ریسرچ اسکالر،کشمیر یونیورسٹی سرینگر
برطانوی استعماریت کوحتمی اورکلی حیثیت یوںتو ۱۸۵۷ء میں حاصل ہوئی مگر اس سے پہلے کی لسانی اور تعلیمی پالیسی نے مغربی تہذیب کی برتری کا اعتبار قائم کرنا شروع کردیا تھا ۔فورٹ ولیم کالج،رائل ایشاٹک سوسائٹی ،دہلی کالج ، کلکتہ مدرسہ،بنارس اورآگرہ کے کالجوں کی ظاہری مشرقیت پرستی اورتعلیمی خدمات نے ایک ایسی فضاقائم کردی تھی کہ ایک بڑے علمی حلقے کواس نوع کاکوئی برطانوی اقدام نہ صرف یہ کہ شک وشبہ سے بالاتر نظرآنے لگا بلکہ بقول ابولکلام قاسمی:
’’اس نوع کے اقدام میںہی اسے ہندوستانی عوام کی تعلیمی اورتہذیبی فلاح و بہبود کاراستہ دکھائی دینے لگا۔‘‘
(معاصر تنقیدی رویے۔ص ۶۵)
جب انگریزوں نے دیکھا کہ یہ قوم توپ وتفنگ سے نہیں دب سکتی توانہوںنے اپنی پالیسی میںتبدیلی اورحکمت عملی میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی اورتحریر وتصنیف ،تعلیم وتدریس اور پروپیگنڈہ مشنری کے ذریعہ سردجنگ کاآغاز کیا۔چنانچہ عیسائی مشنری نے لٹریچر کاایک طوفان پورے ملک میں پہنچایا۔ مزید براں چندممتازشہروں میں اپنے اسکول اورکالج قائم کئے۔ ان میں جو نظام تعلیم رائج کیاگیا ، اس بارے میں W.W.Hunterرقم طراز ہیں:
’’انگریزوں نے جونظام تعلیم رائج کیا وہ اس نظام کی جو پہلے سے ہندوستان میں رائج تھا اورجس کی بنیاد ہندواورمسلمانوںکے مذہبی اور تہذیبی تصورات پرتھی،بیخ کنی کرنا تھا۔ نوجوان انگریزوںکے رائج کردہ نظام تعلیم کے ماتحت قائم اسکولوں سے کامیاب ہوکر نہیںنکل سکتے تھے، جب تک وہ اپنے آباء واجداد کے مذہب سے بد عقیدہ نہ ہوجائیں۔ انگریزوں کاخیال تھا جب ایشیاء کے گھنے مذاہب کارابطہ مغربی علوم کے برفانی حقائق سے قائم ہوتاہے تووہ سکڑ کرچوبِ خشک بن جاتے ہیں‘‘۔( HISTORY OF ENGLAND IN EIGHTEENTH CENTURY)
۱۸۱۳ء میںبرطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے متعلق تعلیم کے سلسلے میں جوچارٹر منظورکیا ،اس کے مطابق عیسائی مبلغین کوہندوستان آنے اوریہاں مغر بی تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ تبلیغ کی پوری آزادی ملی۔حالانکہ ۱۷۶۵ء میںعیسائی مبلغین کوہندوستان آنے اوروہاں مذہبی تبلیغ کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی ۔مالک رام لکھتے ہیں:
’’وہ (انگریز)یہ چاہتے تھے کہ نئی نسل کومغربی علوم وفنون سے روشناس کرایاجائے تاکہ وہ یورپی تمدن سے قریب ہوسکیں اوراس طرح انگریزی سیاست اورحکومت بھی ان کے نزدیک قابل برداشت ہوجائے۔۔۔‘‘(قدیم دلّی کالج ۔ص ۹ )
