سرینگر میں دربار بند ہوئے ابھی چند روز بھی نہیں ہوئے ہیں کہ محکمہ بجلی پوری طرح حرکت میں آگیا ہے اور وادی کے طول و عرض میں بجلی کی سپلائی میںکٹوتی کا عمل اُسی جوش وخروش سے شروع کیا گیا ہے، جو عام طور پر موسم سرما سے مخصوص ہوتا تھا۔ محکمہ اس کےلئے خشک سالی کے بہ سبب دریائوں میں پانی کی سطح میں کمی کو بنیادی وجہ قرار دے رہا ہے، لیکن بہ ایں ہمہ بے ہنگم نوعیت کی کٹوتی نے عام لوگوں کو زبردست پریشانی میں مبتلاء کر دیا ہے، کیونکہ فی الوقت دن میں کئی کئی مرتبہ بجلی کی سپلائی روک دی جاتی ہے اور اس میں میٹر یافتہ اور غیر میٹر یافتہ علاقوں میں کوئی امتیاز نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دریائوں میں پانی کی سطح فی الوقت کم ہے مگر عمومی طور کہ آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں و کشمیرمیں بجلی کا بحران سلجھنے کی بجائے الجھتا ہی جارہا ہے۔ 20ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اس ریاست میں آج بھی سینکڑوں دیہات ایسے ہیںجنہوں نے بیسوی صدی میں بھی بجلی کا منہ نہیں دیکھا اور وہ آج بھی چوب چراغ اور موم بتیاں جلا کر اپنی راتوں کوروشن کرتے ہیںاور اب جہاں بجلی کی سپلائی پہنچائی گئی ہے ،وہاں بھی ترسیلی نظام کاحال انتہائی خراب ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دوسری ریاستوں کو بجلی فراہم کرنے والی ریاست کے لوگ خود اس نعمت سے محروم ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی ارباب حل و عقد ماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ورنہ اگر ایسا ہوتا تو شاید آج وادی میں بجلی کی ایسی ابتر صورتحال نہیں ہوتی۔ میٹر نصب کرکے یہ تاثر دیا گیاتھاکہ میٹر یافتہ علاقوں میں بجلی سپلائی چوبیس گھنٹے جاری رہے گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔محکمہ بجلی کے نزدیک کٹوتی میں مزید اضافہ وادی میں بجلی کی طلب اور سپلائی میں بڑھتی خلیج کو پاٹنے کیلئے کیاجاتا ہے۔لیکن صورتحال ہر سال یہی ہوتی ہے اور اسے پاٹنے کبھی کوشش نہیں کی جاتی ۔ گزشتہ برس یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وادی میں دستیاب بجلی نظام کی اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ 1200میگاواٹ سے زیادہ بجلی کا لوڈ برداشت کرسکے جبکہ طلب1650میگاواٹ ہے تو کیا حکومت سے پوچھا جاسکتا ہے کہ بجلی کے ڈھانچے کے فروغ کیلئے مرکزی حکومت سے اربوں روپے لیکر کون سا تیر مارلیاگیا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر وادی میں 1650میگاواٹ کی طلب ہے تو بجلی کا ڈھانچہ ایسا میسر ہونا چاہئے تھا جو2000میگاواٹ تک لوڈ برداشت کرپاتا تاہم افسوس کا مقام ہے کہ بجلی کے شعبہ میں انقلاب لانے کے دعویٰ کرنے والی ریاستی حکومتوں نے بجلی کے ڈھانچہ کو طلب تک سے ہم آہنگ نہیں کیا ہے۔ انتظامی مشینری کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ بجلی فراہم کرکے صارفین پر کوئی احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تمام ضروری سہولیات دستیاب رکھے۔حکومت وادی میں بجلی بحران کیلئے سندھ طاس آبی معاہدہ کو ذمہ دار ٹھہرائے یا نیشنل ہائیڈروالیکٹرک پاور کارپوریشن کی سینہ زوری کا رونا روئے ،صارفین کا اس میں کوئی رول نہیں بنتا ہے کیونکہ یہ ’’رموزِ مملکتِ خویش خسرواں داند‘‘والا معاملہ ہے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ صارفین کو حسب ایگریمنٹ بجلی فراہم ہونی چاہئے تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسا نہیں ہورہا ہے بلکہ سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی کٹوتی شروع ہوتی ہے اور آگے چل کر کیا حال ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ایک ایسے وقت جب این ایچ پی سی بجلی پروجیکٹ ریاست کو یہ کہہ کر منتقل کرنے سے صاف انکاری ہے کہ بھارت ایک خودمختار ملک ہے اور جموں و کشمیر اس ملک کا حصہ ہے ،لہٰذا بھارت سرکار کی زیر انگرانی کارپوریشن جموں و کشمیر سمیت کسی بھی ریاست میں بجلی پروجیکٹ تعمیر کرسکتی ہے اور ان کی ریاستی سرکار کو منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ،ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت سے سندھ طاس آبی معاہدہ سے ریاست کو ہورہے نقصان کی بھرپائی کی امید رکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا۔جب فلائی اووروں کی تعمیر کیلئے ایشین ڈیولپمنٹ بنک ریاستی حکومت کی مالی اعانت کرسکتا ہے توبجلی پروجیکٹوں کی تعمیر کیلئے ایسے ہی آپشن تلاش کیوں نہیں کئے جارہے ہیں۔بغلیہار پروجیکٹ کے دونوں مراحل کی کامیاب تکمیل ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔مرکز پر تکیہ کرنے اور بجلی کی ابتری کیلئے کبھی این ایچ پی سی تو کبھی سندھ طاس معاہدہ جیسے بہانے تراشنے کی بجائے ریاستی حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی سبیل پیدا کرنا ہوگی کیونکہ صارفین ،جو میٹر یا ایگریمنٹ کے تحت باضابطہ فیس اداکررہے ہیں ،ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں بوقت ضرورت وافر مقدار میں بجلی فراہم کی جائے۔سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے اور ان ایام سے زیادہ صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت کب پڑ سکتی ہے۔لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا نزلہ عوام پر گرانے کی بجائے اس سنگین مسئلہ کا کوئی مستقل حل تلاش کرے تاکہ صارفین کو باربار بجلی کی عدم دستیابی کو لیکر سڑکوں پر آکر احتجاج نہ کرنا پڑے۔