شوپیاں//سدھو شوپیاں کی 14سالہ انشاء مشتاق بیرون ریاست کے اسپتالوں میں تین ماہ گزارنے کے بعد واپس گھر لوٹ آئی ہے۔ انشاء مشتاق آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئی تھی مگر آنکھوں کی بصارت واپس آنے کی تمام امیدیں ختم ہونے کے بعد والدین اس کو آبائی گھر واپس لوٹ آئے ہیں۔ انشاء مشتاق کا ڈاکٹر بننے کا خواب تو چکناچور ہوگیا ہے مگر اس نے ڈاکٹر بنے کی اُمید نہیں چھوڑی ہے۔ اسی کی آخری خواہش اپنا سکول دیکھنا اور اساتذہ سے ملنا ہے۔ گھر کے ایک کونے میں بستر پر لیٹی انشاء پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے بیچ بیٹھی تھی جبکہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ا نشاء نے اپنی ماں سے دریافت کیا کہ کیا وہ آنسو بہارہی ہے مگر ماں نے آنسو پوچھ کر کہا نہیں۔ انشاء نے پوچھا’’ باہر دن ہے یا رات‘‘ جبکہ ماں نے جواب دیا کہ باہر دن ہے۔ انشاء نے کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ میں کیچن میں بیٹھی تھی اور اسی دوران میں نے گولیاں چلنے اور لوگوں کی چیخوں کی آوازیں سنیں۔‘‘ انشاء نے مزید کہا کہ میں نے کمرے کی کھڑکیاں کھولیں تو وہاں موجود فورسز اہلکاروں نے مجھے نشانہ بنا کر پیلٹ مارا۔‘‘ انشاء نے کہا کہ میںپیلٹ لگتے ہی نیچے گر گئی اور مجھے کچھ بھی نہیں پتہ،بعد میں مجھے جب ہو ش آیا مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر فورسز اہلکاروں نے مجھ کو پیلٹ کا نشانہ بنایا، میں اب ڈاکٹر کیسے بنوں کیونکہ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا لیکن مجھے اُمید ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں گی۔ انشاء نے کہا کہ اب میرا صرف یہی خواب ہے کہ میں دوبارہ اپنا سکول دیکھوں، میں اپنی جماعت کا کمرہ دیکھنا چاہتی ہوں، اپنے دستوں کو دیکھنا چاہتی ہوں اور اپنے اساتذہ کو زندگی میں ایک مرتبہ دیکھنا چاہتی ہوں مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں دیکھ کیوں نہیں پاتی جب کہ میں کئی جراحیوں سے گزر چکی ہوں۔ انشاء نے پرنم آنکھوں سے کہا ’’ میں اس شخص کو بد دعائیں دے رہی ہوں اور زندگی بھر بد دعائیں دیتی رہوںگی۔ انشاء مشتاق کی ماں افروزہ نے کہا کہ وہ اب ہر چیز کیلئے دوسروں پر منصر ہے۔ افروزہ نے کہا کہ ہم اسکو اب اکیلے نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اس کو ہر چیز کیلئے مدد کی ضرورت ہے، ہمیں اس کی صحت یابی کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے انشاء کے والد مشتاق احمد نے کہا کہ ہماری ساری اُمیدیں ختم ہوگئی ہیں اور اگر اب وہ ٹھیک ہوتی ہے تو صرف ایک معجزہ ہی ہوگا۔ مشتاق احمد نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو تمام بڑے اسپتالوں میں لے گیا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مشتاق احمد نے کہا کہ ایمز اور ممبئی میں تمام ڈاکٹروں نے میری بیٹی کا علاج کیامگر آخر انہوں نے کہا کہ وہ دیکھ نہیں سکتی۔مشتاق احمد نے کہا کہ میں نے ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ میں انشاء کو اپنی آنکھیں دوںگا مگر انہوں نے کہا کہ کسی بھی عطیہ سے انشاء دیکھ نہیں سکتی،میں نے اپنی بیٹی کو صدر اسپتال منتقل کیا جہاں سے ایمز منتقل ہوئے مگر ایمز میں اسکو ٹروما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں وہ دو ماہ رہی جس دوران تین جراحیاں انجام دیں گئیںمگر اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ بعد میں ہم اسکو ممبئی لے گئے جس میں ضلع کمشنر شوپیاں نے ہماری مدد کی۔ ممبئی میں انشاء کی بائیں آنکھ کا آپریشن انجام دیا گیا مگر بعد میں وہاں بھی ڈاکٹروں نے کہا کہ انشاء اب دیکھ نہیں سکتی۔ مشتاق احمد نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اب دیکھ نہیں سکتی مگر ہم ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی اور سزا کا مطالبہ کرتے ہیں جنہوں نے میری بیٹی کی زندگی کو برباد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس زمین کا ایک چھوٹا ساٹکڑا ہے جو میری کمائی کا واحد ذریعہ ہے ، میں اسکو بھی انشاء کی بصارت کیلئے فروخت کرنے کو تیار ہوں۔ مشتاق احمد نے کہا کہ میں پیشے سے ڈرائیور تھا مگر حادثہ ہونے کی وجہ سے وہ کام بھی چھوڑنا پڑا۔9ویں جماعت کی انشاء مشتاق گرین لینڈ سکول شوپیاں کو 10جولائی کی شام کو پیلٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے اسکی دونوں آنکھیں ناکارہ ہوگئی ہیں۔