سبزار احمد بٹ
انکُش کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے اور اس کا باپ چمچ سے اُسے کھانا کھلا رہا تھا۔ کیوں کہ اس کے دونوں ہاتھ سُن پڑ چکے تھے۔ گھر کے سبھی لوگ بڑی خاموشی سے یہ دردناک منظر دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ جس گھر میں ایک جوان بیٹا بستر پر پڑا ہوا ہو اور اپنے ہاتھ بھی نہ ہلا سکتا ہو اس گھر کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے _ میں جونہی کمرے میں داخل ہوا تو مجھے دیکھ کر سب لوگ زور زور سے رونے لگے _جیسے اس گھر پر ایٹم بم گرا ہو۔ایک ایک کر کے سارے مجھ سے لپٹ گئے اور زاروقطار رونے لگے _۔ میں خاموش کھڑا رہا کیونکہ میں جانتا تھا کہ ان کو مجھ سے کافی توقعات تھیں۔ _ انکُش کی ماں نے روتے ہوئے کہا _
” انظر میں تو تمہیں اپنا بیٹا سمجھتی تھی لیکن تم نےکبھی مڑ کر نہیں دیکھا ،انظر تم دونوں اسی گھر میں پلے بڑھے ہو، اُنکش کے ساتھ کام بھی کرتے تھے، تب ہم غریب تھے، آج ہمارے پاس بھگوان کا دیا ہوا سب کچھ ہے بس انکش کے ہاتھ بے کار ہیں _ کاش میرے انکش کے ہاتھ ٹھیک ہوجاتے۔ انکش پھر پہلے جیسا ہو جاتا، ایسی دولت کا کیا فائیدہ جو دوائیوں کے کام بھی نہ آ سکے، اس سے اچھا تھا کہ ہم غریب ہی رہتے ۔‘‘ ماں جی کی باتیں سُن کر میری آنکھیں بھی بھر آئیں،
کیونکہ وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ اُن کے اندر کا درد اشکوں کی صورت میں باہر نکل رہا تھا _۔
’’بیٹے کن گناہوں کی سزا ملی ہے ہمیں؟
تمیں تو معلوم ہی ہے کہ میرا بیٹا کتنا اچھا اور نیک تھا _ تم نے تو بچپن اسی کے ساتھ گزارا ،نہ جانے کس کی بددعا لگ گئی میرے لعل کو؟؟ ‘‘
میں خاموشی سے انکش کے سرہانے بیٹھ گیا اور سر کو سہلاتے ہوئے پوچھا _
” انکش یہ سب کب اور کیسے ہوا؟
انظر میرے یار دو مہینے پہلے اچانک میرے ہاتھوں میں سوئیاں سی چھبنے لگیں ،اور دھیرے دھیرے مکمل طور پر سُن پڑ گئے _ کوئی چونٹی بھی کاٹے تو پتہ بھی نہیں چلتا میرے ہاتھ ہیں بھی کہ نہیں _۔
کسی ڈاکٹر کے پاس گئے تھے کیا ؟
بہت سارے ڈاکٹروں کو دکھایا، شہر کے سب سے بڑے نیرولوجسٹ کو بھی دکھایا لیکن اُس کو بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔
کوئی ٹیسٹ وغیرہ؟
ارے ہر قسم کے ٹیسٹ کروائے ،یہ دیکھو، اُس نے سرہانے رکھے ہوئے ٹیسٹ رپورٹوں کی جانب آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’بیٹا ڈاکٹر خود حیران ہیں، چنڈی گڑھ تک لے گئے رتی بھر بھی فرق نہیں پڑا‘‘ انکش کی ماں نے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔
’’ ایسا لگتا ہے جیسے میرا جسم ادھورا ہوگیا ہے، میرے دوست ایک ایک چیز کا محتاج ہو گیا ہوں، خود کھا پی نہیں سکتا، واش روم نہیں جاسکتا، میں تو ایک زندہ لاش بن گیا ہوں، بوجھ ہوں اپنے گھر والوں پر بوجھ۔۔۔۔۔! ‘‘
’’ ارے نہیں یار ایسا نہیں کہتے ، اوپر والا سب کچھ ٹھیک کر دے گا‘‘ انکش میری طرف مایوس نظروں سے دیکھتے ہوئے مسلسل آنکھوں سے آنسوں بہا رہا تھا _ ۔
’’میرے دوست مجھے کس کی نظر لگ گئی۔ میرے ہاتھوں نے ایسا کیا کیا کہ بے کار ہی ہو گئے _ میں تو کسی کو تکلیف بھی نہیں دیتا تھا _‘‘۔
یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے پندرہ برس قبل کا واقعہ رقص کرنے لگا جسے انکش بھلا چکا تھا _،،
