رخسانہ کوثر، پونچھ
سڑک کسی بھی علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔جہاں سڑکیں پہنچی ہیں ،وہاں کی ترقی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کئی علاقہ جات سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ان علاقہ جات کی ترقی سست رفتار کا شکار ہے۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے صحت،تعلیم اور ترقیاتی منظر نامہ شکار ہوتا ہے۔گویا سڑک کسی بھی علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل کسی بھی علاقہ خاص طور پر دیہی علاقہ کی ترقی کا پہلا قدم وہاں بہتر سڑکوں کاہونا مانا جاتاہے۔گذشتہ کچھ سالوں میں خاص طور پر پردھان منتری گرام سڑک یوجنالانچ ہونے کے بعد سے ملک کے بیشتردیہی علاقوں کی سڑکوں کی حالت کافی بہتر ہوئی ہیں۔لیکن اب بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں سڑکوں کی حالت میں مزید کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔دیگر بنیادی ڈھانچے کی طرح سڑک کی حالت بھی خستہ بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ ان کی تعمیر کے لئے بجٹ بھی مختص کئے جاتے ہیں۔یوٹی جموں وکشمیر کا بجٹ 2022-23پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ رابطہ ایک ترجیحی شعبہ ہے اور جموں و کشمیر یوٹی کی ہمہ جہت ترقی کے لئے اہم ہے اور جموں و کشمیر میں سڑکوں اور پلوں کے نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنانے کے لیے 6296 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔قومی شاہراہ کے چار بڑے منصوبے جیسے۔ جموں ۔اکھنور روڈ، چنانی ۔سدھ مہادیو روڈ، بارہمولہ ۔گلمرگ روڈ اور سیمی ۔رنگ روڈ جموں کو مکمل کیا جا رہا ہے۔ دہلی ۔امرتسر۔کٹرا ایکسپریس وے پراجیکٹ بھی حکومت کی ایک اہم پہل ہے اور2022-23 کے دوران مختلف اجزاء کے تحت مجموعی طور پر 6000 کلومیٹر سڑکوں کی بلیک ٹاپنگ حاصل کرنے کا ہدف بھی حکومت نے حاصل کرنا ہے۔
اگر جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو یہاں کی عوام کو سرکاری سہولیات کا نہ ملنا کوئی خاص بات نہیں ہے اور جب بات سڑک کی کی جائے،جو ایک چھوٹے سے گائوں کو شہر میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،تو یہاں آج بھی ان کا فقدان ہے۔سڑک کے نام پر یہاں کی عوام کو صرف ٹوٹے راستے ہی دستیاب ہیں۔جس پر آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آتا رہتا ہے۔ضلع پو نچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں اعظم آباد کے پیرو والی وارڈ نمبر تین کے لوگ سڑک سے محروم ہیں۔ جو حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سڑک دستیاب کروائی جائے جو ترقی کی شہ رگ ہوتی ہے۔اس سلسلے میں مقامی چودھری عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ہماری سڑک کیلئے پنچائت کی جانب سے16 لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس سڑک کا کام ادھورہ رہ گیا ہے۔انکا الزام تھا کہ چارلاکھ روپے ٹینڈر ٹھیکیدار کے نام پڑا تھا لیکن وہ کام بھی مکمل نہیں ہوا ،جس کی وجہ سے لوگوں کی زمین برباد ہوئی ہے نہ کہ سڑک مکمل ہوئی ہے۔اسی سلسلے میں بات کرتے ہوئے تنظیم چوہدری نے بتایا کہ ہم سڑک کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ کالج کی طالبہ ہوں اور کالج جانے میں ایک گھنٹہ آنے اور ایک جانے میں لگ جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پیدل سفر کی وجہ سے میرا کالج دیر سے پہنچنے کی وجہ سے میری تعلیم متاثر ہوتی ہے۔وہیں اعظم آباد پنچایت کے سرپنچ چوہدری منظور حسین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ میری پنچایت کے اندر یہ واحد وارڈ اور محلہ ہے، جس کے اندر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی سڑک نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ میری کاوشیں ہیں اس سڑک کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔انہوں نے متعلقہ انتظامیہ سے اس سلسلے میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس سڑک کے کام کو پورا کرنے میں ہماری مدد کی جائے۔وہیں اعظم آباد وارڈ نمبر 3 کے رہائشی نذیر حسین کا کہنا ہے کہ ہمیں سڑک کی بہت ضرورت ہے۔موصوف نے کہاکہ اگر سرکار کی جانب سے پی ایم اے وائی کی قسط ملتی ہے تو اپنے گھر تک مکان کی تعمیر کیلئے سامان پہنچانے کیلئے ہمیں کافی کیریج برداشت کرنا ہوگا،جوکہ غرباء کیلئے ناقابل برداشت بوجھ ہی نہیں بلکہ بہت بڑے مسئلے کے مترادف ہوگا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی علاقے کی ترقی میں سڑک کا اہم کردار ہوتا ہے۔لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ لوگ سڑک جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔مقامی عوام کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری کی جانب سے یہاں کے عوام کو پی ایم اے وائی اسکیم کے تحت مکان کی تعمیر کیلئے رقم دی جائے تو یہاں مکان کی تعمیر کیلئے ضروری سامان پہنچانا کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔اگر یہاں سڑک کی تعمیر ہو جائے تو یقینا ًعوامی مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے۔عوام اپنی لازمی ضروریات کی چیزیں کو پہنچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ متعلقہ انتظامیہ کو چاہئے کہ اس سڑک پر خرچ کئے گئے پیسے کا حساب لیا جائے اور عوامی مشکلات کے ازالہ کیلئے اس سڑک کی تعمیر کو مکمل کیا جائے۔(چرخہ فیچرس)