برہان آج پورے ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن غور طلب ہے کہ وہ آج بھی مزاحمتی تحریک کا زندہ جاوید بے خوف کردار بن کر کشمیر کو متحرک بھی کر رہے ہیں ، متحد بھی کر رہے ہیں ، رُلابھی رہے ہیں اور ایک مضبوط اُمید فرداکا سہارا بھی دے رہے ہیں ۔ ایک جانب کشمیر کا بچہ بچہ ابھی تک ان کی جدائی کا سوگ منارہا ہے ، دوسری جانب اربابِ اقتدار برہان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت سے خائف ہو کر ان کی ماتم منانے پر قدغن لگاتے ہوئے تمام حدیں پار کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کرتے۔ ۸ ؍ جولائی کو پوپھٹے ہی برہان کا معصوم اور دلکش چہرہ ان کے اعصاب پر اس قدر سوار ہوا کہ جنوبی کشمیر ترال میں ان کے مقبرے کو ہی نہیں بلکہ پورے کشمیر کو محاصرے میں لے کرپورے خطے کو شہر خموشاں میں بدل دیا گیا ۔ اس روزوادی میں فقیدالمثال ہڑتال بھی ہوئی ، جب کہ چپے چپے پر وردی پوشوں کی موجودگی اور کانٹے دار تار بچھا کر اہل کشمیر کو اسارت کا احساس بھی دلایا ۔ ویسے بھی کشمیرمیں مابعد برہان کوئی دن نہ گزرا جب کشمیریوں کالہو ایک یا دوسرے بہنے بہانے سے رُک گیا ہو۔اس پورے ایک برس میں شائدہی کوئی ایسادن گزرا جب کندھوں سے جنازے اُترے ہوں۔وادی کے طول وعرض میں بالخصوص جنوبی کشمیر میں نوجوانوں کے قبروں کی گیلی مٹی کشمیریوں پربیت جانے والی بربریت کی داستان سنارہی ہے۔سمجھ نہیں آ رہاکہ برہان وانی کے دمِ واپسیں کا ذکر چھیڑوں ،یابرہان کے جان بحق ہونے کے بعدبرپاہوئی اس قیامت صغریٰ کاتذکرہ کروں جسے وردی پوشوں نے کشمیر کے طول وعرض میں ڈھایا۔دامن کشمیر!جہاں بے حدوحساب المیوں سے تربترہے، وہیں مزاحمت کی داستانیں اس کے ماتھے کی جھومربنی ہوئی ہیں۔ جس پیکر خاکی میں عزیمت کاجوہرموجود ہو ، وہ طائر لا ہوتی ہے۔کشمیرکازکی پشت پر ایک خون آشام تاریخ ہے ، اس کی روح سے ایک قوم کی تقدیر لٹکی ہوئی ہے، اس کی زیست وموت سے سچ کی جیت جھوٹ کی ہار مشروط ہے ۔اس کے ایک جادوئی نعرے نے کتنے مقدس ارمانوں کے گلستان مہکائے، کتنی قربان گاہوں کی تعمیر کی، کتنے مقتل سجادئے، کتنے فولادی عزائم کو امتحان و آزمائش کی بھٹی میں پگھلا دیا ۔بلاشبہ اپنے پیدائشی حق کے حصول کا راستہ کٹھن ،دشواراورصبرآزماہوتاہے۔جابراورغاصب قوت اپنے بنیادی حق کی تلاش میں نکل پڑی قوم کے عزائم کوشکست دینے کے لئے بے پناہ اورکثیرالجہت مصائب ڈھاتی ہے لیکن جو قوم اپنے پیدائشی اوربنیادی حق کے حصول کے لئے یکسوہواور عزم صمیم اورفکری ونظریاتی اعتبارسے طاقتورہواس قوم کے عزائم کوہرگزشکست نہیں دی جاسکتی۔
کشمیر!کتنے آنسوئوں، آہوں اور سسکیوں کے بحر بیکراں بہائے، کتنے خواب و سراب کا تن تنہا مقابلہ کیا ، کتنی جوانیوں کا ایثار مانگا ، کتنی آدم خور کہانیوں کا موضوع ہوا، کتنی جیلوں، تعذیب خانوں اور لاپتہ ویرانوںکو آبادکیا ، کتنے معلوم ونامعلوم قبرستانوں کا بار اٹھایا، کتنی بستیوں کو آتش و آہن کا نوالہ بنتے دیکھا ، کتنے غرض پرستوں اور دست ہائے جفاکیش کی عیاریوں و مکاریوں کے تیرو خنجر سینے میں پیوست ہوتے دیکھے، کتنے چہرے بے پردہ کر نا پڑے، کتنی کافرادا غمزہ خون ریز کی ضربیں سہنا پڑیں۔بے نوائی کی شب سیاہ کافورکرنے اورسلاسل توڑنے کے لئے بلاشبہ قوم کے ہرفردکی زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ قدم قدم پرہمت جواب دینے لگ جاتی اس طرح ایک بڑا، امتحان اور کڑی راہ درپیش ہوتی ہے۔
