نئی دہلی /احمدآباد// ہر چند کہ 2002 کے مسلم مخالف تشدد کا داغ بی جے پی کو گجرات میں پے بہ پے انتخابات چیتنے سے روک نہیں پایا اور اب تو یہ زعفرانی پارٹی 2017 میں ریاست کی مسلم خواتین کے ووٹوں کا بڑا حصہ لیکر میدان عمل میں اترنے جارہی ہے ۔ناطدین کچھ بھی کہیں بی جے پی کو معاشرے میں تمام شعبہ ہائے زندگی کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ ریاستی وزیراعلیٰ وجے روپانی نے دورے پر آئے صحافیوں کے گروپ سے یہ استدلال کیا اور کہا اس مرتبہ ریاست کی مسلم خواتین تو بس بی جے پی کو ووٹ دیں گی۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم خواتین کا غالب رجحان بی جے پی کی طرف ہے جو ووٹ میں تبدیل ہوکر رہے گی۔انہوں نے کہا سچ تو یہ ہے کہ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کا انتخابی تجزیہ بتاتا ہے کہ اقلیتی ووٹ زعفرانی امید واروں کو ہی ملے تھے ۔پانچ سال پہلے بی جے پی نے احمدآباد میں مسلم غلبے والی کھڈیا سیٹ جیتی تھی اور اس سیٹ پر مسلمانوں کی حمایت کے بغیر جیتنا ممکن نہیں تھا ۔بی جے پی لیڈر نے بتایا کہ جمال پور کھڈیا میں شروع میں اے آئی سعید کو اتارنے کی تجویز تھی لیکن 2012 میں یہ سیٹ اشوک بھٹ کے بیٹے بھوشن بھٹ کو دے دی گئی۔مقامی بی جے پی لیڈر ورین کمار نے بتایا کہ بی جے پی نے وہ سیٹ جیت لی۔ اس حلقے میں ایک لاکھ 80 ہزار ووٹوں میں ایک لاکھ ووٹ مسلمانوں کے ہیں ۔اسی طرح احمدآباد اور وڈودرہ کے فساد سے متاثر علاقوں کے مسلمانوں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ 2002 کے خوف سے باہر نکل چکے ہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسلمانوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ 2012 میں بی جے پی کو کوئی مسلم امیدوار کیسے نہیں ملا۔ودودرہ میں بھی ایک ٹیچر نے بھی کم بہ بیش انہی جذبات کا اظہار کیا اس نے کہا کہ اگر بی جے پی مسلم امیدوار کھڑی کرتی ہے تو اس کی کارکردگی اچھی رہے گی ۔ بہت سے معزز مسلمان بی جے پی میں شامل ہونے کے لئے آگے آرہے ہیں ۔2002 میں مسلم ووٹنگ کے حوالے سے اس نے کہا کہ مسلم والدین اب اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں اور اب 2002 کا معاملہ الیکشن کا موزوں نہیں رہ گیا ہے ۔سوراشٹر علاقے کے سریندر نگر میں بی جے پی کے ایک کارکن نے کہا گجرات میں جہاں مسلمانوں کی آبادی 10 فی صد ہے ، سرکاری ملازمتوں میں ان نمائندگی بڑھ کر تقریباً 5.4ہوگئی ہے ۔اس کا موازنہ بنگال سے کیا جائے تو صورتحال واضح ہوتی ہے جہاں 25 فی صد مسلم آبادی کی سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی 2.1 فی صد تھی۔اس نے مزید کہا کہ اس سے سیکولر سیاسی پارٹیوں کا دوہرا معیار سامنے آتا ہے ۔دیگر لوگ بھی اس کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں ایک مسلم ٹی اسٹال مالک نے بتایا کہ 2002 کے فسادات کے بعد بی جے پی نے 2007 اور 2012 میں ریاستی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اس پورے عرصے میں گجرات میں مسلمانوں میں خوشحالی آئی ہے ۔ودودرہ میں ایک کالج کی طالبہ نندنی شیوا نے بتایا کہ حالیہ رپورٹو ں کے مطابق گجرات کے کچھ علاقوں میں مسلمانوں میں خواندگی کا تناسب 73 فی صد ہے جو کہ ہندوں سے زیادہ ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ دیہی مسلم خواتین میں خواندگی کا تناسب 57 فی صد ہے جوکہ قومی اوسط 43 فی صد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے حالات بہتر ہیں ۔یو این آئی