Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

برہنگی برائیون کی جڑ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: September 6, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
 تاریخ  اسلام کا ایک سبق آموز اور ایمان افروز واقعہ پیش خدمت ہے۔مدینہ منورہ میں ایک خاتون تھیں جنہیں اُمِّ خلاد رضی اللہ عنہا کہا جاتا تھا۔ غزوئہ خندق کے فوراً بعد جب غزوئہ بنو قریظہ پیش آیا تو ان کے صاحبزادے حضرت خلاد ؓ نے اس غزوہ میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان کو جب اپنے بیٹے کی شہادت کا پتہ چلا تو یہ اپنے گھر سے ان کی میت دیکھنے کے لیے روانہ ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ بیٹے کی جدائی کا صدمہ دل میں ہو گا لیکن ایسے موقع پر بھی یہ اپنا نقاب کرنا، جو پردے کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے، نہ بھولیں۔ جب یہ اُس جگہ پہنچیں جہاں ان کے صاحبزادے کی میت رکھی ہوئی تھی، تو کئی ایک لوگوں کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ ’’اپنے بیٹے کی میت پر آئی ہیں اور اس حال میں بھی نقاب کر رکھا ہے‘‘ یعنی ایسے غم کے وقت پردے کے اہتمام کی بھلا کیا ضرورت ہے؟؟؟
حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا نے اس بات کے جواب میں جو جملہ ارشاد فرمایا وہ ایک طرف تو اُن کے عزم و حوصلہ اور جرأ ت و استقامت کا ثبوت ہے تو دوسری طرف ایک مسلمان خاتون کے لیے اپنے دل پر نقش کرلینے کے قابل ہے۔ انہوں نے لوگوں کے جواب میں یوں کہا:
’’اگر میرا بیٹا شہید ہوا تو میری حیاء تو نہیں رخصت ہو گئی
جب ان کی یہ بات رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ ان کے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ کس وجہ سے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کیونکہ خلاد ؓ  کو اہل کتاب (یہودیوں) نے قتل کیا ہے۔ (سنن ابی دائود۔ روایت شماس بن قیس ؓ)
حضرت اُم خلاد رضی اللہ عنہا کے اس عظیم اور یاد گار کردار میں ویسے تو ہمارے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں لیکن جس سلسلے میں ہم آج گفتگو کر رہے ہیں اُس حوالے سے دیکھیں تو ’’پردہ‘‘ ایک ایسا اسلامی حکم ہے‘ جس پر اب کئی غیر مسلم ممالک میں تو پابندی ہے ہی لیکن مسلم ممالک میں بھی اس کی حالت بدتر سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مسلمان بیٹی کا مضمون منظر عام پر آیا‘ جس میں اس نے تفصیل سے بتایا تھا کہ کس طرح  پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں اُسے صرف پردہ کرنے کے نتیجہ میں سخت ذہنی اذیت اور بد ترین امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ مضمون پڑھ کر سخت تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی کہ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘ جس کی بنیادوں میں سولہ لاکھ اہل ایمان کا خون ہے اور جسے حاصل کرتے وقت ہر شخص کی زبان پر یہ نعرہ تھا: پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ( ص)اُسی ملک میں آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ ایک مسلمان خاتون کو صرف ایک اسلامی حکم کی تعمیل میں پردہ کرنے کے ’’جرم‘‘ میں یوں ستایا جا رہا ہے… انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
پھر یہ ایک واقعہ نہیں، گزشتہ چند سالوں میں جب سے روشن خیالی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے‘ ایسے واقعات تو اتر سے پیش آرہے ہیں‘ جن میں کسی مسلمان مرد یا عورت کو اسلامی نشانیوں داڑھی، پگڑی، ٹوپی اور برقعہ کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پردہ ایک خالص شرعی حکم ہے پھر اسلامی حکم ہونے کے علاوہ پردہ کا تعلق ہر مسلمان خاتون کے انسانی حقوق سے بھی ہے۔ قرآن مجید نے ’’انسدادِ فواحش‘‘ کا جو پروگرام انسانیت کو عطا فرمایا ہے اس کا بنیادی نکتہ پردہ ہے۔ انسانی معاشرے کو جرائم سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پردے کے حکم پر دل و جان سے عمل پیرا ہونا ہے۔ آج بھی جن ممالک میں پردے کا رواج کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے‘ وہاں جرائم کا گراف‘ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت نیچے ہے۔
