مدثر علی
کٹھوعہ ضلع کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں ایک دیرینہ عوامی مطالبہ آج بھی گونج رہا ہے — بسوہلی کو ضلع کا درجہ دیا جائے۔ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود، بسوہلی جموں و کشمیر کے سب سے نظر انداز کیے جانے والے تحصیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مطالبہ نہ تو کسی سیاسی مفاد سے جُڑا ہے اور نہ ہی کسی جماعتی وابستگی سے، بلکہ یہ انصاف، ضرورت اور مساوی ترقی کے بنیادی حق پر مبنی ہے۔
ضلع کٹھوعہ، آبادی اور رقبے کے لحاظ سے جموں و کشمیر کے بڑے اضلاع میں سے ایک ضلع ہے، جو تقریباً 2502 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور 2025 میں اس کی متوقع آبادی 7.37 لاکھ کے قریب ہے۔ کٹھوعہ ضلع میں اس وقت 11 تحصیلیں ہیں — جن میں کٹھوعہ، بنی، بسوہلی، بلاور، ہیرا نگر، نگری، مرہین، ڈنگا امب، لوہائی،ملہار، مہان پور اور رامکوٹ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا قدرتی حسن نمایاں ہے بلکہ انتظامی دشواریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اس غیر ہموار جغرافیے کی وجہ سے ضلع ہیڈکوارٹر، یعنی کٹھوعہ ٹاؤن سے بسوہلی، بنی اور لوہائی۔ملہار جیسی تحصیلوں تک رسائی عام لوگوں کے لیے ایک صبر آزما مرحلہ بن گئی ہے۔ ایک معمولی سرکاری کام کے لیے بھی اکثر لوگوں کو دو دن کی چھٹی، مہنگا سفر اور کئی بار دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔
کٹھوعہ ضلع کی انتظامی تقسیم 19ترقیاتی بلاکوں پر مشتمل ہے، جو اس کے وسیع جغرافیائی دائرے اور ثقافتی تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ ان بلاکوں میں بنی، بسوہلی، بگن، کٹھوعہ، بلاور، ہیرا نگر، نگری، برنوٹی، مرہین، ڈنگا امب، ڈوگین، ڈگن، لوہائی۔ملہار، مہان پور، مانڈلی، نگروٹہ گجرو، بھونڈ، دھر مہانپور اور کیریئن کندیال شامل ہیں۔ ہر بلاک اپنی ثقافت، مقامی پہچان اور تزویراتی اہمیت کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔
ان پسماندہ علاقوں میں، بسوہلی نہ صرف نظراندازی بلکہ اپنے شاندار ورثے کی وجہ سے بھی الگ مقام رکھتا ہے۔ کبھی ’’وشواس تھلی‘‘ کے نام سے جاننے والا بسوہلی، دریائے راوی کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور پنجاب و ہماچل پردیش کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے۔ 1635 میں راجہ بھوپت پال نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ بسوہلی اپنے مصوری کے منفرد انداز کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے۔ 2023 میں بسوہلی کی مصوری اور پشمینہ کو جغرافیائی شناخت (GI Tag) دیا گیا، جو اس کی ثقافتی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تاہم اس عظیم ورثے کے باوجود، بسوہلی کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ ہزاروں باصلاحیت طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ یہاں مقامی ادارے موجود نہیں اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ صحت کا شعبہ تو اور بھی تشویشناک حالت میں ہے۔ سب ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں اکثر بنیادی ڈاکٹروں کی کمی ہے، جس کے باعث مریضوں کو کٹھوعہ یا جموں لے جانا پڑتا ہے — اور یہ تاخیر کئی جانیں نگل چکی ہے۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق، آیوشمان بھارت، اجولایوجنا اور پردھان منتری آواس یوجنا جیسے کئی مرکزی منصوبے زمینی سطح تک نہیں پہنچ پاتے، کیونکہ ان کی نگرانی کرنے والے حکام دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ اگر بسوہلی کو ضلع کا درجہ دیا جائے، تو ان اسکیموں کا نفاذ اور نگرانی مقامی سطح پر ممکن ہو جائے گی اور نتائج بھی مؤثر ہوں گے۔