ملک منظور
کچھ دن پہلے کی بات ہے ۔میں شہر کی کنکریٹ زمین ، جھلسانے والی گرمی اور سانسوں کو مدھم کرنے والی آلودگی سے تنگ آکر راحت کی سانس لینے کے لئے نانا نانی کے گاؤں چلا گیا ۔وہاں پاس ہی میں ایک سرسبزجنگل ہے۔ سکون پانے کے لئے میں نے صحت افزا جنگل کی سیر کرنے کا من بنا لیا تو میرے چھوٹے ماموزاد بھائی فاضل نے بھی ساتھ آنے کی ضد کی ۔نانی نے ڈبے میں کھانا اور ایک پانی سے بھری بوتل بیگ میں رکھ دی ۔صبح سویرے ہم نے جنگل کا رخ کیا اور ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد ہم جنگل کے بیچوں بیچ پہنچ گئے ۔میری سانسیں پھولی ہوئیں تھیں اور میں تھکان سے ٹوٹ گیا تھا۔ہم ایک اونچے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے ۔تھوڑی ہی دیر میں میری تھکان دور ہوگئی ۔میں نے بوتل نکال کر پانی پیا اور خدا کا شکر بجا لانے لگا ۔۔۔تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مولا ۔۔۔۔جو تونے ہمارے لئے زندگی بخشنے والے یہ قدرتی وسائل وافر مقدار میں فراہم رکھے ۔۔۔فاضل نے پوچھا ۔۔۔۔بھیا ہم جنگل میں کیوں آئیے ۔۔میں نے بانہیں پھیلا کراونچی آواز میں کہا۔۔ایک بڑا درخت 2 ٹن کے ائیر کنڈیشن کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے حتیٰ کہ ہماری زندگی جنگلات کے دم سے ہے۔
یہ محض جنگل نہیں ہیں ۔۔۔فاضل۔۔۔۔بلکہ ہمارے پھیپھڑے ہیں ۔۔۔۔ان پھیپھڑوں کی بدولت ہمارے بدن صحت مند اور توانا ہیں ۔۔رگوں میں خون اور شریر میں حرارت ہے ۔۔۔۔ یہ جنگل ہوا ،پانی، اور غذا کی وافر مقداری کے باعث ہیں ۔۔۔فاضل ۔۔سچ مانو یہ جنگل ہماری سانسیں ہیں۔۔۔ جب تک قدرت کا یہ تحفہ ہمارے پاس سلامت رہے گا ۔۔۔تب تک ہم بھی زندہ رہیں گے۔
فاضل نے پھر پوچھا ۔۔۔بھیا ۔۔۔کیا صرف جنگل کے درخت ہی اہم ہیں ۔
نہیں فاضل نہیں۔ ہر چھوٹا بڑا درخت اہم ہے۔چاہیے چنار ہویا اخروٹ کا درخت، گلاب کی جھاڈی ہو یا سرسبز گھاس۔
درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ہماری تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
خوبصورت رنگ برنگے پرندے ان ہی جنگلوں میں پرورش پاتے ہیں ۔۔۔. بارشیں ،بھیگا بھیگا ساون ،کالی کالی گھٹائیں، کڑکتے بادل چمکتی بجلیاں ،آسمان پر پھیلی کہکشائیں آنکھوں کو کتنی بھلی لگتی ہیں ۔۔۔واہ ! واہ! میرے مولا۔۔۔یہ سروقامت درخت ہمارے محافظ ہیں۔ ایسا مان لو۔۔۔یہ وہ فرشتے ہیں جو بغیر کسی شکایت کے ہماری سانسوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
۔۔راحت کے چند لمحے گزارنے کے بعد ہم نے آگے جانے کا فیصلہ کیا اور چل پڑے ۔ موسم خوشگوار تھا اور میں مستی میں کوئی گانا گنگنا رہا تھا کہ اچانک تیز ہوا کے جھونکوں سے درخت کی ٹہنیاں ادھر ادھر جھولنے لگیں ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کسی گھس پیٹھیے کو بھگانا چاہتے تھے۔ ہوا کی سرسراہٹ نے ہمیں پریشان کیا اورمیں گھبراکر سوچنے لگا ۔۔۔الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ۔ موسم تو خوشگوار ہے ۔۔۔دھوپ بھی کھلی ہوئی ہے ۔۔۔آسمان پر بادلوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے ۔۔۔پھر یہ سرسراہٹ کیوں ؟
