سبدر شبیر
اندھیری رات میں پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں پر خاموشی طاری تھی لیکن وہ خاموشی ایک خوفناک حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ چمکتی برف کی چادر، جو کبھی ان پہاڑوں کی شان ہوا کرتی تھی، اب چند بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سکڑ چکی تھی۔ دریا جو کبھی شور مچاتا بہتا تھا، اب سکڑ کر ایک پتلی لکیر کی مانند رہ گیا تھا۔ گاؤں کے بچے جو کبھی برف کے گولے بنا کر کھیلتے تھے، اب زمین پر خشک ہوتی مٹی سے تصویریں بنانے پر مجبور تھے۔
رحمت خان، گاؤں کا سب سے عمر رسیدہ شخص، اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چاند کی مدھم روشنی اس کے جھریوں زدہ چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وہ دن گھوم رہے تھے جب اس کے بچپن میں برفانی ہوائیں گاؤں کی گلیوں میں رقص کرتی تھیں اور گلیشیئر پہاڑوں سے بہتے ہوئے چاندنی راتوں میں جھرنوں کی صورت بکھر جاتے تھے۔ وہ دن جب صبح کے وقت ٹھنڈی ہوائیں کھڑکیوں سے اندر آتی تھیں، جب بچے برف پر پھسلتے اور بوڑھے چولہوں کے پاس بیٹھ کر قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
“دادا! برف کب آئے گی؟” اس کے پوتے علی نے
معصومیت سے پوچھا۔
رحمت خان نے ایک گہری آہ بھری اور علی کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ “بیٹا! شاید اب کبھی نہیں۔”
“کیوں؟” علی کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔
“کیونکہ ہم نے زمین کو گرم کر دیا ہے، ہم نے درخت کاٹ دیئے، دھواں اُگلنے والی مشینیں چلا دیں اور پانی کو زہر آلود کر دیا۔” رحمت خان کی آواز دکھ سے بوجھل تھی۔
علی نے اِدھر اُدھر دیکھا، پہاڑ ویران ہو چکے تھے، دریا کی سطح خشک ہو رہی تھی اور گاؤں کے لوگ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے تھے۔ اس نے اپنی ماں کو پانی کے برتن میں آخری چند قطرے انڈیلتے دیکھا، اس نے اپنے باپ کو کھیتوں کی خشک مٹی کو ہاتھوں میں مسلتے دیکھا۔
اچانک، پہاڑ کی چوٹی سے ایک گونج سنائی دی۔ گرتی ہوئی برف کی آخری تہہ! رحمت خان اٹھ کھڑا ہوا، اس کی آنکھوں میں ایک ناقابلِ بیان کرب تھا۔ علی نے بھی دیکھا، ایک بڑا برفانی تودہ پہاڑ سے نیچے لڑھک رہا تھا، جیسے قدرت نے اپنا آخری آنسو بہا دیا ہو۔
“دادا! ہم کیا کریں گے اگر برف ختم ہو گئی؟” علی کی آواز میں خوف تھا۔
رحمت خان نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کسی غیبی مدد کی دعا کر رہا ہو۔ پھر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور ایک مُٹھی مٹی اٹھا کر علی کے ہاتھ میں دی۔
“اگر تم چاہتے ہو کہ برف واپس آئے، تو اس مٹی کا حق ادا کرو، درخت لگاؤ، پانی بچاؤ، زمین کو سانس لینے دو!”
علی نے مضبوطی سے مٹی کو مُٹھی میں دبا لیا، جیسے اس نے کوئی مقدس امانت سنبھال لی ہو۔
دور کہیں آسمان پر ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا، شاید اُمید کی آخری کرن ابھی باقی تھی۔
���
اوٹو اہربل کولگام
موبائل نمبر؛9797008660