اسد مرزا
19 مئی 2005کو،برطانیہ اوریوروپی یونین( EU) نے کھانے پینے اور چھوٹی کاروباری برآمدات میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے۔ 2019 میں بریگزٹ کے بعد سےیورپی یونین کو برطانیہ کی برآمدات میں 9% کی کمی واقع ہوئی ہے اور درآمدات میں 18% کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس نئے معاہدے کا مقصد سرکاری فیتہ شاہی کو کم کرنا اور یورپی یونین کے £150 بلین کے دفاعی فنڈ تک رسائی حاصل کرنا ہے جس سے کہ برطانوی دفاعی کمپنیوں کو فائدہ حاصل ہوسکے گا۔دراصل برطانیہ کے سامان پر امریکی محصولات کے خطرے کے ساتھ برطانوی حکومت ملک میں معاشی استحکام کے لیے یورپی یونین پر دوبارہ توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ 19مئی کو ہونے والے پہلے UK-EU سربراہی اجلاس نے ان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ سربراہی اجلاس میں یورپ میں اقتصادی تعاون اور امن کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔فی الوقت برطانیہ اور یورپی یونین ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ دوبارہ آپس میں مل رہے ہیں۔ ان کا مقصد مشترکہ اقدار اور مفادات پر مبنی مضبوط شراکت داری قائم کرنا ہے۔ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کے درمیان یہ نیا باب دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ دونوں فریق اس مشکل وقت میں اتحاد اور تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔یہ نئی توجہ دونوں معیشتوں کے لیے ایک خوشحال مستقبل بنانے پر مرکوز ہے۔ یہ سربراہی اجلاس برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان اعتماد اور تعاون کی تعمیر نو کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ یہ مستقبل کی بات چیت اور معاہدوں کا نیاسلسلہ نشان دہ کرتا ہے جو ان باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔
برطانیہ اور یورپی یونین نے بریگزٹ کے بعد تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ برطانیہ اب یوروپی یونین کے 150 بلین یورو کے دفاعی فنڈ تک رسائی حاصل کرسکے گا، خوراک کی برآمد میں آسانی ہوگی اور یورپی یونین کے جہازوں کے لیے ماہی گیری کے لیے رسائی 2038 تک بڑھ جائے گی۔ Erasmus اورپیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کی نقل و حرکت کے معاہدے کا دوبارہ آغاز ہوسکے گا۔بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں سب سے اہم تبدیلی میں برطانیہ اور یورپی یونین نے پیر کے روز اپنے دفاعی اور تجارتی تعلقات کی ایک نئے جامع معاہدے پر مہر لگا دی۔ اس معاہدے کو 2020 میں برطانیہ کے یوروپی بلاک چھوڑنے کے بعد پہلی باضابطہ UK-EU سربراہی اجلاس میں حتمی شکل دی گئی ہے، جس کی میزبانی لندن میں وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کی۔کیر سٹارمر نے کہا کہ ’’یہ معاہدہ ایک جیت ہے، برطانیہ عالمی سطح پر واپس آ گیا ہے۔‘‘یوروپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اپنے جذبات کی بازگشت کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی لمحہ اور بحران کے وقت یورپ کے اتحاد کے بارے میں ’دنیا کے لئے پیغام‘قرار دیا۔اس نئے معاہدے کی ایک اہم خصوصیت ایک نئی UK-EU دفاعی اور سیکورٹی شراکت داری ہے۔ معاہدے کے تحت برطانیہ 150 بلین یورو (170 بلین ڈالر) کے یورپی یونین کے دفاعی قرضے کے پروگرام تک رسائی حاصل کرے گا جس میں یوکرین کے لیے تعاون سمیت فوجی خریداری کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔برطانوی دفاعی کمپنیاں جیسے کہ BAE Systems، Rolls-Royceاور Babcock اب EU کے مشترکہ دفاعی خریداری کے منصوبوں میں حصہ لے سکیں گے۔ عالمی عدم استحکام کے وقت اور جب ہمارے براعظم کو نسلوں کے لیے سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے، ہم یورپ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں،وون ڈیر لیین نے کہا۔یہ نیا معاہدہ برطانوی دفاعی کمپنیوں کو ایک بڑے یورپی دفاعی فنڈ تک رسائی کی اجازت دے گا ، جس کے تحت یورپی یونین کے ممالک فضائی دفاعی نظام، ڈرون اور دیگر فوجی سازوسامان خریدنے پر 150 بلین یورو خرچ کریں گے جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی براعظم کی سلامتی کی ضمانت دینے میں واضح ہچکچاہٹ کے جواب میں قائم کیا گیا ہے۔