1990سے آج تک کشمیری مسلمانوںکے کندھوں پراپنے لخت جگروں کے مسلسل تابوت ہیں،لگاتارخون آشامیاں ہیں ، معرکے اورجھڑپیں ہیں ، آتش وآہن کی بارش ہے، نعرہ مستانہ ہے،آسمان شق کرنے والی چیخ وپکاراورآہ وزاریاں ہیں ،جس طرف نظریں اٹھائیںقبرستان ہی قبرستان ہیں،قتل عام کرنے والے بھارتی درندہ صفت فوجیوں کے لئے سٹار، پھول تمغے اور ترقیاں ہیں۔پرآشوب حالات ،گولیوں کے تڑاخ پٹاخ اوربندوقوں کی گن گرج میں جنم لینی والی کشمیرکی موجودہ نسل بے خوف ،بے باک ، بے جگر،دلیراوربہادرہے ۔ یہ نسل گولیوں کی تڑتڑاہٹ، ماردھاڑ،قتل وغارت ، فوجی بوٹوں کی خوفناک آہٹ اور آگ اورخون کے دریاکوعبورکرتے ہوئے جواں ہوئی۔ 1990میں جنم لینے والاکشمیری بچہ آج ماشاء اللہ زندگی 26ویں بہارمیں داخل ہوچکاہے ،اس نے آنکھ کھولتے ہی ظلم دیکھا،بربریت دیکھی ،پکڑدھکڑ دیکھی ،بے گوروکفن میتیں دیکھی ،بے نام قبریں دیکھی ،خون میں لت پت لاشیں دیکھی،آتش وخون دیکھا،گردنوں سے سروں کواترتے دیکھا، عزت والوں کی سر عام پٹائی ہوتی دیکھی ،چادراورچار دیواری کوپامال ہوتے دیکھا،خواتین کی عصمتیں لٹتی دیکھی ،یتیموں کی ایک فصل اگتی دیکھی ،ریاستی دہشت گردی دیکھی،جبروقہردیکھا،،اپنے کئیریر،پرایف آئی آرکی تلوارلٹکتی دیکھی ،اس نے اپنے آپ کو بدنام زمانہ افسپاجیسے کالے اورسیاہ ترین قوانین میں جکڑاہوادیکھاجو آن کی آن میں اورکسی بھی لمحے اسے ابدی نیدسلانے کے لئے اس کے تعاقب میں ہیں۔
جنوبی کشمیرکے ہنگامہ خیز علاقہ ترال کے رہنے والاحزب کمانڈربرہان مظفر وانی ایک خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے کے چشم و چراغ تھے اوردنیاوی اعتبارسے جن کے تابناک مستقبل کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی ۔ یہ نوعمر لڑکا کھاتے پیتے گھرانے کی آرام دہ زندگی کوتج کرکشمیرکاز کے لئے بندوق اٹھاتاہے ،جنگلوں کارخ کرتاہے اور چھ برسوںتک مزاحمت کی علامت بن کر عملاً جہد مسلسل کا یہ بے خوف داعی افسپا کے پجاری وردی پوشوں کو چلینج کرتارہتا ہے اور بالآخرکاربے مثال کردارکاحامل کشمیری نوجوانوں کایہ ہیرو جمعہ 8جولائی 2016کوجنوبی کشمیرکے ککرناک علاقے کے بم ڈوروں گائوں میں فورسز کے ساتھ خونریزمعرکے میں اپنے دیگر دوساتھیوں کے ہمراہ حیات جاوداں پا جاتا ہے۔وادی کشمیرطول وعرض میںبرہان کی شہادت کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اورعوام الناس گھروں سے باہرآکر آتش زیرپاہوئے ۔برہان اور ان کے ساتھیوں کے و صال ابدی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اہالیانِ کشمیر اپنی جائز جدوجہد کے تئیں کس قدر غیر معمولی وابستگی رکھتے ہیں اور یہ کہ مسئلہ کشمیر ہمالیائی حقیقت کا آئینہ دار ہے ۔ بلاشبہ برہان کشمیری نوجوانوں کے لئے ایک نمونہ عمل تھاکہ جس نے اپنی مختصر تحریکی زندگی میں کشمیرکاز کے لئے جوگراں قدر خدمات انجام دیں ،وہ آنے والی نسلوں کے لئے مہمیز کا کام دے گی۔برہان اوران کے ساتھیوں نے جس جوان مردی کے سا تھ اپنی اٹھتی جوانیاں راہ حق میں قربان کردیں،وہ کشمیر کی جدوجہدآزادی کاانمول ترین اثاثہ ہے ۔ برہان یقیناََ عزم واستقامت کاکوہ گراں اورجرا ت و بے جگری کااستعارہ بنا رہا۔ اس نوجوان نے عملی جدوجہدکی تاریخ میںایک قابل رشک اور ناقابل فراموش باب لکھا۔
