آج نم ناک آنکھوں کے ساتھ مٹھائی کا ڈبہ اور آٹھ دس چاکلیٹ پڑوس کے اس چنچل ،شرارتی اور حاضرِ جواب بچے کے ہاتھ میں دے کر آ رہا ہوں جس نے پچھلے سال تک میرا جینا حرام کر رکھا تھا۔ٍمیری چھوٹی سی دنیا میں مجھے اگر کوئی قابلِ نفرین لگتا تھا تو صرف وہی آٹھ نو سال کا بچہ تھاجس کی حرکتیں میرے لئے جی کا جنجال بن چکی تھی۔ایسا معلوم ہوتا جیسے اُسے مجھے زچ کر نے کے پیسے ملتے ہو۔
موسم گرما کی تپتی ہوئی دھوپ میں جب میںدفتر سے واپس آتا تو پنکھا چلا کر پلنگ پر کچھ دیر آرام کرنے کے لئے لیٹ جاتالیکن میری بد قسمتی کہ یہی وہ وقت ہوتا جب وہ محلے کے تمام بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتا۔ جونہی میری آنکھ لگتی تو باہر سے متواتر چیخیں ،سیٹیاں اور طرح طرح کی آواز یں سنائی دینے لگتیں جو میرے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا تھا لیکن مجھے چپ چاپ لہو کے گھونٹ پینے پڑتے کیوں کہ وہ میری ماں کا لاڈلا جو ٹھہرا۔ اس کے اس شوق کی وجہ سے ہمارے گھر سمیت پورے محلے کے نہ جانے کتنے گھروں کے شیشے چور ہو ئے تھے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب اس شریر بچے نے مجھے میرے ابا کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ نوکری مل جانے کی خوشی میں دوست گھر پر دعوت کے لئے آئے تھے اور میرے کمرے کے پلنگ پر براجمان تھے۔میں نے اماں سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ کسی بھی صورت میں ان کا لاڈلا ارسلان میرے کمرے کے آس پاس نظر نہیں آنا چاہیے ۔ چنانچہ اماں نے میری بات کا مان رکھ لیا اور میرے دوستوں کے سامنے میری عزت بنی رہی، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ میرا کیا حال کروانے والا ہے۔میں دوستوں کو دروازے تک چھوڑ نے گیا اور ہنستے مسکراتے اپنے کمرے میں واپس آرہا تھا۔ دیکھا کہ وہ سگریٹ ہاتھ میں لئے اپنی بڑی بڑی کانچ نما آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہاہے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ اپنے ہونٹوں پر مکارانہ تبسم سجا کر کہنے لگا’’بھیا چینو! آج تو تو گیا۔‘‘ بوکھلاہٹ میں مجھے سوجھی کہ اسے جی بھر کر گالیاں دوں مگر پھر سوچا کہ چلو پیار سے سمجھا کر دیکھتا ہوں۔میں سوچ سمجھ کر شیرین الفاظ جمع کر نے کی کوشش کرنے لگا مگر یہ میرے لئے ناممکن تھا ۔میرے اور اس کے درمیاں رشتہ ہی کچھ ایسا تھا کہ اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھنا یا بات کرنا میرے لئے محال تھا۔ میں ذرا نرمی سے کہنے لگا" دیکھ ارسو!۔۔۔تو تو بڑا پیارا بچہ ہے۔۔۔ایسی چیزیں بچے ہاتھ میں نہیں لیتے…اسے نیچے رکھ ۔‘‘میں نے بات ابھی مکمل بھی نہ کی اور وہ دوڑ کر میرے ابا کے پاس چلا گیا۔ "برخوردار! جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے آپ کو نوکری کرتے ہوئے اور اتنے ہی وقت میں بڑے مردانہ شوق پالنے لگے ہیں آپ ۔۔۔‘ ‘ میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑنے لگے ۔ ابا لکھنے پڑنے کاشوق رکھتے ہیں اورغصے سے لال پیلا ہو کر انہوں نے اپنے ادبی لہجے میں مجھے اس قدر ذلیل کیا کہ ایک ہفتے تک شرمندگی کی وجہ سے میں نے انہیں اپنا منہ نہ دکھایا۔ بھلا اب میں انہیں کیسے سمجھتا کہ وہ میری نہیں میرے دوست کی سگریٹ تھی۔
