’’ یہ محبت کا جنون ہے فرہاد ۔۔۔ میری محبت کا جنون ۔ ایسی محبت تمہیں کسی اور سے کہاں ملے گی۔۔۔ کون ہے جو اس طرح سے تیرا راستہ روکے ۔۔۔ تیر ا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سر راہ اتنا کچھ سوچے کہ بات سوچ کی انتہاتک جا پہنچے۔۔۔ اور وہ کچھ کرگزرے کہ سوچ بھی محوِ سوچ ہوکر سوچتی رہ جائے۔ ‘‘
’’ ایسی محبت ہمارے یہاں نہیں پنپ سکتی شیریں۔۔۔ ایسے جنون کی سزا بہت بھیانک ہے یہاں ۔‘‘
یہ دل دہلادینے والی آدھی چیخ تھی ۔ پھر موت کی سی خاموشی چھا گئی ۔ شاید عورت کا منہ سختی کے ساتھ بند کردیا گیا تھا اور باقی آدھی چیخ اس کے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی تھی۔ شیریں سوچ کی وادی سے ہڑ بڑا کر باہر نکلی ۔ اس نے آہستہ سے کھڑکی کے پٹ پر دبائو ڈالا ۔ چھوٹی سی جھری بنا کر باہر دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ چار آدمی کسی کی لاش اٹھائے اسیری کے آنگن میں پہنچ چکے تھے۔اسیری جابر کی مضبوط بانہوں میں تڑپ رہی تھی ۔ جابر کا ہاتھ اسیری کا منہ سختی سے بند کئے ہوئے تھااور زبان سے اسیری کو خاموش رہنے کی تنبیہ بھی کررہا تھا۔ ان کاچھوٹا بیٹاامن جو ابھی صرف تیرہ سال کا تھا ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے باپ کی بانہوں میںتڑپ رہی تھی ۔ جھول رہی تھی۔
اس اداس بستی میں برسوں سے چلی آرہی سوگوار ہوا کی ہلکی جنبش سے لاش کے چہرے پر پڑاکپڑا پھڑپھڑایا تو شیریں نے لاش پہچان لی۔ یہ فرہاد تھا۔ جابر اور اسیری کا جوان اور خوبرو بیٹا جو کسی دشمن کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ فرہاد جس کو ابھی مرنا نہیںچاہئے تھا۔ ۔۔ شیریں دہاڑیں مار مار کر رونا چاہتی تھی ۔اسے فرہاد بہت اچھا لگتا تھا۔ اسے دیکھ دیکھ کرہی شیریںکے دل نے دھڑکنا سیکھ لیا تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ کبھی شام کے ملگجے میں موقع ملے تو فرہادکے گھنگریالے بال پیچھے سے کھینچے اوروہ پیچھے مڑ کراسے جی بھر کردیکھ لے۔۔۔ شیریں کے ابھرتے خدوخال چھو لے ۔ ۔۔ اس کی آنکھوں کے مدوجزر میں ڈوب جائے ۔۔۔ اگر موقع مل جائے تو اس کے سرخ سرخ ہونٹوں کو ایک بار چکھ کر دیکھے ۔۔۔ اور موقع مل جائے تو اس کا بازو کھینچ کر رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے۔۔۔ وہ فرہاد سے پیار کا ایک بھرپور لمس چاہتی تھی ۔۔۔ مست مدہوش کردینے والا ایک لمحہ ۔۔۔ ایک لمحہ جو ایک صدی پر بھاری لگے ۔۔۔
پھر چاہے اگلی صبح کچھ بھی ہوجائے۔۔۔ بستی کے رواج کے مطابق گردن تک زمیں میں دھنسا دی جائے ۔۔۔ یا پتھروں سے اس کا سر پھوڑا جائے۔۔۔۔
شیریں کا باپ آزار بھی جابر کے آنگن میں پہنچ چکا تھا اور اب آہستہ آہستہ پورا گائوں آنگن میں جمع ہورہا تھا۔ سبھی کے چہروں پر سکون تھا۔ کوئی چہرہ اداس نہ تھا۔ چیخنے چلانے والی اسیری دم گھٹنے سے کب کی بے ہوش ہوچکی تھی اور محلے کی عورتیں اسے اٹھا کر گھر کے اندر لے گئیں تھیں۔ کہیں سے بھی بین کرنے یا رونے کی آواز نہیں آرہی تھی۔یہاں کسی بچے، جوان یا بوڑھے کی موت ہوئے تو کوئی سوگ نہیں مناتا۔ موت ان کے لئے کوئی بڑا سانحہ نہیں تھا۔ یہ تو ان کی روز مرہ کی زندگی تھی۔ لڑائی ہوئی کسی کو ماردیا یاان کاکوئی مارا گیا۔ آخری رسوم ہوئیں تو بات ختم۔ کوئی واویلا نہیں، کوئی ماتم نہیں۔یہاں عورتوں کے رونے دھونے پربھی قدغن لگی تھی۔