ہم دونوں ایک چھوٹا سا ڈھابہ چلاتے تھے، میں خدمت کے لیے تھا اور انکش کیش کائونٹر سنبھالتا تھا۔ کئی روز سے دھندھا مندا چل رہا تھا، گرمی کے دن تھے دوپہر کے وقت ہمارا ڈھابہ بالکل خالی تھا۔ ہم گراہکوں کی راہ دیکھ رہے تھے کہ اچانک سے ایک منی بس ہمارے ڈھابے کے سامنے رُک گئی تو ہم دونوں خوش ہوئے، _ اتنے میں چند گاہک گاڑی سے اترے اور ہمارے ڈھابے پر آئے۔ _ ایک بزرگ انسان اپنے بیٹے کے ساتھ ہمارے ڈھابے میں داخل ہوا جس کے نورانی چہرے پر سفید داڑھی تھی _ سر پر گول ٹوپی اور ہاتھ میں عصّا تھا ،کرسی پر بیٹھتے ہی بزرگ نے بیٹے سے کہا۔ بیٹا پہلےاُن کو چائے روٹی کا کہو کہ کتنے میں ملتی ہے _ لڑکے نے میرے پاس آکر پوچھا جناب چائے اور روٹی ملے گی؟
اس سے قبل کہ میں اسے کچھ کہتا انکش نے کاونٹر سے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اُس سے مخاطب ہواکہ دُودھ ختم ہو گیا ہے، دال چاول ،اور سبزی روٹی ہے۔
لڑکے نے بزرگ کو بتایا تو اُس نے کہا،’’ بیٹا پہلے پتہ کرو کہ دو پلیٹ دال روٹی کتنے میں ملے گی بعد میں یہ لوگ جھگڑا کرتے ہیں‘‘۔ لگتا تھا بزرگ کسی تلخ تجربے سے گزر چکا تھا _ وہ لڑکا بجھے ہوئے قدموں سے کونٹر کی جانب آیا اور ادب سے پوچھا، جناب دو پلیٹ دال روٹی کتنے میں ملے گی ؟
’’پہلے آپ کھانا کھا لیں ریٹ بعد میں کر لیں گے جاؤ بیٹھو میں بھیجتا ہوں _۔‘‘
تھوڑی دیر بعد میں نے اُن کے آگے دال روٹی رکھ دی تو بزرگ نے کہا _
’’ہم نے تو صرف ریٹ معلوم کیا تھا اور تم لے بھی آئے ،چلو ٹھیک ہے قیمت بتا دو‘‘۔
اتنے میں انکش نے آکر کہا، کیا بات ہے،
میں نے کہا یہ پہلے ریٹ معلوم کر رہے ہیں،
’’اس کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہو‘‘
یہ سُنتے ہی بزرگ نے کہا، ’’آپ یہ اُٹھا لیجئے میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں _‘‘۔
پیسے نہیں تھے تو کھانا منگوایا کیوں؟ انکش بھڑک اُٹھا۔
ہم نے کب منگوایا، ہم تو ریٹ ہی پوچھ رہے تھے کہ آپ نے ٹیبل پر رکھ دیا،
تم نے نہیں منگوایا تو کیا تمہارے باپ نے منگوایا ؟
ٹیبل پر رکھا ہوا کھانا واپس نہیں ہوتا، اب یہ جھوٹا ہو گیا ہے۔‘‘
بزرگ نے بڑی حلیمی سے کہا _ ’’بیٹا ٹیبل پر رکھنے سے جھوٹا کیسے ہوگیا؟ ‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے انکش اُس پر برس پڑا، ناجائز گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ وہ دونوں لال پیلے ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ بزرگ انکش سے کچھ کہتا انکش نے اُسے داڑھی سے پکڑ کر ڈھابے سے باہر نکال کر اُس کو اُسی کے عصا سے پیٹنا شروع کردیا۔ ’’بھکاری کہیں کا، جیب میں پیسے نہیں تھے تو کھانا کیوں لگوایا‘‘۔ میں نے انکش کو روکنے کی کوشش کی لیکن اُس نے مجھے بھی دھکا مارا، میں ہاتھ مل رہ تھا۔ سب لوگ تماشا دیکھ رہے تھے کسی نے بات نہیں کی _ میں بھی ایک بے غیرت کی طرح بس دیکھتا رہا _۔
بزرگ نے جو دھکے کی وجہ سے زمین پر گرا ہوا تھا اُٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
’’جن ہاتھوں سے تم نے میرے سفید ریش کو پکڑ کر باہر نکالا تمہارے یہ ہاتھ بے کار ہو جائیں‘‘ پھر اُس نے اپنے آنسو پونچھے اور بس میں سوار ہوگیا۔،،
���
اویل نور آباد، کولگام، 7006738436