صادق ہوں اپنے قول کا غالب ؔخدا گواہ
کہتاہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیںمجھے
اگرچہ جموں وکشمیر کو رشوت اور بھرشٹاچار کے مسئلہ پر ملک بھرمیں اعلیٰ ترین مقام حاصل رہاہے۔ ایک زمانہ میں ہندوستانی ریاستوں میںسے ایک سروے کے مطابق اس سلسلہ میں جموں وکشمیر کو دوسرا مقام حاصل تھالیکن موجودہ حالات میں اس مسئلہ کی نوعیت اور شدت کو دیکھ کرشاید یہ کہنا مبالغہ آمیزی قرارنہیںدیا جائے گا کہ اسے اول مقام حاصل ہوگیا ہوگا۔ زبانوں زبانی جموںوکشمیر کا ہر فرد بشر اس امر کا قرارکرتاہے کہ حکومت کے بالائی ایوانوں سے لے کر ادنیٰ اکائی تک رشوت کا دور دارہ ہے اور کوئی کام رشوت ستانی کے بغیر سرانجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایک دفترسے دوسرے دفتر تک کا غذات پہنچنے کے لئے اسی رشوت کا وسیلہ استعمال نہیں کرناپڑتابلکہ ایک میزسے دوسرے میز تک کاغذات پہنچنے کے لئے بھی رشوت کا ہی سہارا لیناپڑتاہے۔تمام قسم کی تعمیرات، پروجیکٹوں، منصوبوں،ا سکیموں اور سرکاری امورات کی تکمیل کے لئے نیچے سے لے کر اوپر تک رشوت کے حصے اور نرخ نامے مقرر ہیں اورسائلوں ( یعنی گاہکوں) کو بلا رُدورعایت ، بلاکسی عذر اور بلا کسی چوں چرا کے ان مقررہ حصصں کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ قبیح عمل کہیں دلالوں کے ذریعے اور کہیں درمیانہ داروں کی عدم موجودگی میں سرکاری دفاتر اور محکمہ جات میںبابوؤں کی آشیرواد سے کھلے عام جاری ہے اورانسدادِ رشوت ستانی کے تمام اعلانات اور وعدہ وعید کی مٹی پلید کر تا ہے ۔ ستم یہ کہ خال خال بھی کہیں جوابدہی ہے اور نہ کوئی باز پُرس کرنے والا نظرآتاہے۔
مختلف محکموں کے لئے مخصوص رقومات کی تقسیم اسی حساب سے ہوتی ہے اور رفائہ عامہ کے لئے مخصوص رقومات کا زیادہ تر حصہ اُن مخصوص امورات پر خرچ ہونے کی بجائے انفرادی جیبوں اور تجوریوں میں دن رات چلا جاتاہے۔ عوام میں یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں بلکہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ بھرشٹاچاری کاروبار میں صرف بیوروکریسی کے اعلیٰ حکام اور نچلے درجے کے سرکاری عہدیدار ہی ملوث نہیںبلکہ پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ اکثر اراکین بھی اس کاروبار میں مبینہ طور ملوث بتائے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگرکورپٹ سیاست دانوں اور راشی بیوروکریٹوں اور ان کے ماتحت عملہ کے اتحادِ ثلاثہ سے لوٹ کھسوٹ اور غبن بازار گرم ہے لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ اس زبردست لوٹ کھسوٹ کے خلاف میڈیا بھی خاموش ہے بلکہ ان تلخ حقائق کی اَن دیکھی کرتاہے جب کہ عوامی مفادات کے نگہبان کہے جانے والے پارلیمانی ادارے اورسیاستدان بھی جان بوجھ کرچُپی سادھے ہوئے ہیں۔ میڈیا اور پارلیما نی پارٹیوں کے نیتاؤں اور سیاستدانوں کی اس مشترکہ خاموشی سے بادی ا لنظر میں یہی اخذ ہوتا ہے کہ شاید ریاست جموں وکشمیر میںرشوت اور بھرشٹاچار کے نام سے کوئی مسئلہ عوام کو درپیش ہے ہی نہیں بلکہ ان بدعات سے یہ ساری ریاست گویا رشک ِملائکہ اور پاک وصاف خطہ بن گیاہے لیکن حقیقیصور ت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ خزانہ عامرہ کا زیادہ تر حصہ راشی بیوروکریٹوں اور کورپٹ سیاستدانوں کی تجوریوں میں بھرا جارہاہے اور غریب اور مجبور انسانوںکے نا م پر خرچ کی جانے والی بجٹ کی کثیر رقومات کا کم ترین حصہ بھی ان کو تعمیر وترقی کے لئے دستیاب نہیںاور ساری مختص رقومات راشی بیوروکریٹوںا ن کے چیلے چانٹوں اور کرپٹ پارلیمانی سیاست دانوں کے عیش وعشرت میں اڑجاتی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کے باجود کہ جنتا کا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہورہاہے ، وزیراعظم سے لے کر ودسرے حکومتی اکابرین مسلسل بیانات کے گولے داغ رہے ہیں کہ ہماری حکومت میں رشوت کا بیڑا غرق ہوا ۔ ہمارے غریب وپسماندہ ملک کا ’’پردھان سیوک‘‘ امریکی صدر اوبامہ کا استقبال کرنے کے لئے دس لاکھ کا سوٹ زیبِ تن کر کے آیا ،یہ اس بات کا بلیغ اشارہ ہے کہ سیاست دانوں کے دل میں غریبوں کی سطح سے نیچے گزارہ کر نے والی جنتا کے لئے دیا مفقود ہے ۔ اس لئے ان سے یہ خیال وگمان کر نا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے کہ ایسے حکمران رشوت کے سمندر میں ڈبکیاں مارنے والی شارک مچھلیوں کا قلع قمع کرسکیں گے۔ مجھے اس حقیقت کی تشریح وتوضیح کر نے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ رشوت اور بھرشٹاچار ختم کرنے کے تمام حکمرانوں اور اپوزیشن کے پارلیمانی نمائندوں کے بیانات، تقریر یںاور بلند بانگ دعوئوں جیسے گورکھ دھندوں کے باوجود رشو ت اور بھرشٹاچار کی بدعت اور لعنت شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے اور حقیقت حال یہ ہے ؎
مریض عشق پر رحمت خدا کی
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ انسداد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کے خلاف اس ریاست میںنہ تو کوئی موثر قانون موجود ہے اور نہ ہی حکمرانوں یا اپوزیشن لیڈروںمیں کورپشن مخالف اعلانات اور نام نہاداقدامات کے باوجود کورپٹ عناصر کا عزم و ادارہ اور دم خم موجود ہے جس کے باعث یہ بدعت اور لعنت روز افزوں ترقی کے منزلیں ہی طے کررہی ہے۔ اگر عزم وادارہ ہو اور موثر قانون اور ضابطہ وذضع ہو تو کوئی ایسا کام نہیں جو سرانجام نہ دیا جاسکے۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کے انسداد کے سلسلہ میں سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سید کے 2002ء میںبرسر اقتدار آنے پر ایک احتساب کمیشن قائم کیاگیا تھااور احتساب قانون نافذ کیا گیاتھا۔ اگرچہ اس احتساب قانون بھی کئی نقائص موجود تھے لیکن دیانت دارانہ خدمت ِخلق کے جذبہ کے تحت سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر ۔پی ۔سیٹھی نے بلا تنخواہ کمیشن کے چئیرمین کا عہدہ قبول کیاتھا۔ احتساب ایکٹ کی کئی خامیوں کے باوجود جب انہوںنے کئی بیوروکریٹوں ، سیاستدانوں جن میںحکمران اور اپوزیشن کے چیدہ چیدہ لیڈر شامل تھے، کے خلاف رشوت اور بھرشٹاچار کے الزامات پر نوٹس ہی جاری کئے تھے تو ہاء ہاء کار مچ گئی تھی اور ایوان اسمبلی میں موجود پارٹیوں نے کمیشن کے خلاف بلا استثنیٰ واویلا شروع کردیاتھا اور کمیشن کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ مفتی محمد سید کے بعد جب غلام بنی آزاد وزیراعلیٰ مقرر ہوئے تو سرکار ی مداخلت کمیشن کے معاملات زیادہ تیز ہوگئی اور احتساب ایکٹ میںترمیم کرکے احتساب ایکٹ اور احتساب کمیشن کو ناکارہ بنانے کی کوشش کی گئی، جس پر بطور احتجاج جسٹس سیٹھی نے استعفیٰ دے دیا۔ تب سے احتساب ایکٹ اورا حتساب کمیشن جزو ِمعطل بن گیا ہے۔ اس ایکٹ اور کمیشن کی کارکردگی کے باعث سالہا سال کے بعد بھی اس کمیشن نے کوئی ایسی کاروائی عمل میںنہیں لائی جس سے رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کے خاتمہ کی بو باس آتی ہو۔
اب کچھ عرصہ پیشتر اُسی ترمیم شدہ ناقص احتساب ایکٹ کے تحت نئے احتساب کمیشن کے ممبران کا تقرر عمل میں لایاگیاہے لیکن اپنے قیام کے دوسال بعد بھی ابھی تک اس نے اپنی کارکردگی کاکوئی نادر اور قابل تعریف نمونہ پیش نہیںکیاہے جس سے رشوت ستانی اور بھرشٹاچار اور اس کے انسداد کی کوئی صورت نظرآتی ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ ناقص احتساب ایکٹ کی موجودگی میں تازہ قائم شدہ کمیشن بھی ناکارہ ثابت ہونے کی منزل میںداخل ہوچکاہے۔ ترمیم شدہ احتساب ایکٹ کے مطابق تفتیش اور تحقیقات کے لئے احتساب کمیشن کے باس اپنی کوئی مشینری ہی موجود نہیں ہے۔ اس ایکٹ کے تحت صرف وزراء ا ور ممبران قانون سازیہ کے خلاف شکایات زیرِسماعت لائی جاسکتی ہیں۔ بیوروکریٹوں اور دیگر ملازمین کو اس کمیشن کی دسترس سے باہر رکھاگیاہے۔حالانکہ وزراء اور ممبران قانون سازیہ رشوت اور بھرشٹاچار کے کار ہائے نمایاں بیوروکریٹوں اور سرکاری ملازموں کے ذریعہ ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ اُنہیں مستثنیٰٰ کرکے کسی کے خلاف الزامات ثابت کئے جاسکتے ہیں اور پھر بیوروکریٹوں دیگر سرکاری ملازموں کو کمیشن کے دائرہ کار اختیار سے باہر رکھ کر کیسے رشوت اور بھرشٹاچار کا انسداد کیا جاسکتاہے؟ اسے ہر ذی ہوش انسان بخوبی سمجھ سکتاہے ۔ علاوہ ازیں کمپیٹنٹ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر کمیشن کسی کو نوٹس تک بھی نہیں دے سکتاہے۔ ایسی صور ت میں ایسے کمیشن کو کیسے بااختیار کمیشن قراردیا جاسکتاہے؟ اور پھر اگر کسی وزیر یا ممبرقانون سازیہ کے خلاف الزامات ثابت بھی ہوجائیں تو کمیشن سزایابی کے لئے صرف سفارش ہی کرسکتاہے۔ اَز خودکوئی سزا نہیں دے سکتا ہے۔ ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی مطابق ایک معمولی مجسٹریٹ کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں کسی کو سزا دینے یا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن احتساب کمیشن کس طرح ایک موثر ادارہ ثابت ہوسکتی ہے؟ یہ امر ہر کوئی بخوبی سمجھ سکتاہے۔ علاوہ ازیں بھی احتساب ایکٹ میںایسی دفعات موجود ہیں جس کے راشی اور کورپٹ وزرا ء اور ممبران قانون سازیہ کے خلاف بھی کوئی کاروائی ناقص اور بے فائدہ بن گئی ہے۔