انگریزی تعلیم کے نام پر دراصل عیسائیت کوفروغ دیاجارہاتھا ۔چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈاکٹر چارلس گرانٹؔ نے اس نظام تعلیم کابنیادی مقصد ان لفظوں میںبیان کیاتھا: ’’یہ بات بالکل انگلستان کے اختیار میںہے کہ وہ ہندوؤں کوبتدریج ہماری زبان سکھائے اوربعد میںاس کے ذریعے ہمارے فنون، فلسفہ اورمذہب کی تعلیم دے مگر بلاشبہ سب سے اہم تعلیم جوہندوؤں کوہماری زبان کے ذریعے ملے گی وہ ہمارے مذہب کی معلومات ہوںگی۔‘‘( فرنگیوںکاجال ۔ص ۷۳ از علامہ امدادصابری )
عیسائیوں کی اس سازش کااعتراف خودسرسیّد ؔ مرحوم نے کیاہے، لکھتے ہیں:
’’دیہاتی مکتبوں کے مقررہونے سے لوگ سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کویہ مکتب جاری ہوئے ہیں۔ پرگنہ وزیٹر اورڈپٹی انسپکٹر جوہرگاؤں اورقصبہ میںلوگوں کونصیحت کرتے پھرتے تھے کہ لڑکوں کومکتبوں میںداخل کرو۔ ہرہرگاؤں میںکالاپادری ان کانام تھا۔۔۔۔عوام الناس یوںخیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیںاور کرسٹان بنانے کوبٹھاتے ہیں۔۔۔‘‘ (اسبابِ بغاوت ہند۔ص ۳۱ )
۱۸۱۶ء میںانگریزی زبان کے ذریعے عیسائیت کوفروغ دینے کے لئے پادریوںاور کلکتہ کے ایک گھڑی ساز مسٹر ڈیوڈہیٹرؔ نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرہائیڈایسٹ کی امداد سے اورکلکتہ کے غیر متعصب رئیس راجہ رام موہن رائے ؔ کی سرتوڑ کوششوں سے اینگلو انڈین کالج، کلکتہ میںقائم کیا،جس میںانگریزی پڑھانے کی ابتداہوئی۔ براہ راست مذہبی تعلیم دینے کے بجائے انگریز ماہرین تعلیم نے انگریزی علم وادب کے ذریعے اس کمی کوپورا کرناچاہا۔ اس سلسلے کا انقلاب انگیز اقدام وہ تھا جس کی تکمیل لارڈمکالےؔ (Lord Macauly) کے ہاتھوں ہوئی۔
۱۸۳۵ء میںانگریزی اورمشرقی علوم کی تدریس کے معاملہ میں بڑی کشمکش پیداہوگئی۔لارڈمیکالےؔ چاہتے تھے کہ ہندوستانی زبانوں اورادب کی تدریس کے بجائے مغربی علوم کوفوقیت دی جائے اس لئے کہ ہندوستان کی زبانیں پسماندہ ہیں۔ چنانچہ اول اول عربی وسنسکرت کی کتابوں کی اشاعت بند کردی گئی۔ ڈاکٹرمحمود احمد ر قمطرازہیں:
ـ"Since the dawn of 19th century, there emerged two groups among the officials of the company. One group was of the Orientalists, who wanted the progress of Indian Educaion through the Medium of Sanskrit, Arabic and Persain, whereas the other group was of Anglicists, who were in favor of developing western education in India through the medium of English. This Group was admirer of western Literature and science…..This tug of war went on till the production of Macaulay's-minute on the issue".
