پاکستان کا پانی روکنے اور آبی معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو روزہ مذاکرات کا ایک دور مکمل ہو گیا ہے۔ یہ دھمکیاں شروع دن سے بھارت نے دیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دھمکیوں کی جانب دنیا کو متوجہ نہیں کیا گیا۔ عالمی بنک کا کردار بھی مثبت نہیں۔سابق سندھ طاس کمشنر جماعت علی شاہ اسے پاکستان کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہیں کیوں کہ عالمی بنک نے آبی تنازعہ کے حل کے لئے غیر جانبدار ماہر تقرر کرنے کی بھارتی درخواست منظور کی ہے۔ یہ دُرست ہے کہ جب ایشو ایک ہے، جگہ بھی ایک ہے، تو اس کے حل کے لئے دو عدالتیں یا دو طریقہ کار کیسے اپنائے جا سکتے ہیں؟ جب نریندر مودی کہتے ہیں کہ وہ سند ھ طاس معاہدہ ختم کر دیں گے اور پاکستان کا پانی روک دیں کے تو بھی عالمی بنک یا کسی بھی عالمی فورم نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بھارت یک طرفہ طور پر کوئی معاہدہ کیسے ختم کر سکتا ہے جب کہ اس کی عالمی ضمانت بھی موجود ہو؟ عالمی بنک کے صدرجم یانگ کنگ ہیںجو جنوبی کورین نژاد امریکی سائنسدان ہیں۔ عالمی بنک سندھ طاس معاہدہ کا گارنٹر ہے۔ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں پر درجنوں ڈیم اور بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے، کئی ایک مکمل ہو چکے ہیں۔ جہلم ، چناب اور نیلم پر ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر پر پاکستان اس لئے اعتراض کرتا ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کئے گئے اور کئی ایک ڈیم اسی طرز پرزیر تعمیر ہیں۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم پر بھی بھارت وہی پالیسی اختیار کی جو 1978میں سلال پروجیکٹ پر عملائی تھی۔
جہلم، چناب اور نیلم دریا بھارتی کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔ بھارت نے ر یاست جموں وکشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے۔ پاکستان سے تکنیکی حماقتیں اور کوتاہیاں ہوئیں۔ پاکستان نے کیسے ایک متنازعہ علاقے کے پانی سے متعلق ایک حریف ملک سے معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ بھارت کے زیرا نتظام کشمیر پر فوجی قبضے کو جائز قرار دینے کی ایک کڑی تھی۔ بھارت کے کشمیر کے ساتھ پانی ہی نہیں بلکہ دفاعی نوعیت کے مفادات وابستہ ہیں۔ بھارت کو کشمیر کا پانی، وسائل کی ضرورت ہے۔ اسے عوام سے کوئی غرض نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افسپا کے دبدبے پر فورسز کشمیری عوام کا قتل عام کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں پاک بھارت مذاکرات ہوئے۔ یہ مذاکرات دو سال بعد بحال ہوئے۔ بات چیت کا یہ فائدہ ہوا کہ بھارت دریائے چناب پر مجوزہ’’میار‘‘ ڈیم اور بجلی گھر منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے پر رضامند ہو گیا، یہ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ کا موقف ہے۔ بھارت سے دس رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا۔ پی کے سکسینہ بھارتی کمشنر ہیں۔ بھارتی وفد نے اجلاس کے منٹس دہلی حکومت کو پیش کرنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی موقف دینا ہے۔ یہ معاملہ تکنیکی نہیںبلکہ سیاسی ہے۔ بھارت کی سیاست میں پاکستان کو ہر قیمت پر نقصان پہنچانا سر فہرست رہتا ہے۔ مسلٔہ ایک میار ڈیم کے ڈیزائن کا ہی نہیں ہے بلکہ چناب پر تعمیر ہونے والے پکال گل، کلنائی بھی مسلہ بنے ہیں۔ ان کے ڈیزائن بھی پاکستان کے مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے لئے تیار کئے گئے ہوں گے۔ اگر بھارت لوئر کلنائی منصوبے پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتا ، جیسے کہ بیگ صاحب کا دعویٰ ہے تو وہ ایسا ڈیزائن تیار ہی نہ کرتا۔ اس لئے کسی جلد مفاہمت کی امید صرف خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستانی ماہرین کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کر لیا۔ مذاکرات میں پکال گل منصوبے پر پاکستانی اعتراضات کو بھارت نے خاطر میں نہیں لایا۔ یہ منصوبہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی پہلے فیز میںپیدا کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔اس کے سپل ویز اور سٹوریج پر پاکستان کو اعتراض ہے۔ میار بجلی گھر کے پہلا فیز 120میگاواٹ کا ہے، اس کے ڈیزائن کا بھی مسلٔہ درپیش ہے۔