اے شہیدقوم وملت تیرے جذبوں پہ نثار
تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
برہان وانی نے کشمیرکی رواں جدوجہدمیں جوعبقری رول ادا کیا اسے کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔وہ تحریک کشمیر کا ایسامایہ ناز سپوت اور نئے جذبوں اورعزم نوکا امین اور کشمیر کے نو جوانوں کے لئے رول ماڈل اور بہادروجری سالار تھاکہ جس کی للکار،ہمت وحوصلہ اورجذبہ مزاحمت کے سامنے فورسز ،ان کے آلہ کارٔ سیاست کاراوربھارت کامتعصب اوریرقانی میڈیا نہایت خوف زدہ تھا۔ برہان چھوٹی عمر میں اپنی ذہانت اور بہادری سے نہ صرف اپنے لیے مقام پیدا کر گیا، بلکہ ملت کشمیر کی سیاسی ومزاحمتی جدوجہد کو ایک تابناک اوردرخشندہ جہت اور درست اورواضح سمت عطا کی ۔بلاشبہ وہ کشمیرکی آنے والی نسلوں کے لئے مثال بنے رہیں گے اور کشمیرکابچہ بچہ انہیں اپنا مسیحا تصور کرے گا کیونکہ کشمیر حل کے لئے اپنی اجن تک وقف کر نے والے ابدالآباد زندہ رہیں گے۔برہان کی آنکھیں موندھ لینے پر پوری وادی ماتم کناں بنی رہی، ہر آنکھ پر نم اور ہر دل غم سے پھٹ رہا تھا۔عام گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے تھے ، کشمیرکے ہردلعزیزسرفروش برہان سفر آخر پر چلے جانے کی آتشیں خبر سے کشمیرابل پڑااور پوری وادی مکمل پانچ ماہ تک آتش زیرپا بنی رہی،وادی کے یمین ویساراور شرق وغرب میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت آمیز مظاہرے ہوئے ۔پچیس برس کے بعد ترمساجد میںتحریکی ترانے دوبارہ گونج اٹھے ۔ وادی کے کونے کونے سے دوران شب ہی نوجوانوں اور دیگر لوگوں نے برہان وانی کی آخری جھلک دیکھنے کیلئے رختِ سفر باندھا،شمالی کشمیرکے کپوارہ سے جنوبی کشمیر کے بانہال تک سے لوگوں نے برہان وانی کی دائمی وداع کی خبر سننے کے بعد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر ترال کی راہ لی اور جوق در جوق ان کے آبائی علاقہ ترال کی طرف روانہ ہوئے مگر بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں پیدا کرکے لوگوں کو ترال پہنچنے نہ دیا۔ اس سے حالات بد سے بدتر رُخ اختیار کر گئے اور عام لوگوں نے مختلف علاقوں سے قافلہ درقافلہ سفر اختیار کر کے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے ترال پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔8 اور9جولائی 2016جمعہ اورہفتے کی درمیانی شب 2بج کر30منٹ کے قریب برہان وانی کاجسدخاکی ان کے آبائی گائوںترال پہنچایا گیا ،جہاں کہرام مچ گیا اور ہر آنکھ نم تھی اور مردوزن ، بزرگ اور بچے سینہ کوبی کر رہے تھے۔عید گاہ ترال میں ہزاروں لوگ پہلے ہی برہان وانی کے نماز جنازہ کا بے تابانہ انتظار کر رہے تھے، جب برہان وانی کو اسلام و آزادی کے نعروں کی گونج میں عیدہ گاہ ترال پہنچایا گیا تو سوگواریت کا ایساسماں بندھ گیاکہ ان الفاظ کا احاطہ نہیں کر سکتے۔