سرینگر//وادی میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران جان بحق ہوئی 7خواتین کے رشتہ دار اورہل خانہ بشری حقوق کے عالمی دن پر ان کی جدائی میں خون کے آنسو رو رہے ہیں جبکہ انشا،شب روز اور یاسمین کے والدین بھی اپنی معصوم کلیوں کے مسخ شدہ چہروں پر نظر ڈالنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔5ماہ کی احتجاجی لہر میں جہاں5برس کی زہرہ فاروق پیلٹ کا شکار بنی وہیں بانڈی پورہ کی80برس کی حاجرہ بیگم بھی مبینہ فورسز کی پارپیٹ سے موت کی آغوش میں چلی گئی۔بین الاقوامی سطح پر10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا تھا۔ اس روز تمام لوگوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے عزم دہرایا جاتا ہے تاہم کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے ۔8جولائی کو حزب کمانڈر برہان وانی کے جان بحق ہونے ساتھ ہی شروع ہوئی احتجاجی لہر کے22ہفتوں کے دوران فورسز کی کاروائی میں100شہری ہلاک ہوئے جن میں7خواتین بھی شامل ہیں جبکہ16ہزار زخمیوں میں سینکڑوں کی تعداد میں صنف نازک بھی شامل ہیں۔امسال9جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کی خبر سنتے ہی دمحال ہانجی پورہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آئی اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگی۔جلوس میں شامل ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرامن احتجاج تھا تاہم اچانک فورسز اور پولیس نمودار ہوئی اور انہوں نے احتجاجیوں پر دھاوا بولتے ہوئے یلغار کی جس کی وجہ سے لوگ محفوظ مقامات کی طرف جانے لگے۔ ایک اور نوجوان نے بتایا کہ اس دوران انہیں یہ خبر ملی کہ ایک13برس کے لڑکے کو گرفتار کیا گیا اور فوج معین نامی اس نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس لڑکے کی بہن بھی گھر سے باہر آئی اور اس جانب دودھ پڑی جہاں معین کو تختہ مشق بنایا جا ریا تھاکہ اسی اثناء میں یاسمین نے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور اس کو فورسز کے چنگل سے بچانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ اس دوران ہم نے گولیوں کی آواز سنی اور یاسمین خون میں لت پت ہوکر زمین پر گری تھی جبکہ یاسمین کے سر میں گولی پیوست ہوئی تھی۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یاسمین کے ایک بھائی نے اپنی بہن کو کندھے پر اٹھا کر اسپتال پہنچایا تاہم ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قرار دیا۔یاسمین کے گھروالوں کو جیسے یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ انکی جواں سال بیٹی انہیں چھوڑ کر کسی اور دنیا میں چلی گئی ہے ۔رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جس جوان سال بیٹی کے مستقبل کیلئے گھر والوں نے حسین خواب سجائے تھے، اس کو پیوند خاک کرنا پڑااور اس کا قرب اور درد الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کولگام کے ہی چورٹھ قاضی گنڈ میں18جولائی کو فوج کی فائرنگ میں ایک خاتون سمیت2افراد کی موت واقع ہوئی۔مقامی لوگوں کے مطابق چورٹھ میں پرامن دھرنا تھا اور اس دوران فوج کی کئی گاڑیاں وہاں پہنچی جو احتجاجی دھرنے کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی اور واپس کیمپ میں روانہ ہوئی۔مقامی بستی کے لوگوں کے مطابق کچھ دیر بعد کیمپ سے گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہوا اور انہوں نے توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ کئی بستیوں میں مکینوں کا زد کوب کیا،جس کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیاجبکہ فورسز نے راست فائرنگ کرتے ہوئے2 افراد کو ہلاک کیا جن میں سعیدہ بیگم زوجہ غلام حسن نامی خاتون بھی شامل تھی۔ اس فائرنگ کے واقعے میں جان بحق خاتون سعدہ بیگم کی ایک لڑکی نور جہاںاس دوران فائرنگ میں زخمی ہوئی ۔ایک خاتون19جولائی کو زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔4بچوں کی والدہ32برس کی جواں سال خاتون نیلوفر اختر زوجہ محمد یوسف وانی کے بچوں کو اب تک اپنی والدہ کی یادستا رہی ہے اور وہ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ چھوٹے اور کمسن بچوں کیلئے ماں کی دوری نا قابل برداشت ہے اور اس کی کسک انکے والد کو بھی ستا رہی ہے۔ اس واقعے میں زخمی ہوئی سعیدہ بیگم کی لاڈلی نور جہاں کے جسمانی زخم اگر چہ کچھ حد تک بھر چکے ہیں تاہم اس کی والدہ کے جانے سے انکی روح پر جو زخم لگ چکے ہیں ،وہ ابھی بھی رس رہے ہیں اور رہ رہ کر انہیں اپنی والدہ کی یادیں ستا رہی ہے۔ نور جہاں کیلئے اپنی ماں ہی ساری دنیا تھی اور اس کی زندگی کا بیشتر حصہ بھی اپنی ماں کے ارد گرد ہی گزرا ہے،مگر اچانک جدائی کا کرب دیکر والدہ چلی گئی جس کا غم انہیں اندر ہی اندر ستا رہا ہے۔