فرہاد کی لاش بھی خاموشی کے ساتھ زمین پر پڑی رہی۔ بس مردوں کےباتیں کرنے سے ماحول میںکشیدگی پھیل رہی تھی۔ فرہاد کی موت پر سارا گائوں امڈ آیاتھا ۔بچے جوان بوڑھے سب کے ہاتھوں میں رنگ برنگے جھنڈے تھے۔ سارا آنگن ان رنگ برنگے جھنڈوں سے رنگین لگ رہا تھا۔ وہ جھنڈے لہراتے لہراتے اور نعروں کی گونج میں فرہاد کی لاش کولے کر ایک طرف چلے گئے۔ جب بھی کوئی مارا جاتا تھا یہ لوگ ہاتھوں میں رنگ برنگے جھنڈے لے کر نعرے لگاتے لگاتے اس کا جلوس نکالتے تھے۔ ۔۔ لوگ فرہاد کی لاش لے کرجارہے تھے تو جابر نے گھر کی طرف دیکھا ۔ اس کے ہونٹ نفرت سے سکڑ گئے ۔ اس کا اپنا چھوٹا بیٹا امن گھر کی ایک ٹوٹی دیوار کے ساتھ خوف زدہ کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی رنگین جھنڈا بھی نہیں تھا۔ ایک بار امن کے ہاتھ میں سفید جھنڈا دیکھ کرجابر نے اس کا ہاتھ توڑ دیا تھا جو سال بھر کے بعد ٹھیک تو ہوا پر کمزور رہا۔ تب سے امن ہر کام اپنے بائیں ہاتھ سے ہی کررہا تھا۔ امن سہما سہما نعرے لگارہے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب سارے لوگ چلے گئے تو گائوں میں مرد نام کا بس ایک امن کھڑا تھا۔۔۔ شیریں گھر سے باہر آئی اور تیر کی طرح فرہادکے گھر میں گھس گئی۔ جہاں عورتوں کی بھاری بھیڑ جمع تھی۔ سب کے چہرے اداس تھے۔ ہر ایک کی آنکھوں سے ساون برسنے کو تیار تھا۔ پر کس کی مجال جو دھاڑیں مار کر رولے۔ اسیری ابھی بھی بے ہوش پڑی تھی۔ اور عورتیں حسرت سے اسے دیکھتی جارہی تھیں۔
کچھ مٹھی بھر لوگ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو بانٹے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہارہے تھے۔۔۔ قوموں کو الگ کرنے کے منتر پھونکے جارہے تھے۔۔۔ اپنے اپنے مذاہب کو بچانے کے فرائض کی پٹی پڑھائی جارہی تھی۔۔۔ جان دینے اور جان لینے میں کتنے پُنہِ ہیں ، ثواب ہیں ۔ وہ سمجھایا جارہا تھا۔۔۔
جابر ، آزار اور ان کے جیسے کئی لالچی لوگ بڑی آسانی سے ان کے دام میں آچکے تھے ۔ اب یہ بھی اپنے خوبصورت علاقوں میں نفرت کے نام پر موت بانٹ رہے تھے۔ ابھی ان کی سوچ پلی بڑی ہی تھی کہ پیسے کے ساتھ ساتھ ہتھیاربھی یہاں پہنچ گئے۔ بستی اتنی بڑی نہیں تھی جتنا ان کے مرنے مارنے کا سا زو سامان آپہنچاتھا۔ جس نے کندھے پر بندوق اٹھائی اسے اپنا کاندھاسب سے زیادہ مضبوط لگا۔ جس نے پیٹھ پر گولیوں کی بلٹ باندھی اسے اپنا سینہ اور چوڑا ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔سب خود کو طاقت ور اور دوسروں کو کمزور جاننے لگے ۔ کل تک جن لوگوں کے دل بجلی کڑکنے سے دہل جاتے تھے۔ وہ آج بم دھماکوں سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔کل جنہیں کتے کی زخمی ٹانگ سے رستا خون دیکھ کر غش آجاتاتھا۔آج وہ خون میں لت پت بیٹوں کی لاشیں اٹھانے سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔ لگتا تھا سب لوگوں کا کسی بڑے اسپتال میں آپریشن ہوا ہے۔ ان کے سینوں سے دل نکال دیئے گئے ہوں اور وہاں دل کے بدلے پتھر رکھ دیئے گئے ہوں۔ جبھی تو انہیں مائوں کے ہونٹوں پر تڑپتی آہ وزاری اور آنکھوں میں تیرتے آنسوں کے سمندر دکھائی نہیں دیتے تھے ان کے دل نہیں پسیجتے تھے۔ اب برسوں سے یہ اپنے ہاتھوں سے اپنوں کی لاشیں اٹھارہے تھے۔انہیں دفناکر آنے کے بعدپھر سے اپنے ہنگاموں میں گم ہوجاتے تھے۔
