صوبہ کشمیر اور خطہ چناب و پیر پنچال میں حالیہ شدید برفباری کی وجہ سے جہاں بجلی کی سپلائی متاثر ہونے سے اور بالائی علاقوں میں عبور و مرور میں مشکلات اور درجہ حرارت اچانک منفی ہو جانے کی وجہ سے صحت کے حوالے سے عوام الناس کوطرح طرح کی مشکلات درپیش آئی ہیں، وہیں اس خطہ کے گرداگرد واقع پہاڑی علاقوں میں جنگلوں کی زیب و زینت و حوش کو بھی مشکلات اور مصائب درپیش ہوئے ہیں۔ پہاڑوںاور جنگلوں میں بھاری برفباری کے سبب زمین ڈھک گئی ہے، جس کی وجہ سے جنگلی جانوروں کےلئے غذا کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو نایقینی ہے اور اس صورتحال سے متاثر ہونے کی وجہ سے انسانی بستیوں کی جانب اُنکے دخول کے شدید خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جنگلی جانوروں اور دیگر وحوش عالم ارضی پر ماحولیاتی توازن کا ایک اہم حصہ ہیں، لہٰذا اُنکی بقاء ایک عنوان سے انسانی دنیا کی بقاء کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جنگلی حیات کو غذا کے مسائل درپیش ہونے کے بہ سبب یہ جانور بستیوں کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے واقعات میںدن بہ دن اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جنگلی جانوروں اور انسانوںمیں ٹکراؤایک معمول بنتا جارہاہے اور اب تک کئی جانیں اس کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔حالیہ برسوں میں وادی کے اندر خاص کر کنڈی کے علاقوں میں چھوٹے بچوں سمیت متعدد افراد تیندؤں اور ریچھوں کے حملوں کے شکار ہوکر جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔ چونکہ عام لوگوں کو قدرت کی ان مخلوقات ، جو عام طور پر بے ضرر ہوتی ہیں اور چھیڑ چھاڑ کے بغیر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتے، کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، لہٰذا جب یہ بستیوں کا رْخ کرتے ہیں تو لوگ بدحواس ہوکر میسرآلات ضرب لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر یہ وحوش لوگوں پر حملہ آر ہوتے ہیں اور تصادم آرائی میں خود بھی زیادتیوں کاشکار ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ماہرین کے مطابق جب کوئی جانور اپنے اعصابی توازن سے محروم ہوتاہے تو وہ آدم خوری پر اْتر آتاہے اور ایسے حالات میں متعلقہ حکامہ ہی اْس وقت ایسے جانورکوبنی نوع انسان کے لئے نقصان دہ معلن کرکے اس کی ہلاکت کا حکم صادر کرسکتے ہیں مگر ماہرین اور جنگلی جانوروں سے مڈبھیڑ کا تجربہ رکھنے والے لوگوں کے مطابق ،جب کوئی جانور غذا کی تلاش میں کسی بستی کی طرف نکل پڑتاہے تو لوگوں کی اجتماعی بدحواسی کے ردعمل میں ان حیوانوں کا وحشیانہ پن اْبھر کر سامنے آتاہے جو بعض اوقات انسانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ ایسے واقعات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئی ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر جنگلات کے متصل علاقوں میں آباد لوگوں کو فطرت کے اصولوں کے مطابق جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کی مناسب معلومات اور تربیت فراہم کی جائے تو یقینی طور پر ان تصادموں کو روکنے یا انہیں کم کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگلی جانوروں کے بستیوں کی جانب بھٹکنے کے معاملے میں جنگلات اور ان کے گردونواح میں موجود اْن کی آماجگاہوں میں دن بہ دن کمی واقع ہونے کا رْجحان کلیدی طور پر کارفرماہے۔جنگلاتی علاقوں میں انسان کے تجاوزات خواہ وہ زرعی سرگرمیوں ، تعمیروترقی یا سیکورٹی کیمپوں کے قیام کے حوالے سے ہورہے ہوں ، اپنی آماجگاہوں سے بے دخلی کا سبب بن جاتے ہیں ،نتیجتاً ان کا رْخ بستیوں کی جانب ہو جاتاہے۔اس تصادم آرائی کو کم کرنے کے لئے محکمہ وائلڈ لائف نے ماضی میں عوامی بیداری کے لئے اخبارات میں اشتہار بھی شائع کروائے تھے،جس میں کئی ہدایات درج تھیں،تاہم صرف اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت سے دْور دَراز علاقوں میں بیداری پیداہونے کی توقع رکھنا عبث ہے ،لہٰذا متعلقہ محکمہ کو زمینی سطح پر اس کے لئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ساتھ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ آج بھی اگر تاریخی مخطوطات کا مطالعہ کیا جائے تو بھارت کی راجدھانی دِلّی کے پرانے شہر کے قرب وجوار میں انواع واقسام کے خوبصورت جنگلی چرندوں وپرندوں کی موجودگی کا وافرذکر ملتاہے ،لیکن آج وہاں ان مخلوقات کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رْخ کرنا پڑتاہے۔ جموںوکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میں ایسی ہی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔محکمہ وائلڈ لائف کو کم از کم اُن اصولوں پر اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کرنی چاہئےجو دنیا بھر کے اُن خطوں میں اپنائی جاتی ہے، جہاں موسم سرما کے دوران جنگلی جانوروں کوز ندہ رکھنے کےلئے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں، تاکہ انہیں مجبوراً انسانی بستیوں کی طرف رُخ نہ کرنا پڑے۔