پردہ‘ عورت کیلئے کوئی قید ہے نہ غلامی۔ یہ عورت کیلئے کوئی تحقیر کی علامت ہے اور نہ ہی کسی تذلیل کی۔ یہ تو عورت کیلئے اعزازو اکرام کا نشان ہے اور اُس کے بے پناہ احترام کا خوبصورت اظہار ہے۔ دنیا میں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں جو چیز قیمتی اور اہم ہوتی ہے‘اُسے دوسروں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھتے ہیں اور جس چیز کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی‘اُسے بغیر کسی اہتمام کے سب کے سامنے رکھتے ہیں۔ اتنی واضح بات کے باوجود بھی اگر کسی کو پردہ میں عورت کی ذلت محسوس ہوتی ہے تو اُسے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔ ایک مسلمان کی تویہ شان نہیں کہ وہ واضح حکمِ الٰہی کے بعدپردے کے بارے میں کوئی منفی تبصرہ کر سکے۔
آج کے ملحدین مسلمانوں کے سامنے پردے کو ترقی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا تہذیب و تمدن بے پردگی کا نام ہے؟ اگر واقعی بے پردگی ہی کا نام تہذیب ہے تو یہ کن لوگوں کی تہذیب ہے؟ یہاں ضروری ہے کہ تہذیب کی تعریف پر غور کیا جائے۔
تہذیب درحقیقت ایک پہچان اور شناخت کا نام ہے۔ کسی قوم کے عقائد، ان عقائد پر ان کے عمل، جغرافیائی حالات اور اس کے طور طریقوں، رہن سہن، لباس، صنعات، روایات، معاملات، تہوار، مقدس ایام منانے اور خوشی و غمی کی تقریبات کے طریقوں کے پیش نظر جو تصویر اور تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہی اس قوم کی تہذیب کہلاتا ہے اور اسی کے حوالے سے وہ قوم پہچانی جاتی ہے۔جب مسلمان کا لفظ کسی قوم یا شخص کے لیے بولا جاتا ہے تو اسلامی تہذیب کی روشنی میں ذہن میں ایک مخصوص تصویر اجاگر ہوتی ہے جس کے لباس،بولنے کے انداز اورحلیہ سے ہم اس کی شناخت کر لیتے ہیں کہ حقیقتاً یہ شخص مسلمان ہے۔
اب ہم اپنے عقائد و نظریات کی روشنی میں اپنی تہذیب سے متصف مسلم خاتون کا تصور کریں اور اس کا حلیہ دیکھیں تو کیا وہ ایسی خاتون ہے جس کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے، جس کا گریبان، گردن اور بازو کھلے ہوئے ہیں اور جس کا کھلا چہرہ اجنبی نگاہوں کو دعوت ِ نظارہ دے رہا ہے؟ یا اسلامی تہذیب اپنانے والی خاتون وہ ہے جو سر سے پائوں تک کسی بڑی چادر یا برقع میں چھپی ہوئی ہے اور بازاری مردوں سے بچتے ہوئے نہایت احتیاط اور وقار سے قدم اٹھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے؟
کیا علم سے مستفید ہونا تہذیب و تمدن نہیں ہے؟ اگر علم تہذیب و تمدن کا نشان ہے تو اس کے حصول کے لیے بے پردہ رہنا ہر گز ضروری نہیں۔ کسی کا پردہ اسے تحصیل علم سے قطعاً نہیں روکتا۔پردہ تو فرائض وواجبات کی تکمیل میں مدد دیتا ہے اور فضول مشغولیات ترک کرنے کی سعادت بخشتا ہے۔کیا پردہ لیڈی ڈاکٹر کو بیماری کی تشخیص کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے؟ یا مریض کو دوا بتانے سے منع کرتا ہے؟
تہذیب و تمدن اور رجعت پسندی کا فرق اب بالکل صاف اور بے غبار ہو گیا ہے۔ پردہ اعلیٰ اقدار و روایات پرمبنی تہذیب کی نشانی ہے۔ پردہ عورت کے وقار اور اعتبار میں اضافے کا ضامن ہے۔ پردہ عورت کی آبرو کا نگہبان ہے۔ پردہ عورت کی عظمت، ہیبت اور سطوت میں اضافہ کرتا ہے۔
اسی طرح ’’ترقی‘‘ بہت وسیع لفظ ہے، اس کا کوئی ایک ہی مقررہ مفہوم نہیں ہے۔ مسلمان ایک زمانہ میں خلیج بنگال سے بحرا ٹلا نٹک تک حکمران رہے ہیں۔ سائنس اور فلسفہ میں وہ دنیا کے استاد تھے۔ تہذیب و تمدن میں کوئی دوسری قوم ان کے برابر نہ تھی۔ معلوم نہیں اس چیز کا نام کسی لغت میں ترقی ہے یا نہیں۔ اگر یہ ترقی تھی تو میں عرض کروں گا کہ یہ ترقی اس معاشرے نے کی تھی جس میں پردے کا رواج تھا۔ اسلامی تاریخ بڑے بڑے اولیاء مد برین، علماء حکماء، مصنفین اور فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہے، یہ عظیم الشان لوگ جاہل مائوں کی گود میں پل کر تو نہیں نکلے تھے۔ خود عورتوں میں بھی بڑی بڑی عالم و فاضل
 خواتین کے نام ہمیں اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ وہ علوم و فنون اور ادب میں مہارت رکھتی تھیں۔
