چند روز قبل یہاں بزرگوں کی اپنی نوعیت کی ایک منفرد تقریب منعقد ہوئی۔تقریب میں سماجی اصلاحات کے لئے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیر کے عمر رسیدہ بزرگ ــ’’ سفید بال۔ سفید داڑھی‘‘ کے حوالے سے بات کی گئی ۔ سماج میں پھیلی انارکی، بدعات اور مسٔلہ کشمیر کے سے جڑے امورات کو مدلل طورزیر بحث لایا گیا۔شمالی کشمیر کے ٹنگمرگ میں منعقدہ اس تاریخی کانفرنس میں کشمیر کے اطراف و اکناف سے آئے ہوئے سول سوسائٹی ممبران نے یہاں اس بات کا اعادہ کیا کہ سماج میں بڑھتی بے چینی کا بروقت ازالہ نہ کیا گیا تو یہ ایک بہت بڑا مسٔلہ بن کر ہم سب کے لئے زندگیاں اجیرن بنانے کاباعث بن جائے گا۔ کانفرنس کا اہتمام جموں و کشمیر پینشنرس ایسو سی ایشن و سینئیر سٹیزنز سول سوسائٹی نے کیا تھا۔ کانفرنس میں سبکدوش شدہ ملازمین کے مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ مقررین نے حکومتی اداروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا کہ ان کے بقول حکومت پینشنروں اور سینئیر شہریوں کا حق ادا کرنے میں لیت و لعل کرتی چلی آئی ہے۔ ایسو سی ایشن نے جہاں سبکدوش شدہ ملازمین کے مسائل کو زیر بحث لایا ،وہیں اس بات کا عہد بھی کر لیا گیا کہ ممبران سماج سدھار کے لئے کمر بستہ ہوجائیں گے۔مقررین نے کہا کہ کشمیر دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایک بیٹا باپ کو علحیدہ نہیں کرسکتا ،تو اولڈ ایج ہوم میں رکھنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔کانفرنس میں جو اہم شخصیات تھیں ان میں معروف سابقہ ٹریڈ یونین لیڈر و پینشنرس ویلفئیرس ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر سمپت پرکاش،نثار احمد، طالب حسین، حاجی محمد صدیق،پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار، محمدانور راتھر، جی اے راتھر، عبدلرشیدشہباز، محمد مقبول بخاری، غلام محمد ماگرے، غلام محمد وانی شامل تھے۔
اپنی تقریر میں معروف ٹریڈ یونین لیڈر سمپت پرکاش نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں ایک مہم شروع کرنے والے ہیں جس کانام انہوں نے’’سفید بال، سفید داڑھی‘‘ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس مہم کے تحت وہ ایک تحریک چلائیں گے جس کے ذریعے اس بات پر زور دیا جائے گا کہ کشمیر کا مسلٔہ فریقین پر امن طور پر حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ بھی طاقتیں ہیں اور چین، پاکستان اور ہندوستان بھی مگر ایسا کیوں ہے کہ ایشیا ایٹمی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ کشمیر مسلٔہ ہے جس کا کسی مزید تاخیر کے بغیر حل ہونا اب ناگزیر ہو چکاہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے ظلم و ستم اور غلامی کے بہت ادوار دیکھے ہیں۔ کبھی مغلوں کا، کبھی سکھوں، کبھی ڈوگروں کا اور اب 1947سے ہندوستان کی غلامی کا ۔ انہوں نے کہا کشمیر ایک خود مختار سلطنت رہی ہے اور اس کی خود مختاری کی بحالی کے بغیر ایشیاء میںامن وا مان کے خواب کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’ سفید بال، سفید داڑھی‘‘ تحریک کا آغاز ٹنگمرگ سے اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ اسی علاقے سے 1947 ء میں اس وقت امن اور بھائی چارے کا چراغ روشن کیا گیا تھا، جب جموں میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔ ٹنگمرگ کے دھوبی ون گاؤں میں مسلمانوں نے پنڈتوں کو اپنے گھروں میں بسا کر، انہیں مسلم لباس پہنا کر اور مسلم ناموں سے پکار کر ان کا بھرپورتحفظ کیا جو بعد میں ایک ٹرینڈ کے طور پر پورے کشمیر میں اختیار کی گئی اور کشمیر میں حالات کی خرابی کے باوجود خون کا ایک قطرہ بھی کسی پنڈت کا نہیں گرا۔ فاضل مقرر نے کہا کہ حال میں میں کچھ پنڈتوں نے سپریم کورٹ میں پنڈتوں کا قتل کیسز ازسر نو کھولنے کے لئے لیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے یکسر مسترد کردیا ہے اور ان سے سوال پوچھا ہے کہ آخر ان کوکیا ضرورت پڑی امن آشتی اور بھائی چارہ بگاڑنے کی اور یہ کہ27 ؍برس تک وہ کہاں تھے؟الغرض بزرگوں کی اس کانفرنس میں اس بات کاعہد کرلیا گیا کہ اگر بزرگ حضرات سماجی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی مسائل سے لاتعلق رہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں گے تو پر نوجوانوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ اس بات کا عزم وارادہ باندھا گیا کہ جہاں بزرگوں پر مشتمل سول سوسائٹی اپنے مطالبات اور مراعات کے لئے بر سر جدوجہد ہے ،وہیں سماجی خوشحالی اور مسلٔہ کشمیر کے پر امن حل کے لئے بزرگ لوگ اپنا مقام اور اثر و رسوخ استعمال کریں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو نسل در نسل یہ پریشانیاں اب وراثت میں نہ لینی پڑیں۔کانفرنس میں نظامت کے فرائض عبدلستار ڈار نے بطریق احسن انجام دے دئے۔