آج میں آفس سے ذرا جلدی گھر آیا ِ،میں راستے میں اپنی ہی دھن میں چل رہا تھا کہ اچانک میری نظر بچوں کی ایک ٹولی پر پڑی۔یہ بچے یکجا ہو کر ایک بد مست فقیر کو دیوانہ سمجھ کر چھیڑ رہے تھے اور اس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر میں نے بچوں کو آوازدے کر ایسا نہ کرنے کے لیے کہا۔بچے میری ڈانٹ سے بھاگ تو گئے مگر وہ دیوانہ وہیں کھڑا مجھے گھورتا ہی رہ گیا۔میں اس کے پاس گیا تو اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ،چہرے سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔یہ کرنیں اس کی حسرت بھری جوانی کا ثبوت دے رہی تھیں ۔نہایت کم عمری میں یہ لڑکا مجنوں کی حالت اختیار کئے بیٹھا تھا۔نہ جانے کس غم نے اسے اس موڑ کی اور دھکیل دیا تھا ۔اس کے بعد اس نے دھیمی آواز میں کچھ کہا جو مجھے ٹھیک سے سنائی نہ دیا اور وہاں سے چل دیا ۔یہ دھیمی آواز شاید میرا شکریہ ادا کر رہی تھی ۔ خیر گھر جا کر میں اپنے کام میں مست ہو گیا ۔دو چار دن بعدمیرا اس کوچے سے دوبارہ گزر ہوا مگر میں نے اس مجنون نما جوان کو اس گلی میں نہ دیکھا ۔ اس کی حسرت بھری نگاہوں نے نہ جانے مجھ پر کیا جادو سا کر دیا تھا کہ میں اس کا اتہ پتہ معلوم کرنے کے لئے مجبور ہو گیا۔ وہیں پاس والے ایک دکاندار سے جب میں نے اس دیوانہ لڑکے کے بارے میں دریافت کرنا چاہا تو اس نے کہا ارے صاحب !آپ اس مجنوں نما نو جوان کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں کہ آخر انسان تو انسان ہی ہے اور سینے میں دل رکھتا ہے۔ضمیر جب بیدار ہو جاتا ہے تو خود بہ خود دوسروں کا درد دل میں محسوس ہونے لگتا ہے ۔سماج میں تو نہ جانے کتنے درد کے مارے موجود ہوتے ہیں ۔اکثر تو اپنے درد کو چھپائے رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے غم و اندہ کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں،مگر سماج کے کچھ افراد تو اتنے اُتاولے اور کم ظرف ہوتے ہیں کہ وہ غم و آلام کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ایسے ہی لوگ عجلت میں اپنا ذہنی توازن کھودیتے ہیں اور مجنون یا دیوانہ بن جاتے ہیں ۔ان باتوں کو ذہن میں لا کر میں مذکورہ جوان کی تلاش میں نکلا ۔ظاہری دیوانگی تو کبھی کبھی اندر سے معنی خیز ہوتی ہے۔لوگ ان جیسے بدحال جوانوں کو فوراََذہنی امراض سے وابستہ شفا خانوں کی نذر کرتے ہیں ۔مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس کوشش میں گلی کوچے بدلتا رہا کہ آخر وہ مجنون نما نو جوان گیا کہاں ؟
میرے ذہن میں نہ جانے کتنے سوالات اُمڈ آئے کہ کن حالات سے یہ جوان دو چار ہوگیا ہوگاجو اس پر دیوانگی طاری ہوگئی۔آخر کار اس کی ہمسایگی میں ایک شخص ملا اور اُس سے واقعات پسِ منظر کی چھان بین شروع کر لی۔موصوف نے کہا کہ اس سے اپنے والدین اور رشتہ داروں نے بھی چھوڑ دیا ہے۔وہ اس کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتے ہیں ۔ہمارا سماج ایسے عناصر سے بھراپڑا ہے جو خود غرض اور مطلب پرست ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ان جوان سال ذہنی مریضوں کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے اپنے کام دھندوں میں مست و مگن رہتے ہیں ۔جس ہمسایہ جوان سے میری گفتگو ہوئی اُس نے باتوں ہی باتوں میں بتا دیا کی یہ تعلیم یافتہ جوان نہ جانے کس لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوگیا تھا۔والدین پر بات عیا ں ہو گئی تو انہوں نے لڑکی والوں کو رشتے کے لیے پیغام بھیج دیا ۔کئی معتبر اشخاص کو روانہ کرتے رہے ۔لڑکی کے والدین آج کل کرتے رہے لیکن آڑے جو چیز آگئی وہ تھی ذات پات ۔لڑکا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور لڑکی ایک بڑ ے خاندان سے وابستہ تھی ۔اُس کا باپ ایک سرکاری عہدے پر فائز تھا جب کہ لڑکے کا باپ ایک معمولی کاریگر تھا ۔اس طرح لڑکی والوں نے اس رشتے کے لئے حامی نہیں بھر لی ۔یہی لڑکے کے ذہنی بگاڑ کا سبب بنا ۔دراصل موجودہ تعلیم میں ایسی بہت ساری خامیاں ہیں جو ایک طالبِ علم کے ذہن نشین نہیں ہوتیں کہ وہ زمانے کے اونچ نیچ سمجھتا اور ان طوفانوں کا سامنا کر سکتا جو اُ سے اپنے ساتھ بہالے جاتے ہیں۔ خیر یہ سب سُن کر میرا دل رنجیدہ ہوا مگر پکا ارادہ کیا کہ اس جوان کے درد و غم کو کم کرنے کی کوشش کروں تاکہ یہ راہِ راست پر آسکے۔
ہمارا سماج ان بد عات سے بھرا پڑا ہے ۔جن میں ذات پات،امیری غریبی ،اونچ نیچ اوررنگ و نسل کی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں ۔ان دیواروں کو آخر کون مسمار کرے گا ۔ان بدعات نے اور ان دیواروں نے نہ جانے کیسے کیسے تازہ دم اور جذباتی جوانوں کو مسمار کر دیا اور وہ تباہ حال و برباد ہوگئے۔
کئی روز بعد میں اپنے دفتر سے گھر کی طرف آرہا تھا تو میں نے برِ لب دریا لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ کو دریا کی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔میں نے ایک تماشہ دیکھنے والے شخص سے دریافت کیاکہ بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔تو وہ دکھ بھرے اور افسوس بھرے لہجے میں بتانے لگا کہ بھائی کسی جوان کی لاش دریا سے نکالی جارہی ہے ۔میں بھی دریا کے کنارے پر دیکھنے چلا گیا۔ میرے حواس باختہ ہوگئے جب میں نے اسی مذکورہ جوان کی لاش کو دیکھا ۔افسوس اور واویلا کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔سب ہی جمع شدہ لوگ کفِ افسوس مل رہے تھے۔کوئی اس کی جوانی پر افسوس کر رہا تھا تو کوئی اس کی غربت پر۔کوئی ہمارے معاشرے کی بدحالی کا رونارو رہا تھا تو کوئی حالات پر۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔اصل ماجرا کسی کو معلوم نہیں تھاکہ اس جوان سال آدمی پر کیا گزر رہی تھی ۔ان ہی حالات و واقعات اور اس لاش کا چہرہ سامنے آ کر ضمیر پوچھ رہا تھا کہ تلخ حقائق سے اصل میں واقف کون؟
���
رابطہ؛محلہ قاضی حمام بارہ مولہ ،موبائل نمبر؛9469447331