نئے معاہدے میںخوردنوش کی اشیا، خوراک اور زرعی مصنوعات پر سرحدی چیکنگ میں نمایاں نرمی متعارف کرائی گئی ہے۔ اس سے برطانوی اشیا جیسے ساسیجز اور برگر یورپی یونین کی منڈیوں میں دوبارہ داخل ہو سکیں گے۔کیبنٹ آفس کے وزیر نک تھامس سائمنڈز نے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ ہماری سرحدوں پر لاریاں 16 گھنٹے انتظار کرتی ہیں،جس سے کہ زرعی پیداوار اور بہت سی دیگر خوردنوش کی اشیا اکثر خراب ہوجاتی ہیں،ہم اسے مدت کو بالکل کم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ حکام کا اندازہ ہے کہ یہ اصلاحات 2040 تک برطانیہ کی معیشت میں تقریباً 9 بلین پاؤنڈ ($12.1 بلین) کا اضافہ کر سکتی ہیں، ساتھ ہی خوراک کی قیمتوں میں کمی اور سپلائی چین کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
ماہی گیری، بریگزٹ کے سب سے زیادہ علامتی طور پر حساس مسائل میں سے ایک رہا ہے۔ برطانیہ نے اب یورپی یونین کے جہازوں کو مزید 12 سال تک،یعنی کہ 2038 تک برطانوی سمندروں تک رسائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے بدلے میں یورپی یونین نے کاغذی کارروائیوں اور سرحدی جانچ کو مستقل طور پر کم کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کے سمندری خوراک کے برآمد کنندگان کو بہت زیادہ رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ معاشی طور پر معمولی ہونے کے باوجود ماہی گیری سیاسی طور پر بہت حساس موضوع ہے۔خاص طور سے برطانیہ اور یورپی یونین کے مختلف ممالک کے ماہی گیروں کے لیے۔ اس پر تنازعات نے 2020 میں اصل بریگزٹ ڈیل کو تقریباً پٹری سے اتار دیا تھا۔
نئے معاہدے کے تحت دونوں فریقوں کے درمیان پیشہ وارانہ قابلیت رکھنے والے نوجوانوں کی نقل و حرکت کے منصوبوں پر بھی ایک عارضی معاہدہ طے پایا ہے، جس کا مقصد نوجوان برطانوی اور یورپی باشندوں کو ایک دوسرے کے علاقوں میں عارضی طور پر رہنے اور کام کرنے کی اجازت دینا ہے۔ اگرچہ مکمل تفصیلات پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے۔ برطانیہ بھی ایراسمس اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے بات چیت کر رہا ہے، جسے اس نے بریگزٹ کے بعد چھوڑ دیا تھا۔یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانیہ کے 2016 کے ووٹ نے برسوں کے سیاسی بحران کو جنم دیا تھا، اس بحران نے بشمول پانچ وزرائے اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور برسلز کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات تقریباً ہمیشہ کے لیے کشیدہ کردئیے تھے۔ لیکن یوکرین سمیت دیگر عالمی مسائل پر حالیہ تعاون نے اعتماد بحال کرنے میں مدد کی اور یہ نیا معاہدہ قرار پایا۔مالیاتی ادارے نیسر کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسٹیفن ملارڈ کے بقول’’یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا ہندوستان اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مقابلے میں برطانوی معیشت کے لیے زیادہ کارگر اور مثبت اثر جلد ہی دیکھنے میں آئے گا۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے یورپی پڑوسیوں کے ساتھ قریبی انضمام کی طرف کوئی بھی تحریک ایک اچھی بات ہے کیوں کہ اس سے جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے عوامی مالیات میں مدد ملے گی۔‘‘لیبر نے کئی بار برطانیہ کے یورپی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کئی معاملات پر اپنے سخت موقف پر زور دیا ہے۔اس نئے معاہدے پر دائیں بازو کی Reform UK پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی ، لیبر پارٹی پر بریگزٹ کو ہٹانے کا الزام لگا رہے ہیں۔یہ معاہدہ اس وقت آیا ہے جب وزیر اعظم اسٹارمر نے برطانیہ میں ہجرت کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔ یہاں تک کہ اس معاملے پر ان کی اپنی لیبر پارٹی کی جانب سے بھی ،انہیں تنقیدکا نشانہ بننا پڑا ہے۔ لیکن اگر برطانیہ کی معیشت کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو یہ قدم لیبر پارٹی کی جانب سے ایک ہوش مند قدم مانا جائے گا۔ کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں برطانوی معیشت نیچے کی طرف ہی آرہی ہے اور جس طریقے سے کنزرویٹیو پارٹی نے بریگزٹ کے معاملے پر عوام کے ساتھ غلط بیانی سے کام لیا تھا، اس کا منفی اثر اب برطانوی عوام خود بھگت رہے ہیں۔ یعنی کہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں ٹیوب اور ریل کے کرائے بڑھ گئے ہیں، نوکریوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت کی طرف سے سماجی بہبود کے مختلف پروگرام تقریباً ختم کردئے گئے ہیں۔ اب اس معاہدے سے کچھ امید بنتی ہے کہ شاید برطانوی معیشت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)