میکالےؔ نے۲ فروری ۱۸۳۵ء کواپنی مشہور رپورٹ پیش کی اوراُس رپورٹ میںلکھا:
’’ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی ہے جوہم میںاورہماری کروڑوںرعایا کے درمیان مترجم ہواورایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اوررنگ کے اعتبارسے توہندوستانی ہومگر مذاق اوررائے ،الفاظ اورسمجھ کے اعتبارسے انگریزہو۔‘‘ (علی گڑھ نمبر ۱۹۵۳ء ۔ص ۲۱)
یہ الفاظ غیرمبہم ہے لیکن میکالےؔ کے دل میں جوکچھ تھا وہ رپورٹ میںنہیںبلکہ اس خط میںتھا جواس نے اپنے باپ کولکھاتھا:’’اس تعلیم کااثر ہندؤں پربہت زیادہ ہے،کوئی ہندو جوانگریزی داںہے ، کبھی اپنے مذہب پرصداقت کے ساتھ قائم نہیںرہتا،بعض لوگ مصلحت کے طورپر ہندورہتے ہیںمگربہت سے یاتوموحد ہوجاتے ہیںیامذہب عیسوی اختیارکرلیتے ہیں۔ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ اگر تعلیم کے متعلق ہماری تجاویز پر عملدرآمدہواتوتیس سال بعد بنگال میںایک بُت پرست بھی باقی نہ رہے گا۔‘‘ـ(ایضاً )
اس کالامحالہ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندؤں اورمسلمانوںنے مختلف شکلوں میں اس کے خلاف احتجاج کیاکیونکہ آہستہ آہستہ یہ طے ہوگیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں انگریزی جاننے والوں کوترجیح دی جائے گی ۔قدیم مشرقی علوم بے معنی اوربے سود ہوتے جارہے تھے اوران کی طرف سے بے اعتنائی بڑھ رہی تھی ،دوسری طرف انگریزی علوم اورانگریزی تعلیم مذہب اخلاق کے لئے خطرہ بنتے جارہے تھے ۔ میکالےؔ کا ہی قول ہے :
"A single shelf of a good European library was worth the whole native literature of India."
اس طرح قومی علوم وتہذیب نشانۂ تضحیک وملامت بنائی جارہی تھی۔ مختصر یہ کہ نئی تعلیم نے مادی اورروحانی زندگی میں شدید کشمکش پیدا کردی ۔ سارے مادی وسائل چھیننے کے بعد ہندوستانیوں سے اُن کامذہب بھی چھیناجارہاتھا۔ وقتاً فوقتاً ایسے احکام بھی فوج میں نافذہوتے تھے کہ سپاہی ماتھے پر کوئی نشان نہ لگائیں، داڑھیاں منڈائیں اورکان میں کچھ نہ پہنیں، اس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بغاوتیں بھی ہوئیں۔ اس تعلیم سے انگریزی حکام اور ماہرین تعلیم کی یہ امیدیں وابستہ تھیں کہ اس سے تمام ہندوستانیوںمیںمسیحی اخلاق اوربرطانیہ سے وفاداری کاجزبہ پیدا ہوگا۔ ڈاکٹرسیدعبدالباری مرحوم لکھتے ہیں:
’’بدقسمتی سے مغرب نے مشرق کی اپنی نوآبادیات اورکالونیوں میںبڑا خراب طرز عمل اپنایا اور وہ یہاں ایک شریف ومہذب فاتح کے بجائے لٹیرے اورظالم حکمراںکی حیثیت سے آئے۔ چنانچہ ان کی عقل ودانش اورسائنس وحکمت کے باوجود انہیںایک جابرحکمراںکی حیثیت سے لوگ دیکھنے لگے اورہندوستانیوںکے دل میں اپنے مذہب اورتہذیب کی حفاظت کاشدید احساس پیدا ہوا۔تہذیب کامعاملہ یہ ہے کہ وہ نوآبادیاتی دہشت گردی (Colonial Terror) اورفوجی خوف کے ذریعے دنیاکے کسی حصہ میںغالب نہیںہوسکتی۔ مغربی اقوام کے اپنے سے کم تر ،پسماندہ ،مفلوک الحال اورسیاسی اعتبار سے منتشر ایشیا وافریقہ کی قوموں کوسیاسی ،معاشی ،تہذیبی ودانشورانہ محکومی کی حالت میںطاقت کے زور سے رکھنے کے عمل کو نوآبادیاتی عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کے عمل میںحکمراں طبقہ محکوموں کی آبادی کے ایک طبقہ کواپنی ضرورت کے مطابق استحصال کے عمل میں شریک کرتا ہے اوراس کا تحفظ کرتاہیـ‘‘۔