بسوہلی کی معیشت اور سیاحت کی صلاحیت کو بھی مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہماچل اور پنجاب کے سنگم پر واقع یہ علاقہ کثیر ریاستی سیاحتی مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ سرتھل وادی، رنجیت ساگر ڈیم، بنی اور پرتھو جیسے سیاحتی مقامات یہاں موجود ہیں، جہاں ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ لیکن خراب سڑکیں، ناکافی مہمان نوازی کے وسائل اور آمد و رفت کی دشواریاں اس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ اگر بسوہلی کو ضلع بنایا جائے، تو یہاں سڑکوں کی بہتری، ماحولیاتی سیاحت، گیسٹ ہاؤسز اور ثقافتی مراکز کے قیام میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، جو معیشت کو زبردست تقویت دے سکتا ہے۔
ضلع کا درجہ ملنے سے مقامی نوجوانوں کو رہنمائی، سیاحت، دستکاری اور زرعی سیاحت جیسے شعبوں میں خود روزگاری کے نئے مواقع میسر آئیں گے۔ بسوہلی کی فن مصوری کو اگر مناسب فروغ اور رسائی دی جائے، تو بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ترقی کا فائدہ براہ راست مقامی معیشت تک پہنچے گا۔
یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بسوہلی ضلع کا درجہ حاصل کرنے کے تمام سرکاری معیارات پر پوری اترتا ہے — جغرافیائی دوری، آبادی اور انتظامی ضروریات۔ مزید برآں بارہا مظاہرے، دھرنے، درخواستیں اور مقامی لوگوں کے مطالبات، نوجوان قائدین، سماجی کارکنوں اور پنچایتوں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ خالص اور غیر سیاسی مطالبہ ابھی تک سنا نہیں گیا۔
افسوس کی بات ہے کہ منتخب نمائندے بھی اس عوامی آواز کو مؤثر انداز میں بلند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جمہوریت میں جب عوام مذہب، پارٹی اور نظریے سے بالاتر ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں، تو حکومت کو ان کی آواز سننی چاہیے۔ بسوہلی میں ضلع ہیڈکوارٹر کا قیام صرف ایک سہولت نہیں بلکہ بااختیاری اور خود کفیل مستقبل کی کنجی ہے۔بسوہلی صرف ایک جگہ نہیں — یہ ایک جیتا جاگتا ورثہ، ایک ثقافتی علامت اور ترقیاتی خطہ ہے۔ اگر بسوہلی کشمیر خطے میں ہوتا، تو شاید اب تک بین الاقوامی سیاحتی نقشے پر نمایاں ہوتا۔ لیکن جموں ڈویژن میں ہونے کی وجہ سے یہ ابھی بھی انتظار میں ہے۔
بسوہلی کے لوگ اب عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر جموں و کشمیر، حکومتِ ہند اور تمام منتخب نمائندوں — بالخصوص مقامی ایم ایل اے اور ایم پی — سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ اس دیرینہ عوامی مطالبے کی حمایت کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی حساب کتاب سے ہٹ کر انصاف، برابری، اور متوازن علاقائی ترقی کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔
یہ مطالبہ نہ کسی انتخابی مہم کا حصہ ہے اور نہ ہی وقتی سیاست کا نتیجہ۔ یہ اُن نسلوں کی صدا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اس سرزمین کے لیے وقف کیں، اُن نوجوانوں کی امید ہے جو تعلیم اور روزگار کے منتظر ہیں اور اُن بچوں کا خواب ہے جن کی اُڑان صرف اس لیے رُک گئی کیونکہ ان کا قصبہ آج تک ضلع نہ بن سکا۔
یہ ایک عوامی تحریک ہے جو ووٹ بینک کے بجائے امید اور تاریخ میں جَڑی ہوئی ہے۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ بسوہلی کی صلاحیت کو پہچانے اور ان کے وقار و ترقی کی پکار کا احترام کرے۔ بسوہلی کو ضلع کا درجہ دینا صرف ایک انتظامی فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ پورے خطے کے لیے ترقی کا نیا باب ثابت ہوگا۔
( مضمون نگار ایک سماجی کارکن ہے جو بنی بسولی سے تعلق رکھتے ہیں)
(رابطہ۔: 8491887287)
ای میل [email protected]