بالآخر لوگوں کی دُعائیں رنگ لائیں اور اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ وادی کشمیر میں طویل خشک سالی کے بعد برفباری نے اُمیدوں کو ایک نئی جِلا بخش دی ہے، کیونکہ مسلسل خشک موسم کے بہ سبب وادی میں مختلف اقسام کی بیماریوں نے نہ صرف عام لوگوں کو بُری طرح متاثر کیا تھا اور سوائن فلو کے انفکیشن کی زد میں آکر کئی افراد لقمہ اجل بن گئے، بلکہ پہاڑوں پر برف اور زیر زمین آبی ذخائر کی سطح تواتر کے ساتھ کم ہونے کے بہ سبب کسانوں کےلئے آئندہ فصلی موسم کے حوالے سے زبردست خدشات پیدا ہوگئے تھے۔ عام لوگوں کو بجلی اور پینے کے پانی کی قلت سے بے بیان تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ وادی کشمیر میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا جس کی زندگی بجلی کی ناقص سپلائی اور بے ہنگم قسم کے کٹوتی شیڈول سے بُری طرح متاثر نہ ہوئی ہو۔حالانکہ ابھی موسم سرما کے ابتدائی ایام ہی ہیں اور ان سر د ایام میں نئے موسم کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے برقی سپلائی زند ہ رہنے کی خاطر ایک بنیادی جُز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر چہ بجلی کی بے ہنگم سپلائی کیخلاف آئے روز واویلا ہو رہا ہے اور لیڈروں سے لیکر ایک عام آدمی تک ہر شخص گڑ گڑا کر حکام سے اس معاملے میں التجا پیش کرتے رہے ہیں، لیکن حکومت ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور بار با رندی نالوں اور دریائوں میںپانی کی سطح کم ہونے کے بہ سبب بجلی کی پیداوار متاثر ہونے کو جواز بنا کر اپنے کاندھوں سے ذمہ داریوں کا بوجھ اُتارنے کو ہی اپنا فرض سمجھنے لگی ہے۔ حالانکہ ماضی میں بھی پانی کی قلت کے بہ سبب بجلی کی پیدوار متاثر ہوتی رہی ہے لیکن حکومتیں اضافی بجلی خرید کر سپلائی نظام میں توازن پید اکرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ دور کی بات نہیں بلکہ پی ڈی پی کے ہی ماضی کے دور حکومت ، جب مرحوم مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ تھے، میں سرمائی ایام کے دوران وادی کے اندر بجلی کی سپلائی کا نظام اس قدر مؤثر اور مثبت رہا کہ صارفین اُسے برسوں تک یاد کرتے رہے۔ لیکن موجودہ عہد حکومت میں جموں خطہ کے میدانی علاقوں میں بلاخلل بجلی کی سپلائی سے لوگ محکمہ کے تعریف میں رطب السان ہیں لیکن نہ معلوم وادی اور چناب و پیر پنچال کے ساتھ ایسا سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے، جسے اگر کچھ لوگ امتیازی قرار دے رہے ہیں تو انہیں غلط نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب چونکہ برفباری اور بارش کی وجہ سے ند ی نالوں اور دریائوں میں پانی کی سپلائی میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا، جس سے بجلی کی پیدوار پر بھی مثبت اثر ثبت ہوسکتا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی بجلی کی پیدوار اور سپلائی میں خلیج قائم رہے تو حکومت کواضافی بجلی خریدنے کیلئے خصوصی انتظامات کرنے چاہیں ، تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ وزیر بجلی چونکہ کشمیر سے تعلق نہیں رکھتے، لہٰذا انہیں کشمیری عوام کی مشکلات کی پرواہ نہیں ہے۔ برفباری سے کسانوں کے مرجھا ہوئے چہرے بھی کھل اُٹھے ہیں ،کیونکہ آئیندہ فصلی موسم میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے طبقے کو نہایت ہی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ خشک سالی کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے آلودہ ہوائیں بھی صاف ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے اور ظاہر بات ہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ کل تک ہم جن حالات سے گزر رہے تھے وہ ہمارے لئے سبق آموزہونے چاہیں، کیونکہ سماج من حیث المجموع ماحول کو آلودہ کرنے میں جو رول ادا کر رہا ہے اس پر ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ خشک سالی کی وجہ سے جنگلات میں آگ کی جو مسلسل وارداتیں پیش آئی ہیں اُن میں انسانی عمل دخل کو کسی بھی صورت میں خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان ساری کاروائیوں کے باوجود کس قدرت انسان پر مہربان ہے ہمیں اس کے لئے شکر گزار رہنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے قدرتی وسائل کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے اپنے تمام تر اختیارات کو استعمال میں لانا چاہئے نیز عام لوگوں کو درپیش مسائل کو سیاست کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انہیں ترجیحات کی بنیاد پر حل کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ نے موجودہ برفباری کے متعلق موسمیاتی محکمہ کی طرف سے پیشگوئی کے ساتھ ہی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی۔ ریاست کے چیف سکریٹری، صوبائی کشمیر اور ضلعی کمشنروں کی جانب سے گزشتہ چند روز کے دوران برفباری سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے جو تحر ک دیکھنے کو ملا ہے، وہ خوش آمد ید ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ انکی ہدایات انتظامیہ کے زیر یں طبقوں تک مؤثر طریقے پر سرایت کرینگی۔فی الوقت موجودہ حالات میں عام لوگوں کی طرف سے یہ امید کی جارہی ہے کہ بجلی اور پانی کی سپلائی کے حوالے سے انہیں درپیش پریشانیوں کا مکمل ازالہ نہیں تو کم ا ز کم اس میں خاطر خواہ تخفیف ضرور ہونی چاہئے۔