مفروضوں کی بنیاد پر لاکھوں مسلمانوں کو خاک و خوں میں نہلا دیا گیا، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جی ہاں! برما میں بچگانہ مفروضوں اور احمقانہ فلسفے کی بنیادپر 5 ؍لاکھ مسلمانوں کو دربدر کر دیا گیا،ان سے قومی شناخت چھین لی گئی ہے۔ وہ بے وطن، بے آسرا اور مظلوم کھلے عالمی سمندروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ ان کیلئے کوئی ساحل ِ امید نہیں ہے۔ برما کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر ہر درد دل رکھنے والا انسان تڑپ رہا ہے ،جب مفلوک الحال برمی مسلمانوں کی کشتیاں عالمی ساحلوں پر اپنے لئے جائے پناہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں تو ایسے میں بڑے سے بڑے سنگ دل بھی لرز جاتے ہیں۔ برما کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کا نسلی اور مذہبی پس منظر کیا ہے؟ ان سب نازک اور حساس پہلوؤں کا احاطہ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے 2013ء میں کردیا تھا، جس میں بعض نئے اور چونکا دینے والے پہلو بھی سامنے آئے تھے۔ جدید دنیا کے انسانیت سوز خونیں بحران کے پس پردہ بعض ہندسے اور اعداد بھی کارفرما رہے ہیں ،جنہوں نے روہنگیا مسلم۔بدھ انسانیت کش بحران میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان عام طور پر اپنے گھروں یا دکانوں پر 786 ؍لکھتے ہیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی سے بدھ مت کے پیروکاروں میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ 786 کے ہندسوں کو جمع کیا جائے تو 21 بنتا ہے۔ بدھوں میں یہ باطل فلسفہ راسخ کیا گیا کہ یہ مسلمانوں کا خفیہ کوڈ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں شرح پیدائش میں اضافہ کرکے میانمار کو مسلم اکثریتی ملک بنانا ہے۔ اس لئے اب 786 کا ہندسہ میانمار کی اکثریتی بدھ آبادی کیلئے ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ بدھ مت کے جنونی پیروکاروں نے اس کے مقابلے میں 969 کا ہندسہ عام کردیا جو ان کے مطابق گوتم بدھ کے بتائے ہوئے اصولِ حیات کی تعداد اور ان کے ساتھ مذہبی وابستگی کا نمائندہ ہندسہ ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک برمی عالم شعیب دین نے 1938ء میں اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ 21 ویں صدی میں میانمار میں مسلمان غالب ہوں گے۔ مسلمان کی آبادی سے بدھوں کو خدشہ ہے کہ وہ میانمار پر قابض ہوجائیں گے۔ صوبہ اراکان کے تین شہر بوتی ٹانگ، میڈاؤ اور پیتیڈ رنگ میں روہنگیا 38 فیصد تھے اور خدشات ظاہر کئے گئے وہ ان شہروں پر قبضہ کرکے اپنی اسلامی ریاست قائم کرلیں گے۔ اس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کسی نے یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ زائل کرنے کیلئے سمجھانے اور بتانے کی کوشش نہیں کی کہ مسلمان مذہبی معاملات میں ہجری تقویم استعمال کرتے ہیں، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے 21 ویں عیسوی صدی کے حوالے سے میانمار کے قبضے کی کوئی خفیہ منصوبہ بندی کی ہو۔ عملی حقائق بھی اس کے برعکس ہیں کیونکہ اب تک مسلمانوں کی آبادی میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 786 کا ہندسہ بھارت اور دیگر علاقوں میں ابتدائی ادوار میں مسلمانوں نے اس لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا تاکہ کھانے پینے کے اشیاء کے حلال و حرام کی نشاندہی ہو۔ اسے مسلمانوں کی نسل کشی کی بنیاد بنالیا گیا اور گوتم بدھ کی امن آشتی اور پیار محبت کی تعلیمات کو چھوڑ کر روہنگیا مسلمانوں کو لہو کے سمندروں اور مشکلات کے پہاڑوں سے دوچار کیا گیا ہے ۔ا قوام متحدہ نے اسے منظم نسل کشی قرار دیا ہے۔ یہ صرف ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق پہلے مسلمان رہنما ہیں جو بنگلہ دیش’’ کاکس بازار‘‘ روہنگیا پناہ گزینوں کی حالتِ زار دیکھنے پہنچے جب کہ ترک صدر اردگان نے اپنی اہلیہ کو برما کے مظلوم بہن بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے کاکس بازار بھجوایا۔ اسی طرح ایرانی قیادت نے عالمی سطح پر اپنے روہنگیا مظلوم بھائیوں کیلئے آواز بلند کی ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے یہ انکشاف بھی کیا ہے میانمار کے غیر روہنگیا، چینی النسل مسلمان بھی اپنے کلمہ گو بھائیوں کے حق میں ڈر کے مارے آواز بلند نہیں کرتے۔ منڈالے میں ان چینی النسل مسلمانوں‘ پنتھے (Panthay) قبیلے کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ تعلیم یافتہ اور امیر کبیر تاجر ہیں۔ یہ میانمار کے مکمل شہری ہیں، ان کی شاندار مساجد کے ساتھ کانفرنس ہال بھی ہیں۔ اس بحران میں سب سے اہم مصالحانہ کردار برمی حکومت کے بعد چین اور بنگلہ دیش کا ہوسکتا ہے اور اس وقت برما عملاً چینی کالونی بن چکا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے میانمار کی رکھائن ریاست میں پرتشدد واقعات کوناقابل قبول قرار دیا تھا، جب کہ چار لاکھ سے زائد مسلمان میانمار میں تشدد کی لہر کے نتیجے میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بنگلہ دیشی لیڈر حسینہ واجد اس انسانی مسئلے پر بھی سیاست کا کھیل کھیل رہی ہے۔ بہر صورت مسلم ہینڈز برطانیہ برما میں گزشتہ 8 سال سے امدای سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میانمار فوج کی ظالمانہ کارروائی کو اگرچہ اقوام متحدہ نسل کشی قرار دے چکی ہے مگر میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے اراکان صوبے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نہ صرف برداشت کر رہی ہے بلکہ اس نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کے الزامات کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔میانمار فوج کے ظلم و ستم کا شکار روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ان کے ہمسائے ہزاروں ہندو بھی ہورہے ہیں،اس اُمید پر اب وہ بنگلہ دیش کا رخ کررہے ہیں کہ بھارت میں مودی کی قوم پرست ہندو حکومت پناہ دے گی۔ بنگلہ دیش کے شمال مشرق میں5 سو ہندو خاندان ایک قصبہ میں مرغیوں کے خالی کردہ فارم میں پناہ لے چکے ہیں۔ یہ علاقہ اس مقام سے چند میل کے فاصلے پر ہے جہاں چار لاکھ اکیس ہزار روہنگیا مسلمان بدترین تشدد سے اپنی جان بچاکر پہنچے ہیں۔ ہندو پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ بدھوں کے مظالم کے خوف سے وہ اپنے گھروں کو برما واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ مسلمان اکثریت کے حامل بنگلہ دیش میں بھی زیادہ دیر نہیں رُکنا چاہتے۔ ایک ہندو پناہ گزین نرجن رودرا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہندوستان کا مطلب ہندوؤں کی سرزمین ہے، اس لئے ہم بھارت جانا چاہتے ہیں، میانمار یا بنگلہ دیش میں نہیں رہنا چاہتے۔ بھارت برمی ہندوؤں بارے بالکل خاموش ہے، بھارت کی سپریم کورٹ چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو نکالنے واپس بھجوانے کے بھارتی وزارت داخلہ کے منصوبہ کے خلاف اپیل کی سماعت کررہی ہے۔ وشوا ہندو پریشد کے انتہاپسند برملا کہہ رہے ہیں کہ میانمار سے آنے والے ہندوؤں کی فطری منزل بھارت ہے۔ بھارتی حکومت ہندو خاندانوں کو داخلے کی اجازت دے، یہ لوگ آخر کہاں جائیں گے؟ یہی ان کا جنم استھان ہے۔ وشواہندو پریشد اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کا لازماً مطالبہ کریں گی کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے ہندو شرنارتھیوں کو بھارت میں پناہ مل جائے۔مودی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے آئے کسی ہندو یا اقلیتی فرد کو غیرقانونی تارک وطن تصور نہ کیاجائے، خواہ ان کے پاس بھارت میں داخل ہونے کی قانونی دستاویزات بھی موجود نہ ہوں۔ سیکولر ہونے کے دعویدار بھارت کیلئے آسان نہیں کہ وہ ایک طرف میانمار کی ہندو آبادی کو شہریت دے اور دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے واپس بھجوا دے۔ اُدھر صدر ٹرمپ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس ضمن میں بھرپور اور فوری کارروائی چاہتے ہیں اور امریکی نائب صدر مائک پینس نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں میانمار کے مسئلہ کو عالمی امن کیلئے خطرہ قررا دیتے ہوئے کہا کہ میانمار فوج سفاکی کا مظاہرہ کررہی ہے ،دیہات جلارہی ہے، روہنگیا کو گھروں سے بے دخل کررہی ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ تشدد روکا جائے۔ امریکی حکومت کی جانب سے یہسخت ترین موقف سامنے آیا جب کہ چین اور روس امکانی طور پر کسی سخت موقف کی حمایت نہیںکررہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کی منظوری کیلئے روس، چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس کے ووٹ درکار ہوں گے۔ میانمار حکومت اپنے خلاف کارروائی سے بچنے کیلئے ویٹو رکھنے والے ممالک چین اور روس سے مذاکرات کررہی ہے۔ میانمار چین کیلئے اسٹرٹیجک اہمیت کا ملک ہے ،جہاں امریکہ کے ساتھ اس کی مخاصمت ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ کہا جاچکا ہے کہ فوجی آمریت کے دور میں جس طرح پابندیاں عائد تھیں، ایسا اقدام میانمار کے معاملے میں نہیں کیا جائے گا۔