ہلال بخاری
ایک انسان کی اصل طاقت اسکے دل کے جذبے سے عیاں ہوتی ہے اسکی دولت کی وسعت سے نہیں اور اسکی دانائی کا اصل راز اس کی عمر سے نہیں بلکہ دانائی سے ہوتا ہے۔
ہر کوئی دولت مند دانا نہیں ہوتا اور دانائی کو ہم مال سے خرید نہیں سکتے ۔ہماری قوم کا اصل معیار محض اس کی مادی ترقی سے اعلیٰ نہیں بن سکتا اور کسی کی دولت اس بات کی گواہ نہیں کہ وہ ہر معاملے میں ہماری رہبری کرسکتا ہے۔ہاں!عمر بڑھنے کے ساتھ بوڑھا ہونا فطری عمل ہے لیکن بزرگ ہونا اختیاری ہے۔ کسی سماج یا قوم کی یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اسکے عمر رسیدہ لوگ دانا اور بیناہوتے ہیں۔ عمر رسیدہ اشخاس قوم کے معمار ہوتے ہیں،جو نوجوانوں کی رہنمائی کرکے انکو محنت و مشقت کے وصف سے آشنا کرتے ہیں۔ جس قوم کے بزرگ نوجوان نسل کو ایمانداری اور حق پرستی کا درس دیتے ہیں، اس قوم کا مستقبل تابناک ہوتا ہے۔ایک اعلیٰ قوم کی نشانی ہے کہ اس قوم کے بزرگ اپنی نوجوان نسل کو اعلیٰ اقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ جبکہ پست قوموں کے بزرگ اپنے نوجوانوں کو بے کار کے قصے کہانیاں اور بے حیائی کے طورطریقے سجھاتے رہتے ہیں۔
بزرگی کی بہترین مثال یہ ہے کہ اس فردنے اپنی زندگی ایمانداری وحق پرستی کے تحت محنت و مشقت میں گزاری ہو اور یہی درس اپنی نوجوان نسل کو دیتا رہتا ہو۔ ایسےبزرگ ہرگز بزرگ نہیں کہلاتےجو دوسروں کو کام چوری ،بد دیانتی اور بے ایمانی کے گُر سکھاتے رہیں۔ بزرگوں کی نیک باتوں یا نیک کردار سے نوجوان نسل متاثر ہویا نہ ہو،تاہم وہ انہیں غلط راہوں سے بچنے کی نصیحت تودیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اپنے کھیت کھلیانوں میں پسینہ بہانے والا فرد دانائی کی جوباتیں کرتا ہے۔ وہ بذات ِخودمحنت و مشقت اور حق پرستی کی اہمیت اور افادیت سےواقف ہونےکی ایک زندہ مثال ہوتا ہے۔ایسےاشخاص کی مشفقانہ باتیں دوسروںکا حوصلہ بڑھاتی ہےاوران کا یہ عمل کار آمد بھی ثابت ہوتا ہے۔دانا بننے کے لئے اسکول جانا ضروری نہیں مگر اپنے دل اور دماغ کو بروقت بروئےکار لانا لازمی ہے۔ جن لوگوں نے دل و دماغ کا صحیح استعمال کرنا سیکھا، وہی قوم کی بنیاد مضبوط کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
ایک بزرگ کا اصل سرمایہ اس کی گہری سوچ و فکر اور وسیع نظر ہوتی ہے۔جس کے باوصف وہ اپنے قوم کی بہترین خدمت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے جب ہم اپنی قوم پر نظر ڈالتے ہیںیہی دکھائی دیتا ہےکہ ہمارے زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ زندگی کی اصلی تعلیمات سے نا آشنا ہیں۔بس حیوانوں کی طرح کھانا، پینا اور سوجانا ہی اُن کی زندگی کا مقصد رہ گیا ہے۔ البتہ جو لوگ بزرگ اور دانا ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انسانی زندگی کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔ ان بزرگوں کی زندگی کے کارناموں سے ہمیںیہی درس ملتا ہے کہ انسان ایک حیوانی وجود سے بالاتر ہے اور اپنی عظمت کا ثبوت دینے کے لئے اسے بڑے کام کرنے پڑتے ہیںاور مختلف کارنامے انجام دینے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی صحبت میں نوجوان نسل عزم و حوصلہ پاتی ہےاور روحانی توانائی بھی حاصل کرتی ہے۔ افسوس ! ہمارے معاشرے میںایسے لوگوں کی کافی کمی ہے۔جو عمر رسیدہ لوگ ہیں، اُن میں سے اکثر ہمیں مادی ترقی اور دولت بنانے کے فنون و گُر سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ کہاں ہیں ایسے بزرگ جو ہمیں سکھاتے کہ دل کو زندہ بنانے اور دماغ کو روشن رکھنے کے طریقے کیا ہیں ؟ ایسے بزرگ دانائوں کی تعداد معاشرے میں کم ہے، جو نوجوان نسل کو دانائی کے اسرار و رموز سے آشنا کراتے، حق اور سچ سے واقف کراتے اور آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ دلاتے۔ بزرگ قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اور بزرگی رحمت۔بشرطیکہ بزرگ اعلیٰ خیالات اور روحانی کمالات سے واقف ہوں۔
[email protected]