بارش ہونے پر ہمارے صحن سے میرا پسندیدہ چھاتا اٹھا لے جا کر پورے محلے میں گھماتا اور چھاتا دکھا دکھا کر مجھے چڑھاتا۔برفیلا موسم اس کی شرارتوں میں مزید اضافہ کر دیتا۔ محلے والوں میں میرے علاوہ ایک اور عورت، جس کو ہم پیار سے نوشی موسی بلاتے ،اس کی حرکتوں سے بیزار تھی، وہ انہیںاکثر موٹی موٹی کہہ کر چڑھاتا اور نئے نئے طریقوں سے پریشان کرتا۔پچھلے سال تو اس نے حد کر دی۔ نوشی موسی کے گیٹ کے باہر زمین پر پڑی برف کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اس طرح تیار کیا جا رہاتھا کہ چلنے والا کسی نہ کسی صورت پھسلے ہی پھسلے۔ یقیناً ارسلان کے دوست یہ سب اسی کے اشارے پر کر رہے تھے۔میں کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہاتھا کہ مجھے نوشی موسی اپنے آنگن میں چپل پہنتے ہوئے نظر آئی۔ مجھے ان کی شدید فکر لاحق ہوئی اور میں دوڑتے ہوئے انہیں روکنے جا پہنچا توارسلان قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگا "ارے یہ دیکھو! چینو آیا ہے چینو!۔۔۔ مجھے بتاؤ کوئی ۔۔۔چینو بھی کیا کوئی نام ہوتا ہے؟"
"چپ ہو جا بدمعاش بچے… یہ میری ماں مجھے پیار سے کہتی ہیں… چل دفع ہو جا یہاں سے۔۔۔‘‘میں اسے بھگاتے ہوئے کہنے لگا۔ اتنے میں ہی نوشی موسی گیٹ سے باہر آئی۔ میں انہیں روکنے کے لئے عجلت میں آگے بڑا تو انہیں بچانے کے چکر میں، میں ارسلان کے تعمیر کردہ منصوبے کا شکار ہو گیا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ دو تین مہینے فریکچر کا علاج ہوتا رہا اور نوکری سے تین مہینے کی لمبی چھٹی لے کر مجھے گھر بیٹھنا پڑا۔ اس حادثے کا بدلہ لینے کی چاہت دل میں جاگ اٹھی اور میں اس کے پسندیدہ کارنامے پر پانی پھیرنے کاارادہ کرنے لگا۔
میںاپنے پلنگ پر پڑا ہواایک زخمی شیر کی طرح جنگ کی ممکنہ طور پر تیاری کر چکا تھا۔ اس نے حسبِ معمول برف کا پتلا اپنے آنگن میں بنایااور اس کے بعد میرے جیسے کپڑے پہنا کر اس کے پیٹ پر لکھ دیا ’’آئی ایم چینو ۔‘‘ صاف و شفاف سفید برف کے پتلے کی آنکھوں میں کوئلے کے گول گول ٹکڑے ٹھونس ٹھونس کر پتلیاں بنادیں۔یقینا اس پتلے کی مجھ سے مماثلت سراسر بے وقوفی تھی اور یہ کام صرف کوئی بچہ ہی کر سکتا تھا۔’’ میرے جیسے کپڑے پہنانے سے وہ تھوڑی نہ میرے جیسا بن جائے گااور اس کی آنکھیں تو بالکل پھوٹی ہوئی لگ رہی تھیں جبکہ میری آنکھیں تو خوبصورت ہیں ۔ ‘‘میں خود کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے ساتھ بڑ بڑایا۔