137کنال پر محیط عیدگاہ ترال جو وادی میں سرینگر عیدہ گاہ کے بعد سب سے بڑا عیدگاہ ہے، اس میں نماز جنازہ کیلئے جگہ کم پڑ گئی اور کہیں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔برہان وانی کے جسدخاکی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترال کی سڑکوں پر لوگوں کا اژدھام تھا، حالت یہ تھی کہ ترال ٹاؤن میں بھی جگہ کم پڑ گئی۔ترال میں مغموم ماحول اور دیدہ تر آنکھوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کی پہلی نماز جنازہ میں جو ترال کے عیدگاہ میں ادا کر دی گئی ،اس میں رنج وغم سے نڈھال قریب دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔واضح رہے کہ ٹھاٹھیںمارتے عوامی سمندرکے باعث بائیس سالہ برہان کی نماز جنازہ پچاس بار بارادا کی گئی ۔9جولائی 2016 ہفتے کی سہ پہر3بجے کے قریب سبزہلالی پرچم میں لپیٹ کر انہیں اسلام اور آزادی کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں عیدہ گاہ ترال میں ہی سرد خاک کیا گیا۔جموں کے مسلم اکثریتی علاقوںپونچھ ،راجوری،ڈوڈہ ،کشتواڑ،بدھرواہ اوروادی کے اطراف واکناف میںملت کی آنکھ کے تارے برہان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیاگیاجس میں لوگوں کا اژدھام دیکھنے کو ملا۔ ’’آزاد کشمیر‘‘ اور پاکستان کے علاوہ کئی دیگر ممالک ان کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا گیا ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
اقبالؒ
2010کی ایک شام کوترال کابرہان وانی حزب المجامجاہدین کی صف میں شامل ہو کر کشمیر حل کے عسکری محاذ پرمورچہ زن ہوا۔ اس22سالہ برہان نے کشمیرکازکواس وقت ایک عبقری اور ولولہ انگیز رخ دیاکہ جب عالمی میڈیاسے اوجھل تحریک آزادی کشمیرکوانہوں نے سوشل میڈیاکے ذریعے ترویج دیکرکشمیرکے پڑھے لکھے نوجوانوں کوتحریک کشمیرکی صفوں میں شامل کرایااور مسئلہ کشمیرکے درد سر سے وطن وک چھڑانے کے ضمن میںایک نئی صف بندی کراکے عسکری محاذ کوگرمائے رکھا۔ حزب کمانڈرکی حیثیت سے چھ برس تک مسلسل وہ اغیارکے اعصاب پرسوارہوکران کی نیندیں اڑاتارہا۔ اس بیچ ان کے عزم کو توڑنے اور ہمت کو جنجھوڑنے کے لئے ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو زیر حراست حیات جاودانی کے مر تبہ پر پہنچا یا گیا ، ان کے گھر بار کو تہس نہس اور والدین کو ذہنی تعذیب کا تختہ ٔ مشق بنایا گیا مگر برہان کو اپنے اہل خانہ کی ہر تکلیف ، ہر غم ، ہر صدمے سے زیادہ ہمیشہ کشمیر کے تمام یتیموں،بیواؤں ،معذوروں،ا سیروںا ور نامساعدحالات کے ستائے ہوئے لوگ اور سب سے بڑھ کشمیرکاز کے تئیں والہانہ کمنٹمنٹ میں کوئی کمی نہ آئی۔ یہ امر واقع ان کے خلوص اور آہنی عزائم پر دلالت کر تاہے ۔ انہوں نے اغیار کے مذموم پروپیگنڈے کاعملی طورپرموثرتوڑ کیا اور زعفرانی ماینڈسیٹ کے حامل زہرناک میڈیا کی کشمیرکاز کے خلاف تمام پروپیگنڈے اورشازشیں ناکام بنانے میں بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اورکالج کے پرنسپل جناب مظفروانی کاہونہار فرزند برہان بھارتی سپاہ کے لئےMOST WANTED یابہت زیادہ مطلوب’’ اقراری مجرم ‘‘ بن گیا اور ان کے سر کی قیمت دس لاکھ مقرر ہوئی مگر انہوں نے کبھی مداہنت کا مظاہرہ نہ کیا ۔