آج پھر کئی دنوں سے لڑائی جاری تھی۔ بستی پر بم اتنی شدت سے گرائے جارتھے کہ لوگوں کو لاشیں اٹھانے کی بھی مہلت نہیں مل رہی تھی۔ اور لاشوں کی تعداد تھی جو بڑھتی ہی جارہی تھی۔ تین دن سے لگاتار لڑائی جاری تھی۔ یہاں سے بھی دشمن کی بستیوں پر بم برسائے جارہے تھے اور سامنے والوں کو بندوقوں سے بھون دیا جارہا تھا۔ بستی کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ لڑائی ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ اب ڈر تھا کہ لاشوں سے تعفن اٹھے گا تو بستی میں رکنا محال ہوجائے گا۔ لیکن بستی چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ بستی کے ارد گرد جو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور ان میں جو قدرتی اور مصنوعی غار بنے تھے ، لوگ ان میں دبکے بیٹھے تھے۔ کئی غار تباہ بھی ہوچکے تھے اور ملبے کے ڈھیروں تلے پتا نہیں کتنے لوگ دب چکے تھے۔ ان میں مرے کتنے اور ز خمی کتنے تھے کوئی بتا نہیں سکتاتھا۔ اوپر سے لگاتار بم گرائے جارہے تھے۔ اب کوئی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں تھا کہ کل صبح یہاں کوئی زندہ بھی ہو گا۔
ابھی شام نے اپنا سرمئی آنچل نہیں بچھایا تھا کہ اچانک گولی باری رک گئی۔ شام کا ملگجا اندھیرا پھیلنے لگا تو اب بھی فضا خاموش تھی۔ اچانک کہیں سے پرندوں کی آوازیں آنے لگی۔ شاید آسمان سے پرندوں کا کوئی جھنڈ جارہا تھا۔ پرندوں کا یہ شور کئی دنوں کے بعد سنا ئی دیا تھا اورسب لوگوں کو بھلا لگ رہا تھا ۔ رات نے بستی کے اوپر اپنی کالی چادرتان دی لیکن فضا اب بھی خاموش تھی۔ اچانک کہیں سے خاموشی کا سینہ چیرتے ہوئے اسیری کی آواز آ ٓئی جو اپنے بیٹے امن کو پکار رہی تھی۔پھرکہیں سے شیریں بھی نکل آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی عورتیں ، مرداور بچے ڈرتے ڈرتے غاروں سے باہر نکل آئے۔
پھر لوگوں کے شورو غوغہ سے سارا ماحول گونج اٹھا۔ جس میں اسیری کی آواز دب کر رہ گئی۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے کہیں سے جلتی مشتعل اٹھا لی ۔ پھر کیا تھا۔ ہر ایک کے ہاتھ میں روشنی تھی اور بندوقیں،بم و اسلحہ کہیں دور پڑے تھے۔ سبھی اپنوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ لاشیں نکال رہے تھے اور انہیں دفنا رہے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں ، بھائیوں اور شوہروں کی لاشوں پر بین کررہی تھیں۔ آج کوئی بھی اپنی بیوی یا بیٹی کا منہ بند نہیں کر رہا تھا۔ اسیری کو اپنے شوہر جابرکی لاش ملی۔ شیریں کو اپنے باپ آزارکی لاش ملی۔ سب کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا رہا تھا ۔ پو پھٹنے سے پہلے تک کم ہی لاشیں بچی تھیں جو ابھی دفنانا باقی تھیں۔ سب تھکے تھکے سے تھے لیکن اس دوران سب کو ایک ہی خیال پریشان کئے ہوئے تھا کہ آخر یہ جنگ ، یہ خون خرابہ رُکا کیسے۔
ا س افرا تفری میں پھر اسیری کی درد بھری آواز نے فضاء میں ارتعاش پیدا کردیا ۔ وہ امن امن پکار رہی تھی۔ جیسے اُسے امید تھی کہ صبح کی روشی میں امن اسے ضرور ملے گا۔ صبح صادق کی پہلی روشنی میں لوگوں نے اپنی بستی کو غور سے دیکھا۔ توساری بستی اجڑ چکی تھی۔ گھر زمین بوس ہوچکے تھے۔ جگہ جگہ ہتھیار الٹے سیدھے پڑے تھے۔ سارے رنگ برنگے جھنڈے سر نگوں تھے۔ اچانک شریں نے ایک چھوٹی سی پہاڑی کی طرف دیکھا تودنگ رہ گئی۔ وہ اشارہ کرکے سب کو اس طرف متوجہ کرنے لگی،جہاں سے سورج کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اور صبح کی مست مست ہوا کی تال پر ایک سفید جھنڈا لہرا رہا تھا ۔ سفید جھنڈا امن کے کمزورہاتھ میں لہرا رہا تھا اور وہ نمناک آنکھوں سے اپنی ویران بستی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ سب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔۔۔
اچانک ۔۔۔ اس مسرت بھری بھیڑ میں ۔۔۔ کہیں سے نحیف سی لیکن نفرت انگیز آواز ابھر ی ۔ ـ ۔۔ بزدل ـ
پتہ : اسلا م آباد
فون نمبر9419734234