ہندوستانی میڈیا بریکنگ نیوز کے لئے مشہور ہے۔ بریکنگ نیوز کو اگر بے پَرکی اڑانا بھی کہا جاسکتا ہے۔ 24/7 چیانلس کو مصروف بھی رہنا ہے اور اپنے ناظرین کو بھی مشغول رکھنا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو انہیں مسلسل پیش کرنا ہی ہے۔ چنانچہ اکثر و بیشتر من گڑھت خبریں بھی نشر کردی جاتی ہیں‘ کبھی بے بنیاد خبروں پر نالائق قسم کے نام نہاد دانشوروں سے بحث کروائی جاتی ہے۔ اکثر یہ آپس میں اس طرح تکرار کرتے ہیں کہ بچپن میں پڑھے ہوئے سرسید احمد خاں کا مضمون ’’بحث و تکرار‘‘ یاد آجاتا ہے کیوں کہ بحث کرنے والوں اور اینکر کی آوازیں ایک دوسرے میں اس طرح سے الجھ جاتی ہیں کہ کبھی کبھی اندیشہ ہوتا ہے کہ آیا یہ نام نہاد دانشور بحث کررہے ہیں یا ایک دوسرے پر بھونک رہے ہیں۔ میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا نے ہندوستان کے ماحول کو تباہ و تاراج کیا۔ امن و آشتی کو نفرت، دشمنی میں بدل دیا۔ جانے کتنے بے قصور نوجوانوں کی زندگی انہوں نے برباد کی۔ قوم پرستی کے نام پر فرقہ پرستی کو ہوا دی۔ ایک ہم ہی کیا‘ ہر وہ ہندوستانی جسے اپنے وطن سے محبت ہے‘ جو بھائی چارگی پر یقین رکھتا ہے اُس نے ان چیانلس کے خلاف آواز اٹھائی مگر یہ آواز بہروں کے سماج میں گونگوں کی چیخ کی طرح دب کر رہ گئی۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہندوستانی میڈیا کو رچرڈ ایلڈمین ٹرسٹ نے بدعنوان اور ناقابل اعتماد ادارہ قرار دیا۔ ریچرڈ ایلڈمین نے لگ بھگ 28ممالک میں میڈیا پر سروے کے بعد اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ 17ممالک کے عوام نے اپنے اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جس میں ہندوستان سرفہرست ہے۔ ہندوستانی صحافی احمقانہ قسم کے مسائل کو اُچھالتے ہیں اور عوام میں اضطراب پیدا کرتے ہیں۔ عدم رواداری کا مسئلہ جسے میڈیا نے پیش کیا تھا‘ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی بدنامی کا سبب بنا۔ برہانی اور کنہیا کمار کو قوم دشمن آواز کے طور پر پیش کرنے سے بھی ملک کی بدنامی ہوئی۔ بحیثیت مجموعی دہلی کے صحافیوں نے فرضی کہانیوں کو میڈیا کے ذریع پھیلانے میں ا ہم رول ادا کیا جبکہ ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو عدم رواداری کا مفہوم بھی نہیں معلوم۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نیوز چیانلس محض سرگوشیوں، گپ شپ اور احمقانہ قسم کے مباحث کے ذرائع بن گئے ہیں۔ سوشیل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اثر ہوا ہے۔
میڈیا ایک دور میں اپنے غیر جانبداری کے لئے عزت وقار، قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک مقصد کے تحت اخبارات، جرائد شائع ہوتے‘ پھر جب الکٹرانک میڈیا نے اپنی جگہ بنائی تو جانبداری ایمانداری، صداقت پسندی، بھولی بسری صنف بن گئی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1870ء سے گلوبل میڈیا پر صیہونیت کا شکنجہ ہے۔ یہودیوں دانشوروں نے لگ بھگ 140برس پہلے سوئیزرلینڈ کے شہر باسلس میں اپنے خصوصی اجلاس میں ایک ایسا طویل مدتی منصوبہ تیار کیا تھا جس کے تحت آنے والے برسوں میں نہیں بلکہ آنے والی صدیوں میں ساری دنیا پر ان کی حکومت یقینی ہوجائے۔ اس ایجنڈاکے تحت تعلیم، میڈیا اور گولڈ (سونا) پر ان کا قبضہ رکھنے کے منصوبہ بندی کی گئی اور آج 96% گلوبل میڈیا پر یہودیوں کا تسلط ہے۔ ہر بڑا اخبار ٹی وی نیوز چیانل، فلم کمپنی ان کے ہاتھ میں ہے۔ انڈیا کا سب سے بڑا میڈیا گروپ والٹ ڈزنی ہے جس کے 26 اخبارات، 12ٹی وی چیانلس، 87کیبل نٹ ورکس ہیں۔ امریکہ کا ہر بڑا اخبار اور جریدہ چاہے وہ ٹائم ہو یا نیوز ویک یا پھر یو ایس نیوز سبھی یہودیوں کے تحت ہے۔ اسٹار نٹ ورک کا مالک مرڈوخ روپرٹ بھی یہودی ہے۔ برطانیہ ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک یہودی ذہن ہر ملک کے میڈیا کے پس پردہ کام کرتا ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستانی میڈیا پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ جس طرح دیگر ممالک میں میڈیا‘ کارپوریٹ سیکٹر کے زیر اثر ہے‘ ہندوستان میں بھی اب بیشتر میڈیا ہائوس کارپوریٹ سیکٹر کے تحت کام کررہے ہیں۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنے مفادات کے لئے میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ میڈیا کے نمائندے صحیفہ نگار کم پیروکار زیادہ ہیں بلکہ یہ اپنے اپنے مالکین کے پی آر او ہیں۔ کسی بھی بڑے اخبار یا ٹی وی چیانل کا پس منظر دیکھئے‘ کسی نہ کسی سیاستدان کی پرچھائی نظر آئے گی۔ یا پھر کسی نہ کسی کاپوریٹ ہائوس کے تانے بانے اس سے ملتے نظر آئینگے۔ امبانی نے ایناڈو گروپ اور نٹ ورک18 گروپ سے معاہدہ کیا۔ آدتیہ برلا گروپ نے لیونگ میڈیا انڈیا گروپ حاصل کرلیا ہے جس کے ٹی وی ٹوڈے نٹ ورک نے 57.46 فیصد شیئرس ہیں۔ اس نٹ ورک کے تحت آج تک اور ہیڈ لائنس ٹوڈے ٹی وی چیانلس کے علاوہ انڈیا ٹوڈے میگزین شائع ہوتا ہے۔ اوسوال گرین ٹیک کی این ڈی ٹی وی میں 14.17فیصد شیئرس ہیں۔اکثر و بیشتر اخبارات اور ٹی وی چیانلس سے وابستہ اہم افراد کا کوئی نہ کوئی سیاسی پس منظر بھی ہوتا ہے۔ یا پھر میڈیا سے وہ سیاست میں داخل ہوجاتے ہیں۔ انڈیا ٹی وی کے رجت شرما بی جے پی اور نریندر مودی کے قریبی حلقوں میں شامل ہیں۔ ہندوستان ٹائمس کی صدر نشین اور ایڈیٹوریل ڈائرکٹر شوبھنا بھارتیہ کانگریس کی اہم رکن رہیں۔نیوز24ے مالک انورادھا پرساد پارلیمنٹ میں قائد اپوزیشن اور کانگریس قائد راجیوشکلا کی اہلیہ ہیں‘ راجیوشکلا آئی پی ایل میں اسپورٹس فکسنگ جیسے اسکینڈلس میں ملوث پائے گئے۔ انگلش روزنامہ PIONEER سے وابستہ چندن مترابی جے پی سے وابستہ ہیں۔ مشہور ٹی وی چیانلس کے ٹی وی ا ینکرس جو کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ان میں سے بیشتر خود کرپشن کے لئے بدنام ہوئے بلکہ گرفتار بھی ہوئے۔ برکھادت الکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا نام ہے۔ اگر راڈیا ٹیپس میں ان کا نام نہ آیا ہوتا تو ان کا ویسا ہی امیج برقرار رہتا۔ مسلم دشمنی اور ہندوتوا نظریات کے پرچار کے لئے جانے پہچانے زی نیوز کے ایڈیٹر سدھیر چودھری کو تو کانگریس کے سابق ایم پی اور صنعت کار نوین جندال سے 15ملین ڈالرس کی رقم طلب کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چاہے دیپک چورسیا ہو یا کوئی اور ایسے اَن گنت نام ہیں جنہیں ہندوستانی عوام ہر روز دن رات ٹی وی چیانلس پر دیکھتے ہیں یا ملک کے مشہور و معروف اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ انسانیت کرپشن سے پاک سوسائٹی کے درس دینے والوں کے دامن اس قدرداغدار ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ آج کا میڈیا دراصل گمراہ کن پروپگنڈے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ 21ویں صدی میں جتنی بھی جنگیں لڑی جائیںگی وہ میڈیا کی بدولت ہوںگی۔یاد رہے1990ء کے دہے میں خلیجی جنگ کے دوران جب امریکہ کے زیر قیادت اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کیا تھا تب اس جنگ میں سب سے زیادہ اہم رول سی این این کا تھاجس کا ہر ایک نامہ نگار دراصل سی آئی اے کا جاسوس تھا۔ سی این این نے علی الاعلان کہا تھا کہ تم خبردو ہم جنگ کا میدان فراہم کریںگے۔ ایسا ہی ہوا‘ سی این این کے رپورٹرز عراق کے مختلف شہروں میں مختلف مقامات سے رپورٹ کرتے‘ کہ فلاں مقام پر صدام حسین یا ان کے بیٹے یا کوئی اہم عراقی قائد پریس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ہیں یہاں سے لائیو ٹیلی کاسٹ ہوگا‘ کچھ دیر بعد اس مقام پر اتحادی افواج کے لڑاکاطیارے بمباری کرکے عمارات کو ملبے کا ڈھیر بنادیتے۔ ہندوستانی میڈیا آج وہی رول ادا کررہا ہے۔ جہاں امن ہے‘ وہاں فساد برپا کرتا ہے۔ جہاں اتحاد ہے وہاں انتشار پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ چند ٹی وی چیانلس اور کچھ صحافیوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ غیرجانبدار ہیں‘ سیکولر ہیںمگر کون کیا ہیں‘ یہ وقت آنے پر پتہ چلتا ہے۔ اگر کوئی مودی کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کا ہمدرد ہے۔ نظریاتی اختلافات،طبقاتی کشاکش بھی کسی کی تائید اور مخالفت کی وجہ بن سکتی ہے۔ بی جے پی کی مخالفت ہوسکتا ہے کہ کانگریس اوربائیں بازو کی جماعتوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے مماثل ہو۔ ہم نے اب تک ہندوستانی میڈیا کا جو ذکر کیا ہے اس میں اردو اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس شامل نہیں ہیں۔ ہندوستان کے دو بڑے اردو اخبارات جن کے ملٹی ایڈیشنس ہیں ،مسلم انتظامیہ کے تحت نہیں ہیں۔ غیر مسلم انتظامیہ سنگھ پریوار کے نظریات کے حامل ہیں۔ چوں کہ انہیں اردو داں مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہونا ہے، اس لئے ان کے صفحات پر مذہبی مضامین بھی نظر آئیں گے‘ مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ سے متعلق تبصرے بھی مگر ان کی اصلیت جاننا ہو تو ان گروپس کے تحت شائع ہونے والے دوسری زبان کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے۔ کس قدر زہر یہ مسلمانوں کے خلاف ہندی اور دوسری زبانوں میں اُگلتے ہیں ،اس کا اندازہ ہوجائے گا۔ جہاں تک دوسرے اردو اخبارات کا تعلق ہے‘ یہ لوگ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ چوں کہ کوئی بھی اخبار صدفیصد غیرجانبدار نہیں رہا ،اسلئے کسی پر بھی قاری کا صد فیصد اعتبار باقی نہیں رہا۔ اس کے باوجود یہ اردو اخبارات اردو پڑھنے والوں کے وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔
نوٹ : مضمون نگار یڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد ہیں
فون9395381226