میدان صاف تھا اور ہتھیار بھی تیار تھے۔ جونہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ لڈوکھانے میں مصروف ہوا تو میں نے موقع غنیمت جان کر اس کے بنائے ہوئے برف کے پتلے کو چھوٹے چھو ٹے نوکیلے پتھروں سے مسمارکر دیا۔وہ زار و قطار رونے لگا مگر میں ٹس سے مس نہ ہوا۔
ابا اکثر کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں زندگیاںحادثات کا مجموعہ ہیںمگر یہ جذباتی گفتگو میرے پلے کبھی نہ پڑ سکی۔شاید اس لئے کہ میں نے دنیاکی ڈراونی حقیقت صرف اخباروں میں پڑھی اور نیوزچینلوںپر دیکھی تھی۔ اس سے زیادہ نہ میں نے جاننے کی زحمت کی اور نہ مجھ سے کبھی سوچا گیا۔سوچا اس لئے نہیں گیا کہ اب تک میرا ذہن اپنے ذاتی مقاصد کے حصار میں تھایا شاید اس لئے کہ کوئی بھی حادثہ آنکھوں دیکھا نہ تھالیکن ایک دن ایسا آیاجب میرے دل نے بھی کسی کے درد کو محسوس کیا، میری آنکھیں بھی کسی کے غم میں برس پڑیں اورمیرا ذہن بھی اپنے ذاتی حصارات سے باہر نکل کر سوچنے پر مجبور ہو گیا ۔ یہ وہ پل تھا جب افرا تفری کے دوران میں نے سڑک کے کنارے لہو میں لت پت ایک بچے کو منہ کے بل گرا ہوا پایا۔اُسے اُٹھا کر سینے سے لگا کر جب میں وہاں سے گزرتی ہوئی ایمبیولینس کا تعاقب کرنے لگا توایسا لگ رہا تھا جیسے میں نیوز چینل پر ایک عام سے آدمی کی بے بسی اور لا چاری کا تماشہ دیکھ رہاہوں۔فرق صرف اتنا تھا کہ اِس بار میں اِس انسان کی لاچاریوںکی شدت کو محسوس کر رہاتھا۔بلا آخر اس ایمبیولینس کا دروازہ کھلا اورمیں ہڑ بڑی میں بچے کو لے کر اس میں چڑھ گیا۔اِس بچے کے خون آلودہ چہرے کو غور سے دیکھنے پر میں چونک پڑا۔ یہ تو اپناارسلان تھا، وہی ارسلان جس کی شرارتوں کا میرے حساب سے کوئی ہم پلہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ُُ’’آنکھوں میںپیلٹ لگنے کی وجہ سے یہ بچہ تقریباََ نابینا ہو چکا ہے۔‘‘جب جب میں اُس کا چہرہ دیکھتا ہوںتوڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میرے کانوں میںتب تب گونجتے ہیں اور اِن الفاظ سے پیدا ہونے والا درد میرے دل کو چیر کے رکھ دیتا ہے۔آج پانچ ماہ بعد جب اُس کے پسندیدہ برفیلے موسم نے دستک دی ہے تو اسے دیکھ کر تمام محلے والوں کے دل افسردگی میں ڈوب گئے۔نوشی موسی کا حال بھی بے حال ہے اور سارا محلہ یہ آرزو کر رہا ہے کہ کاش ارسو پھر سے اُن کے گھر کے شیشے توڑنے کے لا ئق ہو جاتا ۔آج میں اُسے اپنی کھڑکی سے دیکھ رہاہوں۔وہ لڈو اور چاکلیٹ کھا تو رہا ہے مگر اب اپنے دوستوں کے ساتھ برف کا پتلا بنا نے میں شرکت کرنے کے قابل نہیں رہا۔وہ اب اس برف کے پتلے کو دیکھنے اور مجھے چڑا نے کے قابل بھی نہیں رہا۔یو ں معلوم ہو رہا ہے جیسے وہ آج سے قبل میرا نہیں بلکہ اپنا پتلا بنا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بالکل اس برف کے پتلے کی طرح بے جان لگ رہی ہے جسے وہ میرے کپڑے پہنایا کرتا تھا۔آج وہ برف پرخاموش کھڑا بذاتِ خود ایک برف کا پتلا لگ رہا ہے۔
طالبہ شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی سرینگر