سرینگر// بزرگ عالم الدین اور معروف شعیہ رہنماء آغاسید محمد فضل اللہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ آغا سید فضل اللہ عرصہ دراز سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے،اور پیر کو بڈگام میں صبح 11 بجکر 30 منٹ پر اس دنیا سے چل بسے۔مرحوم بلند پایہ عالم آغا سید محمد یوسف المصوی الصفوی کے فرزند تھے،اور قانون ساز کونسل کے ممبر و نیشنل کانفرنس کے لیڈر آغا سید محمدود کے برادر اکبر تھے۔آغا سید فضل اللہ1947میں پیدا ہوئے،جس کے بعد انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی تعلیم حاصل کی۔بعد میں نجف گئے جہاں پر انہوںنے دینی تعلیم حاصل کی۔مرحوم نے زندگی بھر اسلام کے آفاقی پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں اہم رول ادا کیا،جبکہ انجمن شرعی شعیاں( دارالشریعت) کے سربراہ بھی تھے۔ مرحوم ان علمائے دین میں شمار ہوتے تھے،جو مسلمانوں کے اندر تفرقہ مٹانے میں پیش پیش رہتے تھے،جبکہ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔زند گی بھراگر چہ آغا سید فضل اللہ غیر سیاسی رہے،تاہم سیاست پر بھی انکی بھر پور نظر تھی۔ مرحوم کے نزدیکی رشتہ دار آغا سید احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ مرحوم نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا اور قریب400مدرسوں کی ذمہ داری نبھائی۔انہوں نے کہا کہ سال2005میں آغاسید فضل اللہ نے بمنہ میں8کنال پلنتھ رقبہ پر امام باڑہ کی بنیاد ڈالی،جس کے بعد اب تک اس کا70فیصد تعمیری کام مکمل ہوچکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ امام باڑہ بھارت میں سب سے بڑا امام باڈہ ہوگا،جبکہ اس امام باڈہ کی تعمیر کیلئے مقامی طور پر عطیہ جمع کیا گیا۔حکیم یوسف کا کہنا ہے کہ آغاسید فضل اللہ نے ہمیشہ سے ہی سیاست سے اپنا دامن بچایا اور ایک مذہبی شخصیت کے بطور ہی عوام کی خدمت کی۔انہوں نے کہا’’آغا سید فضل اللہ انقلاب ایران اور دو قومی نظریہ کے سخت حامیوں میں شمار ہوتے تھے،جبکہ نظریہ خمینیؒ کے بھی سخت قائل تھے‘‘۔انہوں نے کہا کہ مرحوم ایک صالح،باہنر،شعلہ بیان مقرر تھے،جن کی ساری زندگی علم کی تشنگی بجھانے میں گزر گئی۔بڈگام کی ایک معروف سماجی شخصیت ایڈوکیٹ نیازی نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا آغا سید فضل اللہ موجودہ دور کے بلند پایہ علمائے کرام میں شامل ہوتے تھے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم نے اپنے اصولوں سے کھبی بھی سمجھوتہ نہیں کیا،اور نہ ہی ان سے منحرف ہوئے۔انہوں نے کہاکہ ’’ آغا سید فضل اللہ نے ہوائوں کے رخ دیکھ کر کھبی بھی اپنی سمت نہیں بدلی اور نہ ہی خود کوبہتی دھارا کے حوالے کیا،بلکہ وہ اپنے موقف پر آخری دم تک چٹان کی طرح ڈٹے رہے‘‘۔ ایڈوکیٹ نیازی نے کہا’’ مرحوم آغا سید فضل اللہ فکر خومنائی سے سرشار تھے،اور اسی پر قائم رہیں‘‘۔بڈگام کی ایک بزرگ سماجی شخصیت شیخ غلام حسین کا کہنا ہے کہ مرحوم آغا سید فضل اللہ اپنے والد مرحوم کے نقش تھے۔انہوںنے بتایا کہ مرحوم نے زندگی سادگی سے گزاری اور آغا سید یوسف نے1973میں جو مکان بنایا تھا، اس میں آج بھی رہائش پذیر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس دوران انہوں نے سمبل میں ایک اسکول بھی تعمیر کرایا۔