ان ہی اور ایسی ہی دیگر کئی وجوہات کی بناء پر کمیشن کے موجودہ چئیرمین نے احتساب ایکٹ کو ایک موقعہ پر ناکارہ کہتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ایک دوسرے ممبرنے اس احتساب ایکٹ کو دانتوں کے بغیر گدھا قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں اس کمیشن کے ذریعہ انسداد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کیسے ہوسکتاہے ؟ اس کا جواب کمیشن کے ممبران دے سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کمیشن کا چئیرمین ہی احتساب ایکٹ کو ناکارہ قانون سمجھا جاسکتاہے اور تین میں دوسرا ممبرا بغیر دانتوں کے گدھا تصور کرتاہے تو پھر ان حضرات نے ایسے احتساب کمیشن کی رُکنیت کیوں قبول کی ہے؟ اس کاجواب بھی کمیشن کے اراکین ہی دے سکتے ہیںلیکن ہرذی ہوش شخص بخوبی سمجھ سکتاہے کہ ایسا ناکارہ احتساب ایکٹ اور کمیشن انسداد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کا کوئی فریضہ سرانجام دینے کے قابل نہیں ہوسکتا۔مقام افسوس ہے کہ نہ حکمران پارٹیاں رشوت ستانی اور بھرشٹاچار سے تنگ دست عوام کی مشکلات اور مصائب سمجھ کر انسداد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی نام نہاد پارلیمانی اپوزیشن پارٹیاں اس سلسلہ میں زباں کھولنے کے لئے تیار ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ دونوں انسداد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار کے سلسلہ میں کوئی موثر قدم اٹھانے میںکوئی دلچسپی نہیںرکھتیں۔ ایساکیوں ہے ؟ شائد ایسے قدم سے اُن کے اپنے کئی اراکین اوراُن کے ہم جولی بیوروکریٹوں کا ا س کی زدمیں آنے کااندیشہ لاحق ہے لیکن اُن کا یہ فعل بلاشبہ عوام اور اُن کے مفادات کے لئے زہر قاتل ہے جو کہ رشوت اوربھرشٹاچار کی چکی میں بری طرح پسے جارہے ہیں۔ اندریں حالات رشوت اور بھرشٹاچار سے تنگ آئے ہوئے ظلم وستم کی اس چکی میں پستے جارہے عوام آواز بلند کریں اور حکمرانوں و پارلیمانی اپوزیشن کے ایوانوں کو لزرہ پر اقدام کردیں۔ آج تک ہر برسراقتدار آنے والے گروہ نے کبھی راشیوں اور بھرشٹاچاریوں کے خلاف ’’یوم حساب‘‘ کانعرہ بلند کیا۔ کبھی جھیل ڈل میںغرق کرنے کی دھمکی دی۔ کبھی احتساب کی رٹ لگائی لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلاہے اور عوام رشوت اور بھرشٹاچار کی چکی میں بدستور پسے جارہے ہیں۔ حکمرانوں اور پارلیمانی اپوزیشن پارٹیوں نے غیر متعلقہ مسائل پر اس قدر اُودھم مچائے رکھاہے کہ عوام اپنے بنیادی اور حقیقی مسائل اُبھارنے کے ہی ناقابل بنادئے گئے ہیں، جیسا کہ رشوت اور بھرشٹاچار کے علاوہ روزمرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے کاری ، بھوک، افلاس، بنیادی حقوق کے سلسلہ میں سلوک ہورہاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام حکمران اورپارلیمانی اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے بنائے گئے چکر ویو سے آزاد ہوکر زندگی کو درپیش حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں اور اُنہیں حل کرنے کے لئے احتجاجی تحریک چلائیں،جن میں رشوت اور بھرشٹاچار کے خلاف احتجاجی تحریک کے درجہ اول کے شعبہ میں شمار کی جانی چاہیے۔ وگرنہ رشوت اور بھرشٹاچار عوام اور عوامی زندگی کو تباہ وبرباد کردے گا۔
کہتاہوں وہی بات سمجھتاہوں جسے حق
نہ ابلہء مسجد ہوں میں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفاء مجھ سے ہیںبیگانے بھی ناخوش
میں زہر ِ ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ بندئہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوئہ دماوند
(اقبال)
رابطہ؛[email protected]