سوال یہ ہے کہ برہان وادی کا ایک غیر معمولی آہنی کردا رکیسے بنتا چلا گیا۔ یہ اس بربریت کی کرشمہ سازی ہے کہ جوکشمیرمیں لگاتار گزشتہ ستائیس سال سے جاری وساری ہے ۔ نہایت وجیہہ اورخوبصورت22سالہ کشمیری لڑکابرہان کمانڈو وردی پہنے، جدید ہتھیار اٹھائے سوشل میڈیا پرچھاگیا ۔سوشل میڈیاکے ذریعے برہان جوانان کشمیرکو فورسز کی بربریت ،ظلم اور جبرکے خلاف اٹھ کھڑاہونے اور اپناپیدائشی اوربنیادی حق حاصل کرنے کی دعوت حق دیتا رہا ،برہان کوسوشل میڈیاپردیکھ کر وادی کشمیرکاپڑھالکھا نوجوانوں طبقہ کا سوشل میڈیا کا اسیر ہو گیا۔ اس کی تصاویر اور پیغامات سے وادی کے نوجوانوں کا جذبہ بڑھتا چلا گیا اورکھاتے پیتے گھرانوں کے تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے کشمیرکاز کا حصہ بننے لگے ۔ ڈگریاں تھامے نوجوانوں کا بندوق اٹھانااور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کاعسکری محاذپر نئی صف بندی کرتے ہوئے تحریک کی جڑوں کومضبوط بنانا اورا س راہ میں اپنالہوپیش کر نا ، ایک تحقیق طلب حقیقت ہے مگر دلی کے شہسوار اس بارے میں شترمرغ کی چال چلنے کے عادی ہیں۔برہان کی زندگی سے زیادہ ان کا دم ِ واپسیں دلی کے حکمرانوں کے لئے چشم کشادعوت فکر ہے کہ وہ اہل کشمیر کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر نے میں تاخیر کر کے نہ اپنا اور نہ ریاستی عوام کا بھلا کر رہے ہیں ۔اصل درد کو سمجھنے کی بجائے ان کی طرف سے پیلٹ اور پاوا کا بے دریغ استعمال دلی اوربار بار سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پرپابندی عائدکر نا بچگانہ سوچ ۔ان کے لئے یہ بات بھی چشم کشا ہے کہ اپریل 2015کو بھارتی فوج نے برہان کے بڑے بھائی خالدمظفر کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا ، تو کیابھائی کی شہادت پر برہان کے ہمالیائی عزم کومتزلزل کر سکی بلکہ ناقابل تردید سچ یہ ہے اس دردناک المیہ نے انہیں اپنی منتخب راہ کی صداقت کا قائل کیا ۔برہان کواس امرکایقین تھاکہ جس راہ پروہ گامزن ہے اس راہ پی گامزن ہوتے ہوئے ایک دن ضرور ایک سنسناتی گولی ان کے مادی وجود کرچی کرچی کر سکتی ہے ،اس لئے وہ اس عجلت میں تھے کہ وہ عسکری محاذ پرنئی صف بندی کے منصوبے کی تکمیل کریں تاکہ ان کے ما بعد دوسرے برہان بھی اپنے حق کے حصول کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ اپنے منصوبے میں کہاں تک کامیاب رہے ، وہ گزشتہ ایک سال سے روز مرہ جھڑپیں، عوامی احتجاج و مظاہرے ، حقوق البشر کی پامالیوں میں روز افزوں اضافہ ، نوے جیسے کریک ڈاؤنوں کی واپسی، نئے نئے فورسز کیمپوں کا نمودار ہونا اور سید صلاح الدین کو مودی کی فرمائش پر امر یکہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دینے والی کی جگ ہنسائی سے اظہر من الشمس ہوتا ہے ۔کشمیرکی تاریخ اس حقیقت پرشاہدوگواہ ہے کہ1990سے لے کر آج تک سر فروشوں اور فورسز کے مابین بڑے بڑے معرکہ ہوئے ،سردھڑکی بازی لگاکر عساکر نے تن تنہا کئی کئی روزتک بے جگری سے لڑا بھی لیکن برہان کی مثالی قیادت سے قربانی تک کشمیر میں جود استان بنی اور جس کی صدائے باز گشت آج بھی سنی جارہی ہے ،اس پرمختصرالفاظ میں بس یہی کہاجاسکتاہے ع
ایں سعادت بزور بازو نیست