وہ کبھی ان کے گھر نہ پہنچ پائے۔
علامہ اقبال سے جو شئے منسوب ہوئی اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عاشقان اقبال نے جزیات سمیت اس کا ذکر اپنے مضامین میں کیا۔علامہ کے خادم علی بخش نے علامہ کی بہت خدمت کی ،یہی سبب ہے کہ ان کا تذکرہ احترام سے کیا جاتا ہے۔مرزا بشیر شاکر نے بھی اپنے مضمون علی بخش خادم اقبال میں ان کے کام ، خدمت گزاری اور ان کی شخصیت کو مختلف واقعات سے اُجاگر کیا ہے۔مرزا بشیر شاکر علی بخش کو خوش نصیب گردانتے ہیں کہ وہ علامہ جیسی عقبری شخصیت کے شب و روز سے واقف رہے۔آل اقبال کے ساتھ گزاری جانے والی ساعتیں ہوں یا سہ روزہ کانفرنس کے سلسلے میں پونچھ کا دورہ ، حجاج کرام کے نوازش نامے ہوں یا ملک و قوم کے رہبروں سے سوال کرنے کی جرأت ، حکیم الامت کا تقی عابدی نمبر ہو یا اسپتال میں جو عبرت ناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں، ان کی روداد، صوفی غلام محمد سے جڑی یادوں کا تذکرہ ہو یا غلام نبی فراق سے مراسم کا ذکر غرض کتاب کے پہلے حصے میں مرزا بشیر شاکر نے ادبی ،نیم ادبی اور تعزیتی مضامین رقم کئے ہیں جو معلوماتی بھی ہیں اور جذباتی بھی۔
کتاب کا دوسرا حصہ اٹھارہ تبصروں اور تاثرات پر مشتمل ہے۔ اکبر حیدری کی کتابیں اقبال نادر معلومات اور اقبال _ احباب و آثار ہو یا سلطان الحق شہیدی کا مسدس حالی کا منظوم ترجمہ ، مرزا خلیل احمد بیگ کی مرتب کردہ کتاب مکاتیب مسعود ہو یا حکیم الامت کا نعت نمبر مرزا بشیر شاکر نے ان کتابوں اور رسائل کا وقتاًفوقتاً مطالعہ کیا ہے اور ان کا جائزہ لے کر ان کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔کتابیں ہم نشین میری پر ڈاکٹر ریاض توحیدی کا تبصرہ اور اقبال کے دیس میں پر سہیل سالم کا جائزہ بھی شامل کتاب ہے اور آخر پر مرزا بشیر شاکر کے متعلق ایم ایس رحمان شمس اور اکبر حیدری کے تاثرات بھی شامل ہیں۔گلرنگ کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ مرزا بشیر شاکر علامہ اقبال اور اکبر حیدری سے بے حد متاثر ہیں ۔ان کا آل اقبال کے ساتھ جو ملاقاتوں کا سلسلہ رہا اس نے ان کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑا ہے یہی سبب ہے کہ وہ بار بار کتاب میں ان ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً چار مضامین علامہ اقبال کے فرزند کے متعلق رقم کئے ہیں۔ان مضامین میں بعض باتیں دہرائی گئی ہیں اور ان سے ملاقات کی تفصیل بار بار آئی ہے۔اکبر حیدری کے متعلق بھی دو تین مضامین کتاب میں شامل ہیں اور ان کی کتابوں کے متعلق تبصرے بھی شامل کتاب ہیں۔ بار بار ان دو شخصیتوں کے بارے میں پڑھ کر قاری بور ہوجاتا ہے۔ان مضامین سے قطع نظر گلرنگ میں رنگا رنگ مضامین شامل ہیں جن میں معلومات ، تجربات اور مشاہدات کا خزانہ جمع کیا گیا ہے جو تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے لئے آب حیات کا کام دیں گے۔
رابطہ۔8493981240