برصغیر کی تقسیم کے باوجود اقلیتوں کا مسلٔہ ایک سوالیہ بنا ہوا ہے۔پچھلے دنوں ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت دو ایسے واقعات پیش آئے جس سے یہ عندیہ ملا کہ تقسیم کے 72؍سال بعد بھی اقلیتوں کے مسائل جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں ۔ہندوستان میں ہولی کے دن ہریانہ میں گروگام کے مقام پہ کچھ مسلمان کرکٹ کھیل رہے تھے کہ وہ ہندتوا شدت پسندوں کے تشدد کا نشانہ بنے۔اُنہیں کہا گیا کہ وہ جاکے پاکستان میں کرکٹ کھیلیں ۔ یہ واقعہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پہ وائرل ہو گیا تو اُس کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہوئی۔ سرحد کو اِس پار یہ واقعہ رونما ہو ا ، اور اُس پار صوبہ سند ھ میں گھوٹکی کے مقام پہ ہولی کے ہی تہوار میں ہندو فرقے کی دو لڑکیوں رینا اور روینہ کی مبینہ اغوا ء کا ری کا واقعہ پیش آیا۔ایک عمر رسیدہ ہندو کا ویڈیو وائرل ہوا جس میں وہ تھانے کے باہر دہائی دے رہا تھا کہ اُس کی نا بالغ بچیوں کا اغوا ء ہوا ہے اور زبردستی مذہب اسلام قبول کروانے کے بعد اُن کانکاح ہوا ہے۔
عمر رسیدہ ہندو کا ویڈیو ٹویٹر پہ وائرل ہوتے ہی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کا ٹویٹ منظر عام پہ آیا جس میں اُنہوں نے یہ تحریر کیا ہوا تھا کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر سے واقعہ کی رپورٹ مانگی گئی ہے ۔اس ٹویٹ کے فوراً بعد سشما سوراج کے جواب میں پاکستان کے مرکزی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ تحریر کیا کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے جس میں بھارت کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔اُن کی تحریر میں یہ تند و تیز جملہ بھی منظر عام پہ آیا کہ یہ کوئی مودی کا ہندوستان نہیں بلکہ عمران خان کا نیا پاکستا ن ہے جہاں جھنڈے کے سفید رنگ کا پورا خیال رکھا جاتا ہے ۔قارئین محترم !یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی علامت ہے۔ سشما سوراج نے اُن کے کہنے کے مطابق پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر سے رپورٹ مانگ کر اپنے جائز حق اور اختیار کا استعمال کیا ہے۔بہر حال ٹویٹروں کے اس تبادلے میں ایک واضح بات سامنے آئی کی آر پار اقلیتوں کولاحق مسائل لائنحل اور آر پار کے حکام کی توجہ کے طالب ہیں۔
پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے تحقیق طلب اغوا ء کے معاملے میں ایک اور دیڈیو وائرل ہوا جس میں ہندو لڑکیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے بغیر کسی دباؤ کے شادیاں کی ہیں بلکہ اُنہوں نے اسلام آباد کی ایک عدالت میں بھی یہ درخواست دائر کی ہے کہ اُنہیں تحفظ فراہم کیا جائے ،البتہ لڑکیوں کے والد اور بھائی کا یہ دعویٰ اپنی جگہ قائم ہے کہ مذہب کی تبدیلی اور نکاح جبراََ ہوا ہے۔لڑکیوں کے والداور بھائی نے ہندو کمیونٹی کی حمایت سے ایک عدالتی درخواست میں متبادل دعویٰ پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سند ھ اور پاکستانی پنجاب کے وزرائے اعلی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہواہے ۔ چونکہ لڑکیوں کو صوبہ سندھ سے پنجاب کے شہر رحیم یار خان لایا گیا تھا ، جس مولوی نے نکاح خوانی کی رسم انجام دی تھی، اُس کے سمیت کچھ گرفتایاں بھی اطلاعات کے مطابق عمل میں لائی گئی ہیں جب کہ معاملے کی تفتیش و تلاش جاری ہے۔ معاملہ جس نوعیت کا بھی ہو چاہے زبردستی ہوئی ہو یا ہندو لڑکیوں نے اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کر کے شادیاں کی ہوں ، ایسے واقعات سندھ میں پہلے بھی ہوئے ہیں جن کی تفصیلی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ۔پاکستان کی ہندو کمیونٹی کاکہنا ہے کہ ایسے معاملات کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی کے ہندو ممبر رمیش کمار نے ایک بیان میں جہاں بھارت کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر نے سے باز رہے، وہیں اُنہوں نے متعلقہ قانون سازی کی ضرورت پہ بھی زور دیا ہے ، اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ عمران خان کی حکومت کے دوران ہی ہو گا۔ اِس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ پاکستان کی ہندو کمیونٹی کا اصرار قانون سازی پہرہے جس سے زور زبردستی سے مذہب کی تبدیلی اور زبردستی کی شادیوں پہ روک لگائی جاسکے گی ۔ بہر کیگف وقتاً فوقتاًیسے واقعات کی اطلاعات علی الخصوص صوبہ سندھ سے آتی رہتی ہیں۔
سرحد کے اُس پار پاکستان میں جہاں اقلیتوں کے خدشات قئم ہیں ، سرحد کے اس پار بھارت میں بھی اقلیتوں سے ناروا سلوک کی شکایتیں آتی رہتیں ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کی روایت تو عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں جو تقسیم سے پہلے کا بھی ایک رواں سلسلہ ہے البتہ پچھلے پانچ سال کے عرصے میں انفرادی نوعیت کی وارداتوں کی خبریں مسلسل مل رہی ہیں جن میں افراد پہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ گائے کے کاروباری معاملات میں ملوث ہیں ۔ کہیں مسلمانوں پہ گائے کا گوشت کھانے کا الزم لگایا جاتا ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ گائے کا گوشت گھر میں موجود ہے۔انفرادی نوعیت کے اِن تشدد آمیز واقعات میں کئی لوگ اپنی جاں گنوا بیٹھے ہیں۔ جہاں اِن سلسلہ وار واقعات کی اطلاعات آتی رہتی ہیں وہی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ بھارت گوشت کے بھاری ایکسپو رٹروں میں شامل ہے اور یہاں سے گوشت حتّی کی بڑا گوشت بھاری مقدرا میں ایکسپورٹ ہوتا ہے اگر چہ اُس میں کہا جاتا ہے کہ گائے کا گوشت شامل نہیں ہوتابلکہ مادہ کے بجائے نر یعنی بیل کا گوشت شامل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیرالہ کی ریاست میں اور بھارت کے شمال مشرقی صوبوں میں گائے کا گوشت کثرت سے کھایا جاتا ہے۔جہاں بھاجپا حکومت گائے کے تحفظ کے بارے میں شمالی بھارت کے صوبہ جات میں وعدہ بند ہے وہی شمال مشرق میں خاموشی برتی جا تی ہے چونکہ وہاں بھاجپا کو سیاسی بر قراری کیلئے محلی احزاب کی حمایت درکار ہے۔ ہندو مذہب میں گائے کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تقدس بھی سیاسی فوائد سے بندھا ہو ہے ، لہٰذا گائے کے تقدس کی نسبت پالیسی سازی میں یکسانیت نہیں جیسا کہ ایک مقولے میں یہ آیا ہے کہ آں دفتر گاؤخورد!بھارت کی سب سے بڑی ریاست یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ایودھیا ناتھ نے حال ہی میں اپنے ایک بیاں یہ کہا ہے کہ اُنکے دو سالہ دور حکومت میں کوئی بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔اُن کی بات کو صیح بھی مانا جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ انفرادی نوعیت کے کئی واقعات یوپی میں بھی پیش آئے ہیں ۔