جموں// برصغیرکے ممتازغزل گوشاعرپروین کماراشک حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے صبح 3.30 بجے پنجاب کے شاہ پورکنڈی پٹھانکوٹ میں واقع اپنی رہائش گاہ پرانتقال فرماگئے اوریہ خبرپھیلتے ہی ادبی دنیامیں صف ماتم بچھ گئی۔آنجہانی اپنے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹی اوردوبیٹے چھوڑگئے ہیں۔وہ یکم نومبر 1951 کو پنجاب کے شہرلدھیانہ میں پیداہوئے۔سن شعورکوپہنچے تو شاعری مزاج میں موجودپائی، اشک ؔ کوتخلص کے روپ میں نام کاحصہ بنایا ۔ آباء کاتعلق ہوشیارپورسے تھا مگر بعدمیں شاہ پورکنڈی پٹھانکوٹ میں آکرآباد ہوگئے ۔ابتدائی تعلیم پٹھانکوٹ سے حاصل کی اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد رنجیت ساگرڈیم میں بطورانجینئر ملازمت کرلی ۔آنجہانی نے اپناپہلاشعر بہت کم عمری میں کہاجوکچھ یوں تھا۔وہ کہتے تھے محبت کا کسی سے ذکرمت کرنا ۔بناکرغیر کواپنا، تماشاخود بناڈالا۔پروین کماراشک ؔ اُردوکے کہنہ مشق شاعر اورصوفی رجحان کے مالک تھے ۔ان کی شاعری میں آپ کوجابجا صوفیانہ رنگ ملے گا۔انہوں نے اُردومیں چارشعری مجموعے ’’دربہ در ‘‘ 1981، چاندنی کے خطوط 1992 اور ’دُعازمین ‘ 2009 ،لفظ قلندر(پنجابی)جدیداُردوغزل کے سرمائے میں گراں قدراضافہ ہیں۔ آنجہانی شاعر پروین کماراشکؔ فراق گورکھپوری ایوارڈ ، شہنشاہ ِ غزل ایوارڈ، غزل ہیروایوارڈ ،غزل بھاسکرایوارڈ، محکمہ السنہ پنجاب یوپی اُردواکادمی ایوارڈ ،بنگال اُردواکادمی ایوارڈ ، بہاراُردواکادمی ایوارڈ سے سرفراز ،پروین کماراشک وزیراعلیٰ پنجاب، وزیرخزانہ پنجاب ،گورنرہماچل پردیش کے ہاتھوں کے بارمعززہوچکے ہیں۔اشک کے کوئی 300 سے زائد اشعار پوری اُردودنیامیں مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ جن میں ؎میں سامان چھوڑے جارہاہوں ۔کہ گاڑی مِل گئی اُس پار والی ؎اے خُداچھین لے مجھ سے مِری کافرآنکھیں ۔تُو مِرے سامنے تھا مجھ کودکھائی نہ دیا۔ ؎جوزخم دیا تونے دکھایانہیں جاتا۔ جوحال ہمارا ہے سُنایا نہیں جاتا ۔ ؎ہم دِل پہ اٹھالیتے ہیں غم دونوں جہاں کے ۔ اِک شاہاتیراغم کہ اٹھانہیں جاتا۔ان کی شاعری پربرصغیرکے قدآوروممتازنقاد مثلاً وزیرآغا، احمد ندیم قاسمی ، ساقی فاروقی ، نہ افان ، محمدعلوی، ڈاکٹرحامد ی کاشمیری، افتخارعارف۔منشایاد،ڈاکٹرقدوس جاوید،خالدحسین (پنجابی افسانہ نگار) اورڈاکٹرستیہ پال آنندوغیرہ نے تبصرے کرکے ان کی شاعری کوداد وتحسین سے نوازچکے تھے ۔پروین کماراشک ؔ کے گیت کئی معروف گلوکاروں مثلاً دلیرمہدی ،روپ کمار راٹھور، انورصابری ، انورادھاپوڑوال، جسپند رنروالا ،الطاف راجا ، رمن کپور، شیکرسہنی ، وغیرہ نے گائے ہیں۔آنجہانی شاعرکی زبان میں سادگی ،مطالیب ومفاہیم گہرے ،تخیل گہرا تھا۔