دیالگام//جنوبی کشمیر کے دیلگام علاقہ میں معرکہ آرائی کے دوران لشکر طیبہ سے وابستہ معروف کمانڈر بشیراحمد وانی عرف بشیر لشکری ساتھی سمیت جاں بحق ہو گیا۔جھڑپ کی جگہ پر مظاہرین اور فورسز میں شدید تصادم آرائی کے دوران فورسز کی مبینہ فائرنگ سے خاتون سمیت دو افراد ہلاک اور 32زخمی ہوئے جن میں تین پر براہ راست فائرنگ کی گئی جن کی حالت صورہ میں نازک قرار دی جارہی ہے ۔ واقعہ کے دوران ایک خاتون حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہوئی۔واقعہ کے خلاف جنوبی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں ہڑتال رہی ،تعلیمی ادارے بند کر دئے گئے جبکہ انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ۔
آپریشن کیسے شروع ہوا
فوج کی 19آر آر ،سی آر پی ایف کی40بٹالین اور جموں وکشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ نے جنگجوئوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر جمعہ و سنیچر کی درمیانی رات برینٹی دیالگام نامی گائوں کو محاصرہ میں لیا ۔اس بیچ فورسز کے اہلکار وں نے بشیر احمد گنائی کے رہائشی مکان، جو کہ بستی کی آبادی سے تھوڑا دور ہے، کو گھیرے میں لے کر کارروائی شروع کر دی،تاہم مکان کے اندر خاتون وشیر خوار بچہ کی موجودگی کے سبب فورسز اہلکاروں نے اپنی کارروائی معطل کر دی اور خاتون کو باہر نکالنے کیلئے پیرا کمانڈوز وں کو بلوایا گیا ۔ساتھ ہی جنگجوئوں کے نکلنے کے تمام راستے بند کر دیئے گئے جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی کی گئی ۔خاتون اور اسکے ساتھ ایک عمر رسیدہ شخص کو باہر نکلنے کیلئے مقامی نمبردار کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن وہ باہر نہیں آئے۔اتنا ہی نہیں بلکہ دیگر دو مکانات میں بھی لوگ پھنسے ہوئے تھے جنہیں بعد میں ایک ایک کر کے باہر نکالا گیا۔ دوپہر12 بجے جوہنی خاتون بچے سمیت گھر سے باہر آگئی تو فورسز نے اپنی کارروائی شروع کر دی جس کے بعد طرفین میں زبردست گولیوں کا تبادلہ ہوا جو آدھے گھنٹے تک جاری رہا۔ فوج نے رہائشی مکان کوبارودی مواد سے اُڑا دیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق تین بڑے دھماکے ہوئے جس کیساتھ ہی مکان تباہ ہوگیا۔بعد میں مکان کا ملبہ ہٹالیا گیا اور وہاں سے اور لشکر طیبہ سے وابستہ معروف کمانڈر بشیر احمد وانی عرف بشیر لشکر ی ساکن صوف کوکر ناگ اور ابو معاویہ کی لاشیں برآمد کی گئیں۔
پتھرائو ،شلنگ اور فائرنگ
برینٹی دیالگام میںمحاصرہ میں پھنسے جنگجوئوں کی خبر پھیلتے ہی آس پاس کے دیہات سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، تصادم آرائی کی جگہ جمع ہوئے اور نعرے بلند کر تے ہوئے فورسز اہلکاروں پر زبردست خشت باری کی۔مظاہرین نے ایک موقعہ پر جائے وقوع تک پہنچنے میں کامیابی حاسل بھی کی تھی لیکن اس دوران فوج پر کسی نے پٹاخہ سرکا جس کے دوران ہی لوگوں میں یہ افواہ پھیلی کہ بشیر لشکری ساتھی سمیت بھاگ گیا ہے اور جونہی لوگ منتشر ہونا شروع ہوئے تو فوج نے گھیرا تنگ کردیا جس کے بعد مظاہرین کو یہاں تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔مظاہرین نے چاروں اطراف سے فوج کو نشانہ بنایا لیکن محاصرہ نہیں اٹھایا گیا۔فورسز نے مظاہرین کو روکنے کیلئے فائرنگ کے ساتھ ساتھ آنسو گیس کے گولے داغے جس کے نتیجے میں 40سالہ خاتون طاہرہ بانو زوجہ عبد الرشید ساکن برینٹی گولی لگنے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئی ۔مذکورہ خاتوں کے کمر میں گولی لگ گئی تھی جبکہ فورسز کی راست فائر نگ سے شاداب احمد نامی نوجوان شدید زخمی ہوا جس کو نازک حالت میں سرینگر منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا ۔فورسز کی براہ راست فائر نگ میں عاقب تیلی ولد محمد اشرف، طارق احمد ولد غلام رسول چوپان اور جاسف احمد ساکنان برینٹی شدید زخمی ہوئے جنہیں صورہ منتقل کردیا گیا ہے۔ شلنگ اور پیلٹ سے دو درجن سے زائدزخمی ہوئے ،جنہیں علاج معالجہ کیلئے مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ادھر لوگوں نے فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ اُنہوں نے اُنہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔ڈورو،اچھ بل دیالگام، قاضی گنڈ اورکوکر ناگ میں ہڑتال رہی جبکہ نوجوانوں نے فورسز پر سنگ باری کی۔
پولیس کا بیان
پولیس کا کہنا ہے کہ بشیر لشکری حال ہی میں مارے گئے پولیس اہلکاروں جن میں ایس ایچ او اچھ بل و دیگر 5اہلکار شامل ہیں،کے قتل میں ملوث تھا ،پولیس نے اُن کی ہلاکت کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ڈی جی پی ایس پی وید نے آپریشن انجام دینے والے فورسز اہلکاروں کو مبارکباد پیش کی ہے ۔ پولیس نے کہا کہ مسلح تصادم کے مقام پر رہائشی مکانوں میں پھنسے سبھی 17 عام شہریوں کو بحفاظت باہر نکالا گیا تھا۔
کون تھا بشیر لشکری
بشیر لشکری کاتعلق کوکر ناگ کے مضافاتی گائوں صوف شالی سے تھا ۔ماں باپ کے سائے سے محروم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنا والے بشیر نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گائوںمیں حاصل کی جس کے بعد سال1999میں 16سال کی عمر میںجنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوگیا اور ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر نے کیلئے سر پار چلا گیا ۔2002میں اچھ بل کے مقام پر اُ سے گرفتار کیا گیا اور2005میں رہا کیا گیا ۔تاہم اُنہوں نے ایک بار پھر 2009میں جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ایک بار پھراسے 2010میں بجہباڑہ کے نزدیک گرفتار کیا گیا اور2014میں رہا کیا گیا۔ایک سال بعد یعنی اکتوبر2015میں اُس نے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی ،جس کے بعد اُنہیں کمانڈر بنایا گیا۔ برہان وانی کی طرح اُنہوں نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جس کے بعد وہ کافی مشہور ہوگئے اور فورسز کووہ کافی مطلوب تھا ۔اسکے سر پر12لاکھ کا انعام تھا اور وہ جنوبی کشمیر میں ابو دجانہ کے بعد لشکر کا سب سے مطلوب کمانڈر تھا۔