یہ بھی صیح ہے کہ یوپی کے قانون سازیہ اور کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی اُن کی آبادی کے تناسب سے نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اِس صوبے میں مسلمانوں کی آبادی کم و بیش 19فیصدی ہے۔ آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی نمائندگی قانون ساز ایوانوں میں نہ ہونے کے برابر کا واقعہ یوپی تک محدود نہیں بلکہ ایک حالیہ ا عداد و شمار میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں بھاجپا کے 1386ممبراں اسمبلی میں فقط 4مسلمان شامل ہیں۔اَس قلیل تعداد سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ملکی سیاست میںمسلمانوں کو کنارے پہ رکھنے کے سبب بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کسمپرسی کی حالت میں پڑی ہوئی ہے۔راجندر سچر کمیشن کی رپورٹ میں بھی اِس حقیقت کا ذکر جعلی حروف میں نمایاں ہے۔
فرقہ واریت کے اِس زہر کو جو کہ بر صغیر کے آر پار نمایاں ہے تاریخی پیرائے میں جانچنا ہو گا اِس حقیقت کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ یہ بر صغیر تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی عالمی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔اقوام عالم کی تاریخ سے ہمیں یہی سیکھ ملتی ہے کہ فرقہ واریت کی روش تسلط آمیز ہے جہاں رنگ ،نسل و مذہب کی بنیاد پہ ایک فرقہ دوسرے اِس حد تک حاوی ہونا چاہتا ہے جہاں کہ مغلوب شدہ فرقے کی ہر آس و سانس،بود و نابود،ہستی و نیستی صرف و صرف اُس کی نگاہ کرم کا محتاج بنی رہتی ہے۔ زمانہ قدیم میںرومی اِسی روش کو اَپنائے ہوئے علم و ہنر میںیکتا یونانیوں پہ حاوی ہوئے اور یہ تسلط صرف طاقت کے بل بوتے پہ تھا ۔نسل انسانی کے جبر و استداد کی بد ترین داستان امریکہ میں ملتی ہے۔ امریکہ 1492ء میں کولمبس نے دریافت کیا اور یہ ملک مختلف یورپی اقوام کی نقل مکانی سے آباد ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے مہاجرین میں یورپ کے فراری مجرم شامل تھے۔
امریکہ کی زر خیز مٹی پہ کھیتی باڑی کو فروغ دینے کیلئے سفید فام نسل کو مزدوروں کی ضرورت پڑی چناچہ افریقی منڈیوں سے سیاہ فام غلاموںکو خرید کے اُن کے مختلف قبیلوں و فرقوں کے مابین جنسی تعلقات قائم کروا کے کراس بریڈنگ یعنی نسل سازی کے تجربات جسمانی اعتبار سے طاقتور ترین افرادکی ساخت کو ممکن بنا نے کیلئے کئے جاتے تھے۔نسل سازی کے نت نئے تجربات سے سیاہ فام غلام اُنکے کھیت کھلیانوں میں تھکن کا نام لئے بغیرحل جوت کے اُن کے غلے کے گداموں کو بھرے کا بھرا رکھتے تھے۔1860ء میں ابراہیم لنکن کو جنوبی ریاستوں سے یہ بات منوانے کیلئے جنگ چھیڑنی پڑی کہ سیاہ فام نسل کو بھی انسانوں کی مانند جینے کا حق ہے جبکہ جنوبی ریاستیں مراعات کے خلاف تھیں۔ آج بھی اگر چہ سیاہ فاموں کو بہت ساری آئینی مراعات حاصل ہیںبہت سے سفید فام اُن کو آپنے برابرکا نہیں سمجھتے بلکہ اُسی طرح جیسے ہندوستان میں کچھ اونچی ذات والے مانو وادی فلسفے کو لکشمن ریکھا مانتے ہوئے نیچی ذات کے لوگوں کو برابری کا مقام دینے کا قائل نہیںجبکہ بھارت کا قانون اساسی ذات کی بنیاد پہ تفریق کے خلاف ہے۔