19ستمبر کو جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں احتجاجی مظاہروںکے دوران ایک اور طالبہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے موت کی آغوش میںسو گئی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ خوشبو ٹیر گیس گولوں کی گونج کی وجہ سے گھبرا کر موت کی شکار بن گئی۔ خوشبو کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ گدا پورہ کے لوگوں نے صبح سے ہی وہیل میں مزاحمتی ریلی میں جانے کا سلسلہ شروع کیا تاہم فورسز نے لوگوں کو راستے میں ہی روکا جس کے ساتھ ہی جھڑپیں شروع ہوئیں۔اہل خانہ کے مطابق دوپہر کو کچھ ڈورو اور چٹ واٹن کی مساجد میں لوڈ اسپیکروں سے اعلان کیا گیا کہ لوگ چاٹ واٹن پرپہنچ جائیںکیونکہ وہیل میں فورسز کی کارروائی میں کافی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خوشبو جان کا بھائی اور والد بھی صبح ہی اس ریلی میں شمولیت کرنے کیلئے نکلے تھے،جس کی وجہ سے اس کو اپنے والد اور بھائی کی سلامتی کے حوالے سے تشویش لاحق ہوئی۔ خوشبو کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ خوشبو جان بھی اپنے والد اور بھائی کی تلاش میں نکل گئی اور وہ جب چاٹ واٹن پہنچنے ہی والی تھی تو وہاں پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے اور ٹیر گیس اور سائونڈ شلوں کی گونج سن کرخوشبو کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ محفوظ مقام کی طرف بھاگنے لگی۔انہوں نے کہا کہ جب وہ دوڑ رہی تھی تو اسی دوران وہ نیچے گر گئی اور اس کے منہ اور ناک سے خون بہنے لگا۔انہوںنے کہا کہ لوگوں نے خوشبو کو پی ایچ سی حرمین پہنچانے کی کوشش کی تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ بیٹھی۔ خوشبو جان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پیشے سے دست کار خوشبو کے والد کیلئے19ستمبر کا دن سیاہ ترین دن تھا جب وقت کے بے رحم ہاتھوں نے اس کو اپنی لاڈلی بیٹی سے دور کیا۔جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد کے چھی علاقے میں30ستمبر کو ایک خاتون مبینہ طور پر اس وقت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے جان بحق ہوئی جب فورسز نے دوران شب مکانوں پر سنگبازی کے بعد مذکورہ خاتون کے گیٹ کو کھٹکھٹایا۔مذکورہ خاتون کے خاوند کا کہنا ہے کہ جب یہ واقعہ رات11بجکر30منٹ پر پیش آیا وہ اس وقت گھر سے باہر تھا جبکہ انکی اہلیہ اور بیٹی کے علاوہ ایک اور شادی شدہ دختر گھر پر ہی موجود تھی،تاہم اس دوران گھر میں کوئی بھی مرد موجود نہیں تھا۔مذکورہ خاتون کی بیٹی کا کہنا تھا ’’شب قریب11بجکر30منٹ پرفورسز نے ہمارے علاقے میں رہائشی مکانوں پر سنگبازی شروع کی جس کی وجہ سے ہماری والدہ دہشت زدہ ہوئی اور کانپنے لگی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس کی ایک دختر عرشی والدہ کے ساتھ کیچن میں گئی اور انہیں پانی پلایا۔عرشی نے کہا’’اسی اثنا میں ہمارے دروازے پر دستک ہوئی اور ممکنہ طور پر یہ پتھرائو کے کھٹکھٹانے کی وجہ سے تھی،جس کے ساتھ ہی ہماری والدہ گر گئی۔عرشی کا کہنا تھا کہ اسی کے ساتھ انہوں نے شور مچانا شروع کیا اور پڑوسی جمع ہوگئے جنہوں نے والدہ کو ڈسڑکٹ اسپتال اننت ناگ پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ ڈاکٹروں نے سارہ کی موت کی وجہ حرکت قلب بندہوناقرار دیا۔سارہ بیگم کی بیٹیاں اپنی والدہ کی موت کا عکس اور واقعہ اب تک نہیں بھولی ہیں اور رہ رہ کر انہیں وہ سیاہ رات یاد آتی ہے جب انکی والدہ نے انکی آنکھوں کے سامنے دم توڑ بیٹھا اور وہ کچھ نہ کرسکی۔سرینگر میں11اگست کو نند ریشی کالونی بمنہ میں جمیلہ خان نامی خاتون بھی اس وقت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے جان بحق ہوئی جب علاقے میں فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے بعد فورسز نے مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی۔جمیلہ کے خاوند نے بتایا کہ اس دوران انکی اہلیہ نے کھڑکی کھولی اور انہوں نے اپنے دروازے کے سامنے فورسز اہلکاروں کو مکانوں پر سنگبازی کرتے ہوئے دیکھا ،جس کی وجہ سے وہ خوف زدہ ہوئی اور انہیں دل کا دورہ پڑگیا۔شمالی ضلع بانڈی پورہ میں23جولائی کو جاریہ ایجی ٹیشن میں ہلاک ہونے والی سب سے عمر رسیدہ خاتون حاجرہ بیگم کو نام بھی جڑ گیا۔اہل خانہ کے مطابق17جولائی کو علاقے میں احتجاج کے دوران فورسز گھروں میں داخل ہوئے جس کے دوران حاجرہ بیگم کا بھی زد وکوب کیا گیا اور ایک ہفتہ تک بستر مرگ پر رہنے کے بعد وہ موت کی آغوش میں چلی گئی ۔بشری حقوق کے عالمی دن پر جان بحق ہوئی ان خواتین کے رشتہ داروں اور اہل خانہ نے بیک زبان یہ سوال کیا ہے کہ آخر کس قصور کی پاداش میں انہیں موت دی گئی۔اس عرصے میں سینکڑون خواتین بھی زخمی ہوئی جن میں انشاء مشتاق کی دنوں آنکھوں پر پیلٹ لگے جبکہ افراء،شب روزہ میر ،شب روزہ،زہرہ ظہور سمیت دیگر کئی لڑکیوں کے چہروں اور آنکھوں پر پیلٹ لگے جبکہ شمیمہ نامی دوشیزہ بستر سے اٹھنے کا نام بھی نہیں لے رہی ہے۔