بلال فرقانی
سرینگر// آج بزرگوں کا عالمی دن ہے۔ جو ہر سال یکم اکتوبر کو بزرگوں کی شراکت کو عزت دینے، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی شمولیت جیسےمسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور معاشرے میں ان کے اٹوٹ کردار کو تسلیم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ 1990 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ قائم کیا گیا، اس دن کا مقصد بوڑھے لوگوں کی حکمت اور تجربہ کو تسلیم کرنا ہے جو ان کی فلاح و بہبود کو فروغ دیکر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ فعال رہیں۔جموں و کشمیر میں بزرگ شہریوں کی حالت زار اور نگہداشت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ معاشرتی تبدیلیوں اور مشترکہ خاندانی ڈھانچے کے ٹوٹنے کے باعث کئی بزرگ تنہائی اور بعض اوقات بدسلوکی کے شکار ہیں۔2021 میںجموں کشمیر میں بزرگوں(60برس سے زائد عمر) کی کل آبادی کا9.4فیصد تھا جو قریب13لاکھ ہے جبکہ 2011میں اس کا اندازہ9.3لاکھ اور2031تک یہ تعداد17لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالروں نیلوفر حبیب، عبدالطیف ملک، شہناز حبیب اور حمیرہ حبیب کی تحقیق کے مطابق، 22 فیصد بزرگوں کو بدسلوکی یا غیر مہمان نوازی کی شکایت رہتی ہیں۔جبکہ 56 فیصد نے کہا کہ رشتہ دار دوستانہ سلوک نہیں کرتے۔ صرف 21 فیصد بزرگوں نے بتایا کہ ان کے بچے انہیں عزت اور مالی یا جذباتی مدد فراہم کرتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کئی بزرگ دامادوں اور بیٹوں کی لاپروائی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اپنی روزمرہ سرگرمیوں اور پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہ کر سکون حاصل کرتے ہیں۔معاشی مسائل بھی بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، کیونکہ 36 فیصد بزرگ مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور محدود آمدنی کی وجہ سے وہ جوان نسل پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ 24 فیصد بزرگوں کو جوڑوں یا گھٹنوں کے درد، 21 فیصد ہائی بلڈ پریشر، 20 فیصد ذیابیطس، 12 فیصد نظر کی کمی، اور 9 فیصد دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ، 23 فیصد بزرگ تنہائی کی شکایت کرتے ہیں، خاص طور پر جب شریک حیات کا انتقال ہو چکا ہو۔ 32 فیصد بزرگوں نے کہا کہ بچوں یا پوتے پوتیوں کے ساتھ نسلوں کے اختلافات ان کی زندگی پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔تعلیم کے حوالے سے بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ 29 فیصد بزرگ ناخواندہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ جدید سہولیات اور خدمات تک رسائی حاصل نہیں کررہے ہیں۔حالیہ برسوں میں حکومت کی نگرانی اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے کشمیر میں قریب ایک درجن نگہداشت گھروں ( اولڈ ایج ہوم)کا قیام عمل میں آیا ہے، جو اس وقت تقریباً 50 بزرگوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ان گھروں میں رہائش پذیر افراد کو بنیادی سہولیات، طبی نگہداشت فراہم کیا جاتاہے، خاص طور پر ان بزرگوں کے لیے جنہیں خاندان یا قریبی رشتہ داروں کی حمایت حاصل نہیں۔ایک ایسا واقعہ محمد شعبان ڈار (نام تبدیل) کا ہے، جو بڈگام کے ایلڈر ہوم میں منتقل ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے لیے جگہ تلاش کرنا بھی ایک چیلنج تھا، کیونکہ ان کا کوئی خاندانی قبرستان دستیاب نہیں تھا۔ اسی طرح، عبدالحمید (نام تبدیل)، ایک ایسے ہوم میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے بیٹوں کی بدسلوکی کے باعث محفوظ ماحول میں رہ سکیں۔ غلام حسن پرے نے بتایا کہ ہوم میں رہائش کے بعد انہیں آزادی اور سکون محسوس ہوا، لیکن ماضی کی یادیں اب بھی ستاتی ہیں۔ ایک نگہداشت گھر میں سپرنٹنڈنٹ طارق احمد نے کہا کہ ’’آج کل فرد پرستی میں اضافہ ہوا ہے اور خاندان کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے کی روایت کمزور ہو رہی ہے، جہاں بزرگ افراد کو عزت اور اہمیت دی جاتی تھی۔‘‘ڈاکٹر فرح قیوم، اسسٹنٹ پروفیسر سوشیالوجی، کشمیر یونیورسٹی، کے مطابق،’’مشترکہ خاندانی ڈھانچے کے ٹوٹنے سے بزرگ شہری نگہداشت اور بدسلوکی کے مسائل کے لیے زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ کشمیر میں ابھی تک ایسے ادارتی نظام موجود نہیں جو ان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرے، اور اسی میں نگہداشت ہومز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