میانمار میں بدھ مت کے راہب ا خلاق ا ورانسانیت سے کس قدر تہی دامن ہوکرسفلیت کے سمندرمیں ڈوب چکے ہیں ، اس کے ثبوت میں متعدد سنسنی خیزواقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے لیکن طولت سے بچتے ہو ئے صرف ایک واقعہ کا ذکر چشم کشا ہوگا۔بی بی سی اردو سروس کے مطابق ’’سنہ 2013 میں رنگون کے شمال میں واقع اوکن میں ایک مسلمان لڑکی کی سائیکل (حادثاتی طور) ایک بدھ راہب سے ٹکرا گئی ۔ اس کے بعد سخت گیر بدھوں نے مساجد پر حملے کر دئے، تقریبا 70؍ گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور نو دیگر زخمی ہوگئے۔‘‘اس واقعہ سے یہ بات الم نشرح ہو جا تی ہے کہ بدھ راہب معمولی سی بات پر مشتعل ہو کر مسلم اقلیت کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پتہ نہیں ان راہبوں کو بدھ مت کے بانی گوتم بدھ سے منسوب ایسے سینکڑوں قصے از بر بھی ہیں جن میں دوسروں کے تئیں کرم فرمائی ، مہربانی اور قوتِ برداشت کے قصیدے موجودہیں ۔ایسا ہی ایک قابل ذکر قصہ یہ ہے کہ ایک روز گوتم بدھ پیڑ کے سائے میں اپنی تعلیمات کا پرچار کررہے تھے ۔ ایک شخص نے جو بدھ مت کا سخت مخالف تھا، نے بہت سارے بدوھ پیروکاروں کے سامنے ان کے اوتار کے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔گوتم بدھ نے خندہ روئی کے ساتھ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا صبرو ثبات کے ساتھ سے پوچھا کیا آپ اس کے علاوہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں؟آپ کے من میں جو کچھ آئے کر ڈالئے۔اس شخص نے گوتم بدھ کا یہ مہان رویہ دیکھا تو حیران رہ گیا۔ وہ رات بھر اپنی بدسلوکی پر نادم ہو کر سو ہی نہ پایا۔ اگلے دن جب وہ اپنی غلطی کی تلافی کرنے کے لئے گوتم سے معافی کا خواستگوار ہوا تو اوتار بدھا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں وہی شخص نہیں ہوں جس کے ساتھ تم نے کل نازیبا سلوک کیا تھا،کل سے گنگاکاکا فی پانی بہہ چکا ہے اوربہتا ہی چلا جارہا ہے ،اس کے بہاؤ سے ہر روز ایک نیا دریائے گنگا ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ہر فرد بشرکا دریا ئے حیات گنگا کی مانند رواں دواںہے ۔اس لحاظ سے جس شخص کے ساتھ تم نے کل بدتمیزی کی تھی ، وہ اب تمہارے سامنے نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ اسی کے روپ میں کسی دوسرے شخص نے لے لی ہے اور اسی طرح تم بھی وہی آدمی نہیں ہو جو کل میرے پاس آیا تھا۔اس لئے کل جو کچھ ہوا اُسے بھول جاؤ ۔چلو ہم کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ‘‘ خود ہی انصاف کیجئے کہ اگر گوتم بدھ روہنگیا کے خلاف بودھ بھکشوؤں کی خون ریزی دیکھیں گے تو کیا وہ انہیں اپنے پیروکار مانیں گے َ اس لئے دلائی لامہ کا یہ کہنا دُرست ہے گوتم بدھ روہنگیا کے ساتھ ہیں ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ برما کی فوج ،عام بلوائی اور شدت پسند بودھ مسلح گروہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر سے اسی عظیم بدھا کی’’ آتما کو شانتی‘‘ پہنچانے کا زعم باطل رکھتے ہیںجن سے انسانیت کے مصائب و آلام اور دکھ درد نہ دیکھا گیا کہ شہزادگی کو تج کر بن باس کی راہ لی تاکہ دکھ سے نروان (نجات) کی راہ پاسکیں، آج خود کواسی بدھا سے منسوب کر نے والوں کی ایک خون خوار برمی اکثریت اپنے پہلو میں رہنے والے بے یارو مددگارانسانوں کو دُکھ ،افسوس ،ا نتقام اوربے گناہی کی سولی پر چڑھا کر انہیں ہزار ہا قسم کی تکالیف و مشکلات سے دوچار کر ر ہے ہیں، یہ طرزعمل اَہنسا واد کا منہ چڑا رہاہے اور بتا رہاہے کہ گوتم بدھ کو خود اپنے نام نہاد پیروکار نکار رہے ہیں ۔
