کمپنی اپنے منافع میں کمی کیسے برداشت کرتی۔ اس نے ۱۸۳۹ء میں چند توپ بردار جہاز چین بھیج کر چین کا دقیانوسی بحری بیڑا تہس نہس کر دیا۔ چینی شہنشاہ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف افیم کی درآمد پر پابندی اُٹھا دی بلکہ بطور جرمانہ ہانگ کانگ بھی برطانیہ کو ہبہ کر کے دے دیا جو ۱۹۹۷ء میں کہیں جا کر واپس چین کو ملا۔اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور ایک کے بعد ایک ریاست، ایک ایک بعد ایک راجواڑہ ان کی جھولی میں گرتا رہا۔ ۱۸۱۸ء انہوں نے مرہٹوں کو سلطنت ہتھیائی، اس کے بعد اگلے چند عشروں میں سکھوں کو شکست دے کر تمام مغربی ہندوستان یعنی آج کے پاکستان پر بھی قابض ہو گئی۔ اب درۂ خیبر سے لے کر برما اور ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک ان کا راج تھا۔اب اونٹ نے خیمے میں گھس کو بدو کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا تھا۔
تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا:
معاملات یوں ہی چلتے رہے، لیکن پھر بدقسمتی نے گھیرے ڈال دیے۔ ۱۸۵۷ء میں کمپنی کے اپنے ہی تنخواہ دار سپاہیوں نے بغاوت کر دی جس کے دوران بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ اس زمانے میں اخبار عام ہو گئے تھے۔ اس ساری گڑبڑ کی خبریں انگلستان تک پہنچیں۔ہوتے ہوتے کمپنی کا تاثر برطانیہ میں اتنا خراب ہو گیا کہ بالآخر پارلیمان کو عوامی دباؤ کے زیر اثر کمپنی کو قومیانے کا فیصلہ کرنا پڑا اور ہندوستان براہِ راست برطانوی حکومت کی عملداری میں آ کر ملکہ وکٹوریہ کے ’’تاج برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا‘‘ بن گیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی پھر بھی چند سال گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارتی رہی، لیکن کب تک۔ آخر یکم جون ۱۸۷۴ء کو پونے تین سو سال کی طویل شان و شوکت کے بعد یہ کمپنی تحلیل ہو گئی۔کمپنی کی وفاتِ حسرت آیات پر اس زمانے میں ’’ٹائمز‘‘ اخبار نے جو نوٹ لکھا تھا وہ کمپنی کی تاریخ کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے:’’اس (کمپنی) نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہ بنی نوعِ انسان کی تاریخ میں کسی اور تجارتی کمپنی کے حصے میں نہیں آ سکے۔ نہ ہی آئندہ آنے والے برسوں میں امکان ہے کہ کوئی اور کمپنی اس کی کوشش بھی کر پائے گی‘‘۔
نہ کوئی جنازہ نہ کوئی مزار:
’’ٹائمز‘‘ کا قصیدہ اپنی جگہ، لیکن لگتا یہی ہے کہ شاید انگریزوں کو اپنی اس کمپنی کے’ ’کارہائے نمایاں‘‘ پر کچھ زیادہ فخر نہیں ہے۔ کیوں کہ آج لندن میں لیڈن ہال اسٹریٹ پر جس جگہ کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا، وہاں ایک بنک کی چمچماتی عمارت کھڑی ہےاور کہیں کوئی یادگار، کوئی مجسمہ، حتیٰ کہ کوئی تختی تک نصب نہیں ہے۔ نہ کوئی جنازہ اٹھا، نہ کہیں مزار بنا۔کمپنی کی کوئی جسمانی یادگار ہو نہ ہو، اس نے جو کام کیے ان کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو کہ اس کمپنی کے غلبے سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کُل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔ہندوستان کی زمین زرخیز اور ہر طرح کے وسائل سے مالامال تھی اور لوگ محنتی اور ہنرمند تھے۔ یہاں پیدا ہونے والے سوتی کپڑے اور ململ کی مانگ دنیا بھر میں تھی، جب کہ جہاز رانی اور اسٹیل کی صنعت میں بھی ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔یہ ساری صورتِ حال جنگِ پلاسی کے بعد بدل گئی اور جب ۱۹۴۷ء میں انگریز یہاں سے گئے تو سکندر کے برعکس ان کی جھولی بھری ہوئی اور ہندوستان کے ہاتھ خالی تھے۔بھارت کے سابق وزیر اعظم اور ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹرمن موہن سنگھ نے اسی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا تھا:’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف ہماری شکایات کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔۔۔ ۱۷۰۰ء میں انڈیا تنِ تنہا دنیا کی ۶ء۲۲ فیصد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی لیکن یہی حصہ ۱۹۵۲ء میں گر کر صرف ۸ء۳ فیصد رہ گیا۔ ۲۰ویں صدی کے آغاز پر ’’تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا‘ ‘درحقیقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا تھا‘‘۔اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔
اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق ۱۷۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کُل رقم ۲۰۱۵ء کے زرمبادلہ کے حساب سے ۳۰ کھرب ڈالر بنتی ہے۔ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بے چارے کو دہلی سے صرف ۱۴۳؍ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔چار سو سال پہلے جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر کو شک گزرا تھا کہ آیا واقعی ہندوستان اتنا امیر ہے کہ اس کے شہنشاہ کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں تولا جا سکتا ہے، اور کہیں دوسرے پلڑے میں درباریوں نے ریشم کی تھیلیوں میں پتھر تو نہیں ڈال دیے؟اگر کسی طرح سر ٹامس رو کو واپس لا کر انھیں یہ اعداد و شمار دکھا دیے جائیں تو شاید ان کی بدگمانی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔
( ختم شد)