جموں//اگرچہ برمی مسلم پناہ گزین جموںمیں حکومت ہند اور اقوام متحدہ کی باضابطہ اجازت سے مقیم ہیں لیکن ان کی سکونت پر اب سوال اٹھائے جانے لگے ہیں ۔وشو ہندو پریشد اور اس کے بعد جموں چیمبرس کی طرف سے برمی مسلمانوں کی مخالفت کئے جانے کے بعد ان پناہ گزینوں میں احساس عدم تحفظ کااحساس پایا جانے لگا ہے جو پہلے سے ہی برما کی ظالم فوج اور حکومت کے ستائے ہوئے ہیں ۔جموں میں رہ رہے ان پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ ڈھائی ہزار ہے جو مختلف علاقوں میں کرایہ کے مکانوں اور عارضی جھگیوں میںپچھلے کئی سال سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور یہیں پر محنت مزدوری کرکے اپناگزر بسر کرتے ہیں۔ان پناہ گزینوں کو ہندوستان میں رہنے کیلئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور حکومت ہند کی طرف سے اجازت دی گئی ہے جس کیلئے انہیں ایک کارڈجاری ہواہے ۔یہ کارڈسم کارڈ کی مانند ہے جس کو کمپیوٹر ریڈ کئے جانے سے پناہ گزین شہری کے بارے میںساری تفصیل سامنے آجاتی ہے ۔یہ کارڈ مہاجرین کیلئے ہی مخصوص ہے جو انہیں دہلی سے جاری ہواہے ۔ایک مہاجر شہری شفیق الاسلام نے کشمیرعظمیٰ سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ انہیں یہ کارڈ پوری تحقیقات کے بعد جاری کئے جاتے ہیں اور ان کے کارڈ کی مدت 2017تک ہے جس کے بعد اگر انہیں ہندوستان میں رہناہے تو اس کارڈ کی معیاد بڑھانی پڑے گی ۔شفیق الاسلام کے مطابق کارڈ کی ہر دو تین سال کے بعد معیاد بڑھانی پڑتی ہے ۔شفیق الاسلام کو بھارت میں آئے ہوئے 9 سال ہوگئے ہیں اور وہ تبھی سے جموں آکر بس گئے ۔ان کے ایک دوسرے ساتھی شفیع العالم کاکہناہے کہ وہ پچھلے نو سال سے یہاں رہ رہے ہیں اور کبھی کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں آئی ، ان کی جھگیاں بھی جل گئیں لیکن جموں کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سامنے آکر مدد کی اور یہ احساس نہیں ہونے دیاکہ وہ دیار غیر میں بس رہے ہیں ۔شفیع العالم کے مطابق ان کو جاری ہوئے کارڈ میں لکھاہواہے کہ وہ ہندوستان کے اندر کہیں بھی کام کاج کرسکتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔رفیق نامی مہاجر شہری کاکہناہے کہ انہوںنے ایسے وقت میں اپناآبائی مسکن چھوڑ دیا جب وہاں ظلم کی انتہاتھی ۔انہوںنے کہاکہ وہ برما میں پیدائش سے ہی یہ ظلم دیکھ رہے ہیںاوربرمی مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ باپ دادا کے زمانے سے شروع ہواہے ۔رفیق کاکہناتھا کہ آج پھر سے برمامیں ایسے ہی حالات بنے ہوئے ہیں جس کو دیکھتے ہوئے بہت بڑی تعداد میں مہاجرین بن رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 40لاکھ مسلمان اقلیت برما چھوڑ کر جاچکی ہے اور اس وقت اس ملک میں دس سے بارہ لاکھ مسلم آباد ی ہی رہائش پذیر ہے جورخائن ریاست میں رہتی ہے لیکن مظالم کا سلسلہ رکنے کے بجائے مزید تیز ہوگیاہے اور حالیہ دنوں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی ہے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے ۔شفیع العالم نے بھی ایسے تباہ کن مناظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے ہیں ۔ انہوںنے بتایاکہ چچازاد بھائی کو ان کے سامنے فوجیوں نے مسلمان ہونے کے جرم میں مار دیا۔