انہوں نے عمرکے آخری حصے میں اپنی اُردوشاعری کے ترجمے پرمشتمل پنجابی میں شعری مجموعہ مست قلندرشائع کیاجس کو جموں کے معروف افسانہ نگار خالدحسین نے شائع کروایا۔آنجہانی اشک ؔ کچھ ہی برس پہلے ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے ۔وہ اکثرادبی مجالس میں شریک ہوکر محفل کامحوربن جاتے تھے۔پاکستان کے پاکستان پوسٹ نامی ماہانہ اخبارمیں شائع ایک انٹرویومیں وہ ادب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ادب قلب وذہن اورروح کی تسکین کرتاہے ۔یہ آدمی کی اپنی اُپچ ہے کہ وہ کیاپسندکرتاہے ، رومانٹک پسند ہونا جدیدیت کاحامل ہونایاروایتی طرزِ زندگی کاحامل ہونا ، ہرانسان کی اپنی سوچ اورفکر کے مطابق ہوتاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ مطالعہ ایک ایسی چیزہے جوقاری کوبتاتا ہے کہ ادب کیاہے ،مطالعہ کے بغیر ایک اچھا شاعریاادیب نہیں بناجاسکتا علم وعمل کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے ۔اُردوکے بارے میں اشک ؔ کہتے ہیں کہ ’میں انتہائی عاجزی سے کہہ سکتاہوں کہ ہماری اُردوزبان یقینابین الاقوامی زبان ہے اورمقبول ہے ۔ دنیابھرمیں اُردوکے دیوانے اورچاہنے والے ہزاروں، لاکھوں، بلکہ کروڑوں کی تعدادمیں ہیں ۔اُردودنیاکے بے شمار ملکوں میں چمک دمک رہی ہے۔اُردودنیاکے ہرحصے میں موجود ہے۔وہ مزیدکہتے ہیں کہ میں ہمہ وقت صوفی ہونے کے ناطے دعاکروں گاکہ خدائے پاک ، پاک بھارت چاہے یہ دونوں ملک الگ الگ رہیں مگران میں پیارمحبت ہو عوام ایک دوسرے کے ہاں آجاسکیں۔آمین۔اس کے علاوہ پروین کماراشکؔ کی غزل گوئی اورشخصیت کے حوالہ سے متھیلا یونیورسٹی کی ایک ریسرچ اسکالر نے شعبہ اُردوکے سربراہ ڈاکٹراحتشام الدین کی نگرانی میں سال 2013-14 میں تحقیقی مقالہ تحریرکرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی ۔پروین کماراشک ؔ کی وفات پر جموں کشمیرکے ادباء جن میں خالدحسین ، پروفیسرشہاب عنایت ملک،ذوالفقارنقوی، لیاقت جعفری ،شام طالب ،امین بنجارہ ، امین بانہالی ، پرویزمانوس،بشیرؔمہتاب نے بھی گہرے رنج ودُکھ کااظہارکیاہے اورموصوف کی اچانک وفات کو اُردوادب کیلئے ناتلافی نقصان قراردیاہے۔علاہوہ ازیں جموں کشمیرکلچرل اکادمی کے سیکریٹری ڈاکٹرعزیزحاجنی نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اُردوشاعر پروین کماراشک کی وفات پرتعزیت کااظہارکرتے ہوئے اسے اُردوادب کیلئے بہت بڑے نقصان سے تعبیرکیا۔انہوں نے کہاکہ پروین کماراشکؔ اکثرکلچرل اکادمی کی ادبی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ڈاکٹرحاجنی نے کہاکہ آنجہانی کے شعری مجموعے لفظ قلندر(پنجابی، دُعازمین اوردربہ در میں شائع کردہ ان کی شاعری کوپوری دنیامیں پڑھاجاتاتھااوربڑے پیمانے پرسراہاجاتاتھا۔