ہم ایک مرتبہ پھر ایک بڑے سے شجر کے نیچے بیٹھ گئے۔۔میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔تبھی میں نے نیچے سے چار آدمیوں کو آتے دیکھا۔ ان کے ہاتھوں میں کلہاڈیاں تھیں۔ میں سمجھ گیا۔یہ تیز رفتار ہوا نہیں بلکہ درختوں کا شور تھا۔ جو ایک دوسرے کو شاید بتا رہے تھے کہ غافل انسان اپنی آنے والی نسلوں کو معدوم کرنے پر بضد ہے ۔۔۔
اسی اثنا میں وہ آدمی میرے پاس پہنچ گئے۔ میں نے انسے کہا ۔۔۔بھائی صاحب ۔۔آپ کہاں جارہے ہو ؟ ۔۔۔تو انہونے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔جنگل کی سیر کرنے۔
میں نے گھبرا کر پوچھا۔۔۔پھر یہ بسولے اور آرے کیوں؟
تو ایک آدمی نےجونک مار کر کہا ۔۔۔جنگل کی حجامتکرنے کے لئے۔۔۔باقی آدمیوں نے قہقہ لگایا اور آگے بڑھ گئے۔
میں شرمندہ ہوکر بیٹھ گیا اور بوتل کا سارا پانی پی ڈالا حالانکہ پیاس نہیں تھی ۔
ڈبے سے سارا کھانا کھایا حالانکہ بھوک نہیں تھی ۔
میں شاید ڈر گیا تھا ،سہمگیا تھا۔
کچھ دیر بعد۔۔ دھڑام ۔۔کی زوردار آواز سارے جنگل میں گونج اٹھی ۔میں سمجھ گیا کہ ان لوگوں نے درختکاٹکر گرا دیا ۔میں نے تھوڑی جسارت سے کام لیاا ور ہمآگے بڑھ گئے ۔
جب ہم قریب پہنچے تو دیکھا ایک لمبا درخت زمین پر گرا پڑا تھا۔ میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے مجھے لگا جیسے کسی نوجوان کی شہ رگ کاٹ دی گئی ہو اور وہ تڑپ رہا ہے۔ میرے بدن میں کپکپی طاری ہو گئی۔ ایک آدمی نے پاس آکر مجھے دھکا دے کر کہا۔ ارے بھائی ۔۔۔کیا سوچ رہے ہو ۔۔۔ہم نے قتل نہیں کیا ۔۔۔جو تمہاری آنکھیں پھٹنے کو آرہی ہیں ۔
میں کہنا چاہتا تھا کہ یہ ایک قتل نہیں ہے بلکہ آنے والی نسلوں کا صفایا ہے لیکن میں کہہ نہیں پایا۔
دوسرے نے کہا ۔۔۔۔شکایت تو نہیں کروگے ؟
کرلو ۔۔۔کوئی بات نہیں ۔پھر کیا ہوگا ۔۔۔؟ اس جنگل کے رکھوالے بھی ہم ہی ہیں ۔
تیسرے آدمی نے کہا ۔۔۔بھائی صاحب ۔۔۔۔سیر کرنے آئے ہو تو سیر کر کے جاؤ، ہمارے معاملے میں دخل نہ ہی دو گے تو اچھا ہے ۔
میں نے بھی فطرت کے تقاضوں سے معدوم ان انسانوں سے دور جانے میں بھلائی سمجھی۔
ابھی ایک ہی قدم آگے بڑھایا تھا کہ میری نظریں ایک بکھرے ہوئے گھونسلے پر پڑی ۔۔۔۔۔۔پاس ہی میں میں نے چھوٹے چھوٹے گوشت کے دو ٹکڑے دیکھے ۔۔۔ان میں جنبش دیکھ کر میں اور پاس گیا اور دیکھا ۔۔۔وہ انڈوں سے نکلے ہوئے چوزے تھے ۔۔۔انکی چونچ کھل کر بند ہو رہی تھی ۔۔۔میں نے بیگ سے بوتل نکالی۔اور چوزوں کو پانی پلانا چاہا ۔لیکن ہم نے سارا پانی ختم کیا تھا ۔
میں نے ڈبے سے چاول کے دانے نکالنے چاہیے ۔۔۔ پر وہ بھی ختم ہوگئے تھے ۔وہ معصوم بچے تڑپ تڑپ کر آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