نسلی امتیاز کے ڈسے ہوئے ہندوستان میں نسل پرستی کازہر مٹ جانا چاہیے تھا کیونکہ دو سو سال سفید فاموں نے بلالحاظ مذہب و بین الُمذہبی فرقے صرف وصرف رنگ و نسل کی بنیاد پہ برصغیر میں بسنے والے کو آپنے برابر کا نہیں سمجھااور مٹھی بھر انگریزوں کیلئے حکومت کرنایہاں کی فرقہ پرستی سے آساں ہوا۔ پنڈت نہرو نے آپنی تحریروں میں یہ بات صاف کی ہے کہ تقسیم و حکومت کے اصول پہ عمل کرتے ہوئے برطانوی حکمرانوں کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں مدعا و مقصد مسلمانوں کی سیاسی و فوجی طاقت توڑنے کا تھا لہذا مدد ہندؤں سے لی گئی لیکن جوں ہی اکثریتی فرقے نے سیاسی حقوق کا مطالبہ شروع کیا تو مسلمانوں کے خدشات کو ہوا دی گئی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ در اصل یہاں کی سیاسی زمین اجنبی حکومت کے لئے زرخیز بنا دی گئی تھی اور اُس کی وجہ تاریخی محرکات تھے۔آج بھی یہ بحث بھارت میں چھائی ہوئی ہے کہ مسلمین کی 800سالہ دور حکومت کو خارجی حکومت کا عنواں دیا جائے یا اُسے محلی حکومت کا درجہ دیا جائے۔ بھار ت میں سنگھ پریوار تاریخ ہند کے مسلم دور کوخارجی تسلط قرار دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمود غزنوی کے بعد سب ہی مسلم شاہی خاندان اِس ملک کو وطن بنانے کی سعی میں مصروف رہے چاہے وہ ایبک تھے یا لودھی یا مغل ! یہ سب بھی حکمران خاندان ایشائی مرکزی سے نقل مکانی کر کے آئے بالکل اِسی طرح جیسے کہ شمالی ہند میں آریائی نسل کے لوگ دو ڈھائی ہزار سال پہلے ایشائی مرکزی سے نقل مکانی کر کے گنگا جمناکے کنارے بسنے لگے اور جیسے کہ جنوبی ہند کے دراوڑباہر سے آ کے یہاں بسے۔ہند و پاک کی اکثریت مطلق دیکھا جائے تو باہر سے آ کے مختلف ادوار میں بر صغیر میں آ کے بسنے لگی۔صرف و صرف جمنا کنارے کی کچھ بستیاں اور کچھ ادواسی قبیلے اصلی ہندوستانی ہیں۔یہاں کا المیہ یہی ہے کہ پہلے ادوار کے مہاجرین زماں بعدی کے مہاجرین کو خارجی قرار دیتے ہیں۔تاریخ کی الٹی گنتی باہمی اختلاف اور انجام کار بر صغیر کی تقسیم کا سبب بن گئی ۔ تقسیم کے 72سال بعد آر پار کی اقلیتوں کی کیفیت یرغمالیوں جیسی ہے۔
ہولی کے تہوار پہ سرحد کے آر پار یکے بعد دیگرے ان ہر دو واقعات نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ تقسیم کے باوجود اقلیتوں کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں ۔ بھارت کے قانون اساسی میں سیکولر چارٹر پر اصرار ہے یعنی ملکی مسائل میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں۔پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اُس کے پرچم کے سفید رنگ میں اقلیتیں چھلکتی ہیں۔ آر پار کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اقلیتیں قومی امانت ہیں، اگر چہ اس حرف میں وہ ظرف نظر نہیں آتا جو ہونا چاہیے تھا۔ پنجاب میں کرتارپور کی راہداری کی شروعات کو ایک اہم پیش رفت مانتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل باہمی سمجھوتوں سے حل کرنے کی ضرورت کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ہے خاص کر آج کے تیز اطلاعاتی دور میں جب کوئی بھی ہونی چھپائی نہیں جا سکتی ۔ہند و پاک کے مابین کئی مسائل لائنحل ہیں، ان میں سر فہرست اقلیتوں کا مسٔلہ ایک سوالیہ بن کے اُبھر چکا ہے جسے دیر یا سویر دونوں جانب حکومتوں کو ترجیحی طورحل کرنا ہی ہو گا بلکہ تاخیر سے مسائل شدید سے شدید تر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ بر صغیر کی مجموعی امن وامان کے لئے بد شگون ہو سکتا ہے۔
Feedback on: [email protected]