مہیب تصویر کا ایک اور رُخ دیکھئے ۔ جو بے یارو یاوربرمی مسلمان وسیع وعریض مقتل سے کسی طرح اپنی جانیں بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے، وہ بھی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں موت سے بدتر زندگی گزاررہے ہیں، ان کا کوئی در ٹھکانہ نہیں، بچارے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، دنیا میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، کہیں یہ موسم کی نامہربانی کی نذر ہورہے ہیں ، کہیں بھوک اور بیماری انہیں اپنے تنگ گھیرے میں لے رہی ہے ، کہیں بنگلہ دیشی اور دوسرے ہمسایہ ممالک کی دُھتکار سے یہ کم نصیب بے موت مر رہے ہیں ، کہیں یہ جنگلوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں، کچھ ایک سمندروں کا نوالہ بن رہے ہیں ۔ جو لٹے پٹے لوگ بنگلہ دیش میں جوں توں پناہ گزیں ہو چکے ہیں، ان کی حالت غریب الوطنی میں ناگفتہ بہ ہے انہیں ننھے منے معصوم بچوں سمیت بھوکے پیٹوں کھلے آسمان تلے میں سونا پڑ رہا ہے، فاقوں پر فاقے سے وہ نڈھال ہورہے ہیں اور جو امداد ان تک پہنچائی جا رہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برا ہے ۔ بنگلہ دیش جیسے غریب ملک کی تو بات ہی نہیں اس کثیر تعداد میں تارکین ِوطن کو ہنگامی بنیادوں پر سنبھال پانا کسی ترقی یافتہ ملک کے لئے بھی ایک بڑا چلینج ہوتا ہے ۔
افسوس صدافسوس ! بے گھر ہوئے مظلوم روہنگیا ئی مسلمانوں کے تئیں عالمی برادری کی سرد مہری کا رویہ بھی دیدنی ہے۔ اس انسانی المیہ کو ایک مخصوص قوم و ملت کے کھاتے میں ڈال کر عالم ِانسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس بڑی ٹریجڈی پر عرب و عجم کی امت مسلمہ کی بے حسی پر جتنا ماتم کیا جائے اتنا کم ہے۔ بایں ہمہ اس قسم کے اندوہ ناک انسانی المیے سارے عالم بشریت سے بلا لحاظ ِ مشرب و مذہب ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں۔عالمی برادری کی خاموشی اس ناروا خامشی سے صاف ہو رہا ہے کہ یاتو انسانیت کی اب کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے یا یہ سار ا کچھ کوئی عالمی گیم پلان ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل انٹونیو گوئیڑز نے رسم ِ دنیا کے طور روہنگیا کی مظلومیت اور مصیبت پر خالی یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ میانمار میں ایک نسل کامکمل صفایا کئے جانے کا خطرہ ہے ۔انہوں نے ملک کی عوامی رہنما آن سانگ سوچی اور سیکورٹی اداروں سے خشک اپیل کی کہ وہ تشدد کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریںمگر فوج ، مذہبی انتہاء پسند قوتیں رہنگیائی مسلمانوں پر روا رکھی گئی ایذاء رسانیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ کے یہ نازک الفاظ اور نرم وملائم لہجہ کسی آدم خور بلا کو وعظ و نصیحت سے رام کرنے کی نامراد کوشش ہی قرار پاتی ہے۔
برما میں مسلمانوں کا نسلی صفایا کر نے اور مار بھگانے کی یہ آفت ِناگہانی ایک خاص مذہب کی ایک مخصوص خطۂ زمین پر بالا دستی کے جنون پر دلالت کر تی ہے۔ اسی لئے ہری بھری انسانی بستیاں تہ و بالا کی جا رہی ہیںاور انسان زندہ چبائے جارہے ہیں ۔ واضح طور پر یہ مجنونانہ بالا دستی ایک نسل اور ایک مذہب کے ماننے والوں کا وجود مٹانے سے مشروط ہے۔ عالمی برادری کا رویہ بھی غور طلب ہے کہ یہ نہایت ہی سکون کے ساتھ اس قتل ِ عام کو دیکھ کر اُف تک نہیں کر رہی ہے ۔ شاید وجہ یہ ہے کہ عالمی غنڈے ظلم و جور کی گھٹائیں جن غریبوں پر چھارہی ہیں ،ان کے ساتھ عالمی وڈیروں کو نسلی،مذہبی، اعتقادی،قومی اور لسانی اعتبار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔لہٰذا وہ روہنگیا کی ہلاکت و تباہی کی فکر میں اپنا سر کیوں کھپائیں۔جب انسانیت اس قدر نفرتوں اور من وتُوکے الگ الگ خانوں میں بٹ جائے اور مشترکہ درد و غم بھی بے دردی کے ساتھ نظر ا نداز کرنا قومی مفاد ٹھہر ے تو ایسے میں ہر ہمدرد انسان حکیم الامت علامہ اقبالؔ کی طرح کسی ایسی ہستی کے آنے کی آس کیوں نہ لگائے جو آکر پھر سے انسان کو انسانیت کا درس سکھائے ؎
اے سوارِ اشہب دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ ٔامکاں بیا
خیز و قانونِ اخوت ساز
دہ جامِ صہبائے محبت باز
دہ باز در عالم بیار ایّامِ صلح
جنگجویاں را بدہ پیغامِ صلح
اے وقت کی سواری کے شہسوار ! اے عالم ِممکنات کی آنکھوں کے نورآجا!
اُٹھ اور دنیا میںالفت اور بھائی چارہ کے اصولوں کو پھر زندہ کردے۔ محبت کی مے سے لبالب ساغر کو پھر سے گردش میں لا ۔دنیا میں امن و آشتی اور صلح کے وہ دن پھر سے لوٹا دے اور جنگ پسند طبائع کو امن کا درس سکھا دے۔
الوداع اے مظلومانِ روہنگیا! اللہ کریم ہی تمہاراحامی وناصر ہو۔ ( ختم شد)
email: [email protected]
cell: 9596465551