بھارت مون سون بارشوں کے موسم میں پیشگی اطلاعات اور دریائوں میں پانی کے بہائو کے اعداد و شمار دینے میں بھی ٹال ومٹول کرتا ہے۔ مذاکرات کے دوران یہ معلومات فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود دلی اپنے وعدوں کی پابندی نہیں کرتی۔ اس بار بھی ایسا ہو ۔ اگست میں دہلی میں کمیشن کے آئیندہ مذاکرات ہوں گے۔ یہ بات چیت پاکستان کی ضرورت، فائدہ مندی کے لئے ہی نہیں بلکہ اس میں پاکستان کا مفاد بھی مدنظر رہتا ہے۔ بھارت نے ابھی تک پاکستانی ماہرین کو چناب پر زیر تعمیر منصوبوں کا دورہ کرانے کی اجازت نہیں دی ہے البتہ کشن گنگا پروجیکٹ کا دورہ کرانے پر غور کرنے کا کہا ہے۔ کشن گنگا ڈیم دریائے نیلم کے بہائو کو روکنے کی کوشش ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت کا یہ منصوبے انتہائی خطرناک ہے۔ یہی راستے چین کی طرف بھی جاتے ہیں۔بھارتی کشمیر میں بانڈی پورہ سے گریز تک بھارتی انجینئرز کو ہی کام پر لگایا گیا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ مزدور بھی کشمیری نہیں بلکہ بھارت سے لائے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد صرف ڈیم کی تعمیر یا بجلی گھر ہی نہیں ہو سکتی بلکہ مبصرین کو خدشہ ہے کہ بھارت زیر زمین سرنگیں اور جنگی نظام وہاں قائم کر رہا ہے۔ اس علاقے میں کشمیریوں کا داخلہ مبینہ طور ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ بھارت کے اس علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات اور رازداری سے نئے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
اسلام آباد آئے بھارتی وفد کی رائے تھی کہ اسلام آباد کے بعد اپریل میں واشنگٹن میں مذاکرات کئے جائیں۔ بھارت کشن گنگا ڈیم تنازعہ کو دع طرفہ طور پر طے کرنا چاہتا ہے ۔ پاکستان اس مسلٔہ کو ثالثی عدالت میں لے جانا زیادہ مناسب سمجھتا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے میں نرمی چاہتا ہے جب کہ یہ معاہدہ ہی متنازعہ خطے کے حل طلب ہونے کے باوجود کیا جانا ہی غیر قانونی ہے۔ بھارت کشن گنگا ڈیم بنا کر اس پر 330میگاواٹ بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ چناب پر 850میگاواٹ کا ’’رتلے ‘‘بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے۔ یہ دونوں منصوبے پاکستان ثالثی عدالت میں لے جا رہا ہے۔ عالمی بنک کے بھی رجوع کیا گیا ہے۔ عالمی بنک کی نگرانی میں دونوں منصوبوں پر پاکستان بھارت کے درمیان سیکریٹری سطح کے مذاکرات 11؍اپریل سے امریکہ میں متوقع ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریائوں بیاس، راوی اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا اورمغربی دریائوں چناب، جہلم اور سندھ کو پاکستان کے حصے میں آیا۔ جو دریا بھارت کو دیئے گئے، ان کی ایک بوند بھی پاکستان کو نہیں ملی۔ دریائے راوی صحرا بن چکا ہے، جہاں کشتیاں چلتی تھیں، وہاں آج ریت کے ڈھیر ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے حصوں کے دریائوں کے پانی کو بھی روک لیا ہے۔ ان دریائوں کا رخ موڑا جا رہا ہے جس پر آج بھارت سے بات چیت ہو رہی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ عالمی بنک غیر جانبدار ماہر تقرر کرے اور پاکستان چیئر مین عالمی عدالت انصاف کی تقرری کے حق میں ہے۔ دونوں ممالک نے درخواستیں دی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں جن سنگھی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے حالیہ مہینوں میں 15ارب ڈالرز کے پن بجلی گھروں کی تعمیر شروع کی ہے۔