پردے نے اس ترقی سے مسلمانوں کو نہیں روکا تھا۔ آج بھی اسی طرز کی ’’ترقی‘‘ ہم کرنا چاہیں تو پردہ ہمیں اس سے نہیں روکتا۔ البتہ اگر کسی کے نزدیک ’’ترقی‘‘ بس وہی ہو جواہل مغرب نے کی ہے تو بلاشبہ اس میں پردہ بری طرح حائل ہے‘ مغرب نے وہ ترقی اخلاقی اور خاندانی نظام کو خطرہ میں ڈال کر کی ہے۔ وہ عورت کو اس کے دائرہ عمل سے نکال کر مرد کے دائرہ کار میں لے آیا ہے ،اس طرح اس نے اپنے دفتر اور خارخانے چلانے کے لیے دو گنے ہاتھ تو حاصل کر لیے اور بظاہر بڑی مادی ترقی حاصل کر لی مگر بحیثیت مجموعی وہاںلوگوں نے گھر اور خاندان کا سکون، رشتوں کا تقدس، نسب کا احترام اور بنیادی معاشرتی ڈھانچہ کھو دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ پردے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’اے نبی (ﷺ) کہہ دیں اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور ایمان والوں کی عورتوں کو نیچے لٹکالیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں۔اس میں بہت قریب ہے کہ پہچانی جائیں تو ان کو کوئی نہ ستائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(الاحزاب ۹۵)
شیخ التفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی قدس سرہ اس کی تفسیر میں اس طرح فرماتے ہیں:
’’روایات میں ہے کہ مسلمان مستورات جب ضروریات کے لیے باہر نکلتیں تو بد معاش منافق تاک میں رہتے اور چھیڑ چھاڑ کرتے۔ پھر پکڑے جاتے تو کہتے ہم نے سمجھا نہیں تھا کہ کوئی شریف عورت ہے، لونڈی باندی سمجھ کر چھیڑ دیا (اس لیے اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیات نازل فرمائیں۔اس آیت میں یہ حکم ہے کہ) بدن ڈھانپ لینے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیں۔ روایات میں ہے کہ اس حکم کے بعد مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے‘‘۔
حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’پہچان لی جائیں کہ لونڈی نہیں، بی بی ہے بد ذات نہیں نیک بخت ہے، تاکہ بد نیت لوگ اس سے نہ الجھیں۔ گھونگھٹ اس کا نشان رکھ دیا، یہ حکم بہتری کا ہے آگے فرما دیا! اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یعنی باوجود اہتمام کے کچھ تقصیر(کوتاہی) رہ جائے تو اللہ کی مہربانی سے بخشش کی توقع ہے۔ یہ تو آزاد عورتوں کے متعلق انتظام تھا کہ انہیں پہچان کر کسی کو چھیڑنے کا حوصلہ نہ ہو اور جھوٹے عذر کرنے کا موقع نہ رہے۔ آگے (اللہ تعالیٰ نے) عام چھیڑ چھاڑ کے متعلق دھمکی دی (خواہ بی بی ہو یا لونڈی کسی کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرنی)‘‘۔
ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہیے کہ وہ پردے جیسے عظیم حکمِ الٰہی کیلئے کم از کم تین اقدامات ضرور کرے:
۱… اپنے ہاں شرعی پردے کو رواج دیا جائے اور سب سے پہلے خود اس پر اہتمام سے عمل کیا جائے۔
۲… تعلیم، بیماری اور دیگر تمام ضروری کاموں میں بھی جہاں تک ہو سکے، پردہ کا حکم نہ ٹوٹنے پائے۔
۳… پردے کے حکم اور اس کے فائدوں کو اپنے اپنے حلقہ ٔ اثر میں کھل کر بیان کرے اور اس حکم کی نافرمانی کی وجہ سے جو آفتیں آرہی ہیں‘ ان کو بھی سمجھائے۔
اگر شیطان کے پجاری،مسلمانوں کے پاکیزہ ماحول سے پردہ ختم کرنے کیلئے یکسو ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ رحمان جل شانہ کے بندے اس کو رواج دینے اور عام کرنے کیلئے محنت نہ کریں۔ یادرکھیں! یہ ویلنٹائن ڈے‘ اعلیٰ تعلیم‘ ترقی اور دیگر خوشنما نعرے صرف بہانے ہیں‘ اصل مقصد ان سب باتوں کا مسلمانوں کو پردے جیسی نعمت سے محروم کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں تعلیم‘ تفریح اور ترقی کے بھی صرف ایسے راستے ہی منتخب کرنے ہیں‘ جن پر چلتے ہوئے ہمیں’’پردے‘‘ پر سمجھوتہ نہ کرنا پڑے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین ثم آمین)
رابطہ  9469411580
e-mail:- [email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لداخ میں لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ | شیوک روڈ پر پھنسے دو شہریوں کو بچا لیا گیا
جموں
کاہرہ کے جوڑا خورد گاؤں سے کمسن بچی کی لاش برآمد پولیس نے معاملہ درج کر کے تحقیقات شروع کی
خطہ چناب
سانبہ میں بی ایس ایف اہلکار کی حادثاتی موت
جموں
سکولوں کے نئے اوقات کاررام بن ۔ بانہال سیکٹر کے سکولوں کیلئے غیر موزوں میلوں کی پیدل مسافت کے بعد طالب علموں سے آن لائن کلاسز کی توقع زمینی صورتحال کے منافی
خطہ چناب

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?