مفید مشورے
سہیل انجم
آج معمر افراد یعنی سینئر سٹیزنس سے کچھ باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہم بھی سینئر سٹیزن ہیں اور اس کلب میں داخل ہوئے چند سال ہو گئے ہیں۔ حالانکہ کچھ لوگ معمر حضرات کو بزرگ بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہم خود کو اس کٹیگری میں نہیں پاتے۔ کیونکہ شیخ سعدی بہت پہلے فرما گئے ہیں کہ ’بزرگی بہ عقل است نہ بسال‘۔ یعنی بزرگی عقل سے ہوتی ہے نہ کہ عمر سے۔ پورا شعر یوں ہے: تونگری بہ دل است نہ بمال، بزرگی بہ عقل است نہ بسال۔ یعنی مالداری دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں اور بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر سے نہیں۔ میں امیر تیمور لنگ کے مقابلے میں ا س نابینا بڑھیا کو مالدار مانتا ہوں جس نے ایک جملے سے تیمور کو لاجواب کر دیا تھا۔ کسی معاملے میں اس بڑھیا کو تیمور لنگ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے اس سے پوچھا کہ بڑھیا تمہارا کیا نام ہے۔ ا س نے جواب دیا دولت۔ تیمور کو ہنسی آگئی۔ اس نے بڑھیا کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ کیا دولت بھی اندھی ہوتی ہے۔ بڑھیا نے کہا ہاں۔ اگر وہ اندھی نہ ہوتی تو ایک لنگڑے کے پاس کیوں آتی۔ (لہٰذا ہمیں کوئی نہ تو بزرگ سمجھے نہ مالدار۔ ہر کس و ناکس نہ تو بزرگ ہو سکتا ہے اور نہ ہی مالدار)۔ سینئر سٹیزنس کے بہت سے مسائل ہیں۔ جن میں دو مسئلے خاص ہیں۔ ایک بیکاری اور دوسرا بیماری۔ اگر کوئی شخص ملازمت پیشہ ہے اور سبکدوش ہو چکا ہے تو اس کے سامنے بیکاری سینہ تانے کھڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ سبکدوشی کے بعد کسی نہ کسی مصروفیت کا عصا تھام لیتے ہیں تو بیکاری ان کے سامنے جانے کی جرأت بھی نہیں کر پاتی۔ اس لیے ملازمت سے ریٹائر ہو جانے والوں کو نہ تو خود کو بوڑھا سمجھنا چاہیے، نہ تھکا ہوا، نہ بیکار نہ بے مصرف۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک بار کہا تھا ’نہ ٹائرڈ نہ ریٹائرڈ‘۔ اس کے بعد وہ وزیر اعظم بنے تھے۔ یہی جملہ چند روز قبل شرد پوار نے بھی ادا کیا ہے۔ حالانکہ وہ 82 سال کے ہو چکے ہیں اور ان کے بھتیجے نے ان کو بوڑھا ہونے کا طعنہ دیا ہے۔ اس لیے سبکدوش ہو جانے والوں کو خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھنا چاہیے۔ دیگر بہت سے معاملات کی مانند اس معاملے میں بھی انگریز بہت سمجھدار ہوتا ہے۔ وہ عمر کی آخری ساعت تک بھی خواہ وہ سو سال کی عمر کو کیوں نہ پہنچ جائے، خود کو جوان تصور کرتا ہے۔ خیالات انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔ اگر آپ کے خیالات مثبت ہیں تو آپ کی صحت پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور اگر منفی ہیں تو آپ جسمانی طور پر بھی بیمار رہیں گے اور ذہنی طور پر بھی۔
جہاں تک صحت کا معاملہ ہے تو اس کے کئی پہلو ہیں۔ لیکن اگر معمر حضرات اپنی زندگی میں اعتدال کو اپناتے ہیں تو ان کے سامنے صحت کے مسائل بے اعتدالوں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ عام طور پر ساٹھ سال کے بعد بلکہ پچاس سال کے بعد ہی انسان کو اپنے معمولات میں جن میں خورد و نوش کا معاملہ بھی شامل ہے، تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں سینئر سٹیزنس کے ایک واٹس ایپ گروپ پر بہت اچھی معلومات حاصل ہوئیں۔ اچھی معلومات کو دوسروں تک پہنچانا بھی اچھا کام ہے۔ لہٰذا یہ معلومات میں قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ معمر اور غیر معمر دونوں کٹیگری کے لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آگرہ میں ایک ڈاکٹر ہیں جن کا نام ہے نریش ملہوترہ۔ انھوں نے اپنی ایک ویڈیو میں سینئر سٹیزنس کو صحت مند رہنے کے لیے دس مشورے دیے ہیں۔ ان مشوروں تک پہنچنے سے قبل یہ اطلاع بھی قابل غور ہے جو صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او نے دی ہے۔ اس کے مطابق سو میں سے صرف گیارہ افراد ایسے ہیں جو ساٹھ سال کی عمر کو پار کر پاتے ہیں اور سات افراد ایسے ہیں جو ستر سال کی عمر کو پار کر پاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ ساٹھ سال سے اوپر ہیں تو خود کو خوش قسمت سمجھئے۔ ا س کائنات کی سب سے بڑی اور خوبصورت نعمت زندگی ہے۔ اس کی قدر کیجیے۔ ڈاکٹر نریش کا سینئر سٹیزنس کو مشورہ ہے کہ آپ پانی خوب پیجئے پیاس لگے یا نہ لگے۔ اس کا انتظار مت کیجئے کہ پیاس لگے گی تب پئیں گے۔ اپنے جسم کو جتنا ہو سکے متحرک رکھیے۔ یعنی لیٹ کر شب و روز گزارنے کے بجائے کام کیجیے۔ کام نہیں ہے تو چلیے، تیرئیے، کھیلئے۔ کھانا کم کھائیے۔ صرف اتنا کھائیے جتنا جینے کے لیے ضروری ہو۔ (ہمارے بزرگ بہت پہلے کم خوردن، کم گفتن، کم خفتن کا مشورہ دے چکے ہیں)۔ جو بھی کھائیں وہ صحت بخش ہو۔ ہر چہ آید در گھسیٹم والا معاملہ نہیں چلے گا۔ چینی بالکل چھوڑ دیں۔ دو ہفتے چینی چھوڑنے کا اثر آپ کے چہرے پر نظر آئے گا۔ گوشت میں چکن کھا سکتے ہیں۔ مچھلی زیادہ کھائیں۔ پروٹین والی سبزیوں کو اپنی خوراک بنائیں۔ گاڑی کا استعمال کم سے کم کریں۔ پیدل زیادہ چلیں۔ اگر آپ کسی کثیر منزلہ عمارت میں رہتے یا کام کرتے ہیں تو لفٹ کے بجائے ٹانگوں کو زحمت دیں۔ اگر سواری کرنی ہی ہے تو سائیکل کی کریں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر اسکیلیٹر کے بجائے سیڑھیاں استعمال کریں۔ غصہ کرنے سے بچیں۔ غصے پر کنٹرول کریں۔ کم بولیں اور بولنے سے پہلے سوچیں۔ یاد رکھیں کہ زبان دماغ سے تیز چلتی ہے اس کو قابو میں رکھیں۔ دولت کا لالچ چھوڑ دیں۔ کمانے کی ہوس کو بالائے طاق رکھ دیں۔ اگر آپ کے پاس دولت کی کمی ہے تو احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں بلکہ خود کو مطمئن رکھیں۔ غرور اور انا کو تج دیں۔ نرم گفتاری، خوش مزاجی اور خندہ پیشانی کو اپنی عادت بنا لیں۔ چھوٹوں سے پیار کریں۔ بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ ان کی عزت کریں۔ آپ کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ انھوں نے ایک اور مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ کے بال سفید ہو گئے ہیں تو پریشان نہ ہوں۔ ان کو ڈائی کرکے خود کو جوان دکھانے کی کوشش کے بجائے خود کو ان بالوں کے ساتھ ایڈجسٹ کریں۔ بعض لوگوں کے بال انتہائی کم عمری میں بھی سفید ہو جاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سینئر سٹیزنس کلب کے ارکان ان مشوروں پر عمل کریں تو صحت کے بہت سے مسائل سے نجات پا سکتے ہیں۔ معمر افراد کو بلکہ بہت سے لوگوں کو پچاس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے گھٹنا پریشان کرنے لگتا ہے۔ آپریشن کروا کر ان کو بدلوانے کی نوبت آجاتی ہے۔ مختار مسعود نے اپنی کتاب ’حرف شوق‘ میں لکھا ہے کہ انھوں نے نیویارک سے طب و صحت سے متعلق ایک کتاب خریدی۔ اس میں لکھا ہے کہ انسان کے جسم میں 187 جوڑ ہیں۔ گھٹنے کے جوڑ کو عمر بھر جتنا بوجھ اٹھانا پڑتا اور کام کرنا پڑتا ہے اتنی مشقت کسی اور جوڑ کی قسمت میں نہیں لکھی ہے۔ ا س جوڑ کے بنانے میں قدرت سے ذرا سی چوک ہو گئی اور یہ اتنا مضبوط نہ بن سکا جتنا اس کو ہونا چاہیے۔ صرف امریکہ میں تقریباً پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں جو گھٹنے کے درد میں مبتلا ہیں۔ اگر علم کی دولت سے مالامال ملک کا یہ حال ہے تو ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں اس کی تباہ کاری کا کیا عالم ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں گھبرا کر دوسری کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ ڈھائی سو سال قبل مسیح وفات پانے والے یونا نی شاعر تھیوک رے ٹس کے اس قول پر نظر ٹھہر گئی کہ ’ہر شخص کا فرض ہے کہ جب تک اس کے گھٹنوں کا پھرتیلاپن سلامت ہے وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر دکھائے‘۔ انھوں نے تفریح طبع کے لیے ایک دلچسپ بات بھی لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نیویارک سے ڈاکٹر فصیح احمد نے لکھا کہ بیگم کے گھٹنے بدلوانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے عیادت اور ہمدردی کی آڑمیں مشورت اور شرارت سے کام لینا چاہا۔ میں نے ان کو لکھا کہ پاکستان اور امریکہ کی قیمتوں کا فرق آپ کے خط سے واضح ہے۔ یہاں ایک گھٹنا بدلنے کا معاوضہ ایک لاکھ روپے ہے۔ آپ نے دو کی قیمت پینتالیس ہزار ڈالر یعنی اکتیس لاکھ روپے لکھی ہے۔ اتنی رقم میں تو آپ کوہ قاف سے کئی صحت مند کنیزیں خرید سکتے ہیں۔ سنا ہے خط پڑھنے کے بعد ان کی بیگم کے گھٹنوں کا درد یکایک دور ہو گیا۔ اس طریقۂ علاج کو علاج بالخوف کہتے ہیں‘۔
[email protected]