(بیسویں صدی کے اردوادب کاجائزہ ۔ص ۶۷ )
والٹر روڑنیؔ کے نزدیک نوآبادیات میںاگرکسی چیزکو ترقی حاصل ہوئی تو وہ تھی محتاجی اورپس ماندگی۔ نوآبادیات کے بارے میں روڈنی ؔ کی رائے مغربی سامراج کی نظریاتی بنیادوں اوراس کے تعصبات کے لئے چلینج کی حیثیت رکھتی ہے۔ مشہور سماجی مفکر فرانز فیننؔ کے نزدیک نوآبادیات نے ایک معاشرے کواس کی آزادی ،اس کی دولت ،علوم اور اس کے بنیادی کردار سے محروم کردیا اور اس کے نظام اخلاق اوردانشورانہ اندازِ فکر پرمنفی اثرات مرتب کیے۔ظاہرہے انگریزہندوستان سے مالی معاونت کے حریص تھے ان کے نزدیک ہندوستان کی تعلیم مقدّم نہ تھی بلکہ یہاں اپنے اقتدار کومضبوط بناناتھا۔۱۸۳۸ء میںلارڈمیکالے ؔ نے جدید تعلیم کو فروغ دینے کی تائید کی جب کہ اکثریت مشرقی علوم کی حمایت میںتھی ۔لارڈولیم بنٹینکؔ بھی تعصب کی بنا پر مشرقی علوم کی مخالفت میںمیکالےؔ سے اتفاق کررہے تھے، اس کے برعکس گورنر جنرل لارڈ آرکلینڈؔ(Lord Auckland) مشرقی تعلیم کی حمایت میںتھے اورانہوںنے میکالےؔ کی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کی۔ میکالےؔ کی تجویز کوعملی جامہ پہناتے ہوئے ۷/مارچ ۱۸۳۵ء میں گورنمنٹ برطانیہ کی جانب سے ایک رزولیوشن پاس ہوا،کلدیپ کورلکھتی ہیں:
"This was the first declaration of British Government in the field of education in India". ۱۸۳۷ء میںمرکزی گورنمنٹ نے صوبہ داروں کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ فارسی کے بجائے ہرصوبہ کی مختلف بولی جانے والی زبانیں ہی رائج کی جائیں۔ اس کے بعد ۱۰/اکتوبر ۱۸۴۴ء کولارڈہارڈنگ وائسرائے کے حکم سے سرکاری ملازمتوں کے لئے انگریزی ضروری قرار دی گئی۔ حکومتِ وقت مسلمانوںکومشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اورانہیں ترقیاتِ زمانہ سے الگ تھلگ رکھنے کی سازشیں کررہی تھی۔میکالےؔ نے لکھا ہے کہ کلائیوکسی مسلمان کوبنگال کے محکمہ انتظامی کاسردار بنانے کے بہت خلاف تھا۔مولانامودودیؒ کے الفاظ میںصورت حال یہ تھی :
’’انگریزی حکومت کی پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کومعاشی حیثیت سے پامال کرکے ان کے اس قومی فخرونازکوکچل ڈالے جوایک حاکم قوم کی حیثیت سے صدیوںتک ان کے دلوں میں پرورش پاتارہاہے ۔چنانچہ ایک صدی کے اندر اندر اس پالیسی کی بدولت اس قوم کومفلس ،جاہل ،پست خیال، فاسد الاخلاق اورذلیل وخوار کرکے چھوڑاگیا‘‘۔( تنقیحات ۔ص ۲۱)
حالانکہ خودمغرب میںجوترقی علم وہنر ہے وہ سب اسلام اورمسلمانوں کی دین ہے۔ قرون وسطیٰ میںجب مشرقی علوم کا طوطی بول رہاتھا ،مغرب علم وتہذیب کے حوالے سے تاریک ترین دورسے